پاکستانی حکومت نے سال نو کی تقریبات پر پابندی لگا دی

فلسطینی علاقوں کی انتہائی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی حکومت نے ملک میں سال نو کی تقریبات کے حوالے سے ہر قسم کے پروگراموں پر پابندی عائد کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری طرف تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین پچھلے دو ہفتوں سے سخت سردی میں اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ ان کے پیاروں کے بارے میں بتایا جائے کہ آیا وہ ہلاک ہو چکے ہیں یا حکومتی تحویل میں ہیں۔

پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے جمعرات کے روز کہا کہ فلسطینی علاقوں میں تشویشناک صورتحال کے پیش نظر اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستانی حکومت نے ملک میں سال نو کے حوالے سے ہر قسم کی تقریبات پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔

اس حوالے سے قوم سے اپنے ایک مختصر نشریاتی خطاب میں انوار الحق کاکڑ نے اپنے ہم وطنوں سے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے اور نئے سال کے موقع پر تحمل اور عاجزی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔وزیر اعظم کاکڑ نے کہا کہ پوری پاکستانی قوم اور امت مسلمہ فلسطینیوں، بالخصوص بچوں کی ہلاکتوں اور غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے علاقے میں شہریوں کی اموات پر شدید رنج کے عالم میں ہے۔

پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ فلسطینی علاقوں کی انتہائی تشویشناک صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے، پاکستان میں نئے سال کی مناسبت سے ہر قسم کی تقریب کے انعقاد پر سخت پابندی عائد ہو گی‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا، میں اس موقع پر پاکستانی عوام سے بھی یہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور نئے سال کے آغاز پر سادگی کو ملحوظ خاطر رکھیں‘‘۔کاکڑ نے مزید کہا کہ پاکستان نے دنیا کے ہر فورم پر مظلوم فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھائی ہے اور پاکستان آئندہ بھی ایسا کرتا رہے گا۔

نگران وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لیے امدادی سامان کی دو کھیپیں بھیج چکا ہے جب کہ تیسری کھیپ بھی جلد بھیجی جا رہی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت پاکستان فلسطینی عوام کی بروقت امداد، غزہ سے زخمیوں کے انخلا اور ان کے علاج کے لیے مصر اور اردن کے ساتھ قریبی رابطے میں بھی ہے۔

غزہ کی جنگ کے حوالے سے اگرچہ وہاں مارے جانے والے فلسطینی عسکریت پسندوں اور عام شہریوں کی اموات سے متعلق اعداد و شمار الگ الگ کر کے نہیں بتائے گئے، تاہم اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کا خیال ہے کہ غزہ پٹی میں  مجموعی فلسطینی ہلاکتوں کی یہ تعداد درست ہے۔

یہ جنگ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر عسکریت پسند تنظیم حماس کے اس اچانک اور بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، جن میں بہت سی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے حملہ آور جاتے ہوئے تقریباً 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ ان یرغمالیوں کی بڑی تعداد ابھی تک حماس کے عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہے۔

بشکریہ:۔

dw.com/urdu ویب نیوز و

Comments are closed.