جب علم و دانش شجرممنوع بنا

بیرسٹر حمید باشانی

 آج میں جس آدمی کے بارے میں لکھ رہا ہوں، اس کو آپ لکھاریوں کا باوا آدم کہہ سکتے ہیں۔ اس شخص نے ایک ایسے دور اور ماحول میں دو سو ساٹھ سے زائد کتابیں لکھی ہیں، جس دور میں ایک کتاب لکھنا بھی جوئئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ لیکن یہاں ایک یا دو نہیں،  بات ہو رہی ہے دو سوساٹھ کتب کی۔ اور یہ کتابیں بھی کوئی ہلکے پھلکے، رومانوی، ادبی یا جاسوسی موضوعات پر نہیں، بلکہ سائنس اور فلسفے کے مشکل اور پیچیدہ ترین موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اس نے جیومیٹری پر بتیس کتابیں لکھی ہیں۔  طب اور فلسفہ پر اس نے ایک سو بائیس کتابیں لکھیں۔ اسی طرح منطق پر نو، فزکس پر بارہ کتابیں لکھی ہیں۔

جس شخص کا میں یہاں ذکر کر ہا ہوں اس نابغہ روز گار کام نام یعقوب الکندی ہے۔ اس کے چھوڑے ہوئے ورثہ میں اس کی  کچھ کتابوں کے علاوہ اس کے بارے میں مشہور ہونے والی کئی المناک کہانیاں بھی شامل ہیں۔ یہ کہانیاں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تاریخ میں اسلامی دنیا اور سلطنتوں کے اندر آزادی اظہار و فکر پر کس قدر پابندیاں تھی، اور نئی بات کرنے والوں اور نئی سوچ سوچنے والوں نے کس طرح  جابر، ظالم یا متعصب حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے سچائی کو سامنے لایا، اور اس کی اپنی زندگی سمیت کیا کیا قیمت ادا کی۔

ان کہانیوں سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلامی دنیا میں سائنسی اور عقلی سوچ کیوں نہ پنپ سکی، اور یہ راز بھی کھلتا ہے کہ آج بھی اسلامی دنیا سانئس ، فلسفہ، علم، اور منطق سے اتنی دور کیوں ہے۔۔۔۔ اگرچہ ان کی زیادہ تر کتابیں صدیوں کی بے توجہی، اور عقل دشمنی کی مہمات کے دوران گم ہو چکی ہیں، لیکن چند ایک لاطینی ترجمے کی صورت میں زندہ بچ گئی ہیں، جو کریمونا کے جیرارڈ کے ذریعے کیے گئے ہیں، اور دیگر عربی نسخوں میں دوبارہ دریافت ہوئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے کھوئے ہوئے کاموں میں سے چوبیس نسخے بیسویں صدی کے وسط میں ترکی کی ایک لائبریری سے ملے ہیں۔

 الکندی کوفہ کے ایک بزرگ گھرانے میں پیدا ہوئے، جو کہ سردار اشعث بن قیس سے تعلق رکھتا تھا، جو  محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر تھے۔ یہ خاندان ابتدائی اسلامی دور میں کوفہ  کے سب سے نمایاں خاندانوں سے ایک تھا۔  لیکن بعد میں عبدالرحمٰن بن محمد بن العاشث کی بغاوت کے نتیجے اس قبیلے نے اپنی زیادہ تر طاقت کھو دی تھی۔ الکندی کے والد اسحاق بصرہ کے گورنر تھے، اور الکندی نے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ بعد میں وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے بغداد چلے گئے ، جہاں انہیں عباسی خلیفہ المامون کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ الکندی کے  مطالعہ کے شوق اور ان کی غیر معمولی ذہانت و قابلیت کی وجہ سے انہیں خلیفہ کی خصوصی توجہ حاصل ہو گئی۔ آگے چل کر المامون نے انہیں بغداد میں یونانی فلسفہ اور سائنسی علوم کے ترجمے کے مرکزہاؤس آف وزڈممیں تعینات کر دیا۔  اس دانش گاہ میں الکندی نے زیادہ تر کام کیا۔ اس نے ایک طرف یونانی فلسفے کو عربی میں متعارف کروایا اور دوسری طرف ہند کے حسابی نظام پر کام کیا۔

جب المامون کا انتقال ہوا تو اس کا بھائی معتصم خلیفہ بنا۔ المعتصم کی خلافت کے تحت الکندی کی پوزیشن میں اضافہ ہوا۔ خلیفہ نے اسے اپنے بیٹے کا ٹیوٹر بھی مقررکرد یا۔ لیکن آنے والے وقتوں میں قدامت پرست اور مذہبی شدت پسندی کے شکار حکمرنوں کے زیر ثر الکندی کو سخت مشکلات و مصاہب کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر المتوکل کے دور میں الندی کو سخت مخاصمت اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بارے میں مختلف نظریات اور روایات موجود ہیں۔ بیشتر تاریخ دان الکندی کے زوال کو ایوانِ حکمت میں علمی دشمنی کے رحجانات  کا تیزی سے فروغ اور ان کی مضبوطی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں متوکل کے غیر روایتی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ  اکثر متشدد رویے اور ظلم و ستم کا حوالہ  بھی دیا جاتا ہے۔

متشدد رویوں کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر الکندی کو مارا پیٹا گیا اور اس کی لائبریری کو  ضبط کر لیا گیا۔ ہینری کوربن،  جن کو اسلامی علوم پر ایک اتھارٹی سمجھا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ 873 میں بغداد میں الکندی کی موت ایک تنہا آدمیکے طور پر ہوئی تھی، جس کو حکمرانوں اور سول سوسائٹی دونوں نے دھتکار دیا اور فراموش کر دیا تھا۔ اس کی موت کے بعد، الکندی کے فلسفیانہ کام تیزی  سےمنظر عام سے غائب کر دیا گیا۔فلیکس کلین “اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ اس کے نزدیک المتوکل کے متشدد اور قدامت پرستانہ نظریات کے علاوہ کئی دوسرے عوامل تھے، جنہوں نے الکندی کے کام کو شدید نقصان پہنچایا۔ منگولوں کےحملوں کے دوران ان گنت لائبریریوں کو بھی تباہ کر دیا گیا تھا، جن میں الکندی کا زیادہ تر کام محفوظ تھا۔

تاہم، وہ کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ الکندی کی تحریروں کو بعد میں آنے والے بااثر فلسفیوں جیسے الفارابی اور ایویسینا نے مسترد کردیا تھا۔  اس سلسلے میں جس روایت کو سب سے زیادہ قبول کیا گیا وہ یہ ہے کہ الکندی کی فکر کے مخالفین نے ملک کی قدامت پرست اور رجعت پسند قوتوں کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کیا ، اور اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام  کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔

مؤرخین کی ایک بڑی تعداد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کہ تاریخی ریکارڈ کے مطابق الکندی کو اس کے حریفوں اور کئی علم و عقل دشمن قوتوں کی طرف سے ظلم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔  خاص طور پر خلیفہ المتوکل  کے دور میں  اس کے خلاف سازشوں کا ایک جال بچھا دیا گیا تھا ، جس کی وجہ سے اس کی زندگی کا یہ دور سب سے مشکل ترین دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کچھ تاریخ دان اس دور کو باقی ادوار کی نسبت بہتر قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دانشوروں اور فقہا کے بارے میں خلیفہ کا رویہ کافی نرم تھا۔ اسی دور میں امام احمد بن حنبل کو رہا کیا گیا تھا۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ اسی دور میں غیر مسلموں کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا گیا۔ ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ان غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ روشن خیال، اور سائنسی و عقلی خیالات رکھنے والے اسلامی سکالرز بھی تشدد اور نا انصافی کا شکار ہوئے۔ اس دور میں ایسے افراد و گروہ بہت مضبوط اور با اثر ہو گئےتھے، جن میں مذہبی رواداری نہیں تھی۔ ان کی سوچ میں شدت پسندی تھی۔ وہ غیر مسلموں کے کٹر دشمن تو تھے ہی ، لیکن وہ خود اسلام کے اندر کسی نئی سوچ یا خیال کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

خاص طور پر بنو موسیٰ برادران نے علمی و سائنسی رقابت میں اس کے خلاف  کئی گھناونی سازشیں کیں۔  انہوں  الکندی کے خلاف خلیفہ المتوکل کے کان بھرے، اور اس کی لائبریری کی تمام کتابوں کو ضبط کر کہ  بنو موسیٰ کے حوالے کر دیا ۔ آگے چل کر حالات مزید خراب ہوتے گئے  یہاں تک کہ 873 میں خلیفہ المعتمد کے دور میں بغداد میں الکندی کا انتقال ہو گیا۔ اکندی کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کا شکار آج بھی کئی اسلامی  ممالک میں اسلامی سکالرز اور دانشور ہو رہے ہیں۔ اس طرح بیشتر اسلامی ممالک میں سائنس اور عقل دشمنی کا جو ماحول نظر آتا ہے، وہ اسی طرح وسیع پیمانے پر پائی جانے والی شدت پسندی اور رجعت پسندی کا نتیجہ ہے۔ ان ممالک کی معاشی و سماجی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ وجہ یہی علم و عقل دشمنی ہے، جس کی سماج پر گرفت ہے۔

Comments are closed.