نو مئی۔۔میں کانپ اٹھتا ہوں

بصیر نوید

نو مئی 2023، پاکستان میں طویل عرصے یا شاید اگلے کم از کم 25 سالوں تک تو یاد رکھا جائے گا، ابھی تو اس پر کتابیں بھی لکھی جانی ہیں، فیچر فلمیں، اور ڈاکو منٹری فلمیں بننا باقی ہیں۔ پوری کوشش ہے کہ 9 مئی کو بدنام زمانہ نائین الیون کے ہم پلہ بنادیا جائے اور پھر اس واقعہ کے پیچھے روپوش کئی اسامہ بن لادن کی تلاش بھی کرنا ہے جس کا عندیہ قاضی القضاہ نے ایک سماعت کے دوران دیا ہے، دیکھا جائے ان واقعات کے پیچھے کون تھے۔

سرکاری سطح پر 9 مئی کو ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اکسائی گئی شہری بغاوتٹھہراتے ہوئے اسے فخریہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ مسلح افواج کیخلاف ایک سازش تھی جسے بروقت بے نقاب کردیا گیا۔اسے بے نقاب کرنے کیلئے جیو فینسنگ، گرفتار و لاپتہ افراد کے بیانات، اور میڈیا ہاؤسز سے ایک ہی نوعیت کے کورس میں الاپے گئے راگوں کیاستعمال جیسے طریقے بروئے کار لائے گئے۔ ایک ہی دن میں سینکڑوں مرد و خواتین ریاست دشمن بن گئے، یوں ریاست اور مبینہ ریاست دشمنوں کے درمیان اعصاب کی ایک طویل جنگ شروع ہوگئی ہے۔

ایک طرف سخت سزاؤں کے قوانین اور دوسری طرف سیاست و انتخابات کا مقابلہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے ایک منصوبے کے تحت مختلف جتھے بنا کر اپنے جاں نثاروں کو تیار کیا ہوا تھا کہ جیسے ہی عمران خان پکڑے جائیں وہ متعین کردہ فوجی اہداف پر حملے کردیں۔ یہ اپیل ہر خاص و عام کیلئے نہیں دی گئی تھی بلکہ جو جتھے ترتیب دیئے تھے ان کے سرکردہ لوگوں کو دی گئی تھی۔ میں تو دہل جاتا ہوں یہ سوچ کر اگر عمران خان اس مقصد کیلئے کھلے عام یعنی ہر خاص و عام سے 9 مئی جیسے واقعات کی اپیل کردیتے، سوچیئے اس وقت کیا ہوتا؟

ابھی یہ معاملہ سلجھانا باقی ہے کہ محدود پیمانے پر اپیل کے باوجود اتنا بھاری نقصان پہنچانے کے پیچھے کون سے عوامل تھے، لوگوں میں اتنا وحشتناک غصہ کیوں تھا؟ 9 مئی کے بلوائیوںکیلئے کہیں رکاوٹ کا انتظام نہیں کیا گیا۔ جبکہ بلوائیوں کے حمایتی افراد کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے افراد یا ادارے عوام کے رد عمل کو دیکھ کر ڈر گئے تھے اس لئے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی گئی۔ بہرحال یہ ایک معمہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے میدان عمل میں کیوں نہیں آئے جو کہ ان کے فرائض اولین میں شامل ہے؟ ہم یہاں تصور کرلیتے کہ اس روز عمران خان ہر خاص و عام کو اپیل کرتے کہ باہر نکل آؤ اور مقابلہ کروتو پھر کیا ہوتا؟ میرا خیال ہے لوگ نکل آتے اور بہت زیادہ تعداد میں، پھر بہت بڑا ہوچکا ہوتا یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سب سے بڑا نشانہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی ہوتے۔ اور یہی اندازہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کو بھی معلوم تھا اسی لئے انہوں نے 9 مئی کو کوئی رکاوٹ نہیں کی۔

انہیں پتہ ہے کہ لوگ کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی عمل کے سبب ان کیلئے کوئی آسانیاں پیدا نہیں ہورہی ہیں اور نہ ہی جمہوریت لنگڑی لولی شکل میں بھی انہیں مل پارہی ہے، ان کے حق رائے دہی کی حیثیت ایک ٹشو پیپر کے ٹکڑے سے بھی زیادہ کی نہیں ہے۔ بار بار طویل عرصے تک مارشل لاء آتے ہیں اور جب ان سے ملک سنبھل نہیں پاتا تو وہ من پسند انتخابات کرا کر تباہ حال ملک سیاستدانوں کے حوالے کرتے ہیں اور جب ملک کے حالات سیاسی عمل کے ذریعے بہتری کی طرف جانے لگتے ہیں تو پھر یا تو مارشل لا لگتا ہے یا پھر اپنے پیدا کردہ سیاسی گروہوں کے ذریعے تجربات کرکے جمہوری و سیاسی عمل کو تہہ و بالا کرکے پھر سے زیرو پر لایا جاتا ہے۔

پاکستان کی پوری تاریخ میں لوگوں نے دیکھا کہ ان کی مرضی یا ان کی شرکت کے باعث ایسے فیصلے کئے گئے ہوں جن سے ملک کو کوئی فائدہ ہوا ہو اس کے برعکس ملک کو نقصان پہنچانے کے تمام فیصلے ایک ہی جانب سے کئے گئے اور عوام پر تھوپنے گئے۔ عوام کو ان پر غصہ ہے اور وہ ایسے فرد کی تلاش میں رہتے ہیں جو سامنے آکر کھڑا ہو اور باقی عمل عوام خود کریں۔ عوام نے بلکہ ان کی دو نسلوں نے افغان جنگ کا خمیازہ بھگتا ہے اور دامے درمہ سخنے اس میں سب کچھ قربان کردیا مگر فیصلہ سازوں کی دولت بڑھتی رہی، ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں خاندان کا خاندان ولایت کو اپنا مسکن بنا بیٹھا، ڈالرز کی چمک فیصلہ سازوں کے کام آئی اور ہر لمحہ غربت کی لکیر بڑھتی رہی۔

عوام کو 53 سال پرانے واقعات کا غصہ ابھی تک ہے جب تمام تر لوٹ مار اور قتل عام کے بعد 90 ہزار اپنوںنے ہی دشمن کے آگے ہنستے کھیلتے ہتھیار ڈال دیئے جن کیلئے شاعروں نے گیت لکھے، گلوکاروں اور گلوکارائین نے جھوم جھوم کر گائے۔ جو ان کو دشمن کی قید سے رہا کرا کر لایا اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ عوام کو ڈیڑھ سو بچوں و اساتذہ کے مجاہدین کے ہاتھوں فوجی چھاونی کے اندر قتل عام پر بھی غصہ ہے اور اس بات پر زیادہ غصہ ہے کہ آج تک کوئی انکوائری نہیں کی گئی جبکہ قاتل کو تحویل سے باعزت طور پر فرار کروادیا گیا۔ سب کچھ فوجی چھاونی کے اندر ہوا جہاں پرندہ بھی بغیر شناخت کرائے گھس نہیں سکتا، مگر دہشت گرد کئی گھنٹوں تک قتل عام میں مصروف رہے۔

عوام کو کارگل پر جنگ چھیڑنے پر بھی غصہ ہے جس میں ہزاروں فوجیوں کو مرواکر ملک میں نو سال کیلئے مارشل لا لگا دیا پھر ڈالروں کی بارش سے جنگ شروع کرانے والوں نے خوب فائیدہ اٹھایا۔ مارشل لا کے دوران جبری گمشدگیوں پر بھی غصہ ہے کہ آئین موجود ہے، قانون موجود ہے، پارلیمنٹ موجود ہر اور عدالتیں موجود ہیں لیکن اصل حاکموں کے آگے صرف ان کی خواہشات موجود ہیں، جس کو چاہیں اٹھالیں جس کو چاہیں عقوبت خانوں میں مار ڈالیں، عدالتوں کو آنکھیں دکھانا، علیحدگی پسندی کا نعرہ لگا کر خاندان کے خاندان اجاڑ دینا، ہر بلوچ اور سندھی ملک دشمن لگے، قومی زباننہ سمجھنے والے پختونوں کا قتل عام کو کوئی برائی نہیں ٹہری۔ بے شمار واقعات و حادثات پر لوگوں کو غصہ ہے جو شمار میں نہیں لائے جاسکتے۔

مگر میں سمجھتا ہوں 9 مئی کے واقعات کرنے والوں کا ملک پاکستان پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اپنی اپیل کو اپنی پارٹی کے محدود افراد تک ہی محدود رکھا ورنہ عام اپیل پر عوام کا غصہ کیا کچھ نہ کرسکا ہوتا۔ میں تو یہ سب سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں اور یہ سوچ کر بھی کہ نہ جانے بلوائیجھنڈے کہاں کہاں لہرا دیتے۔


One Comment