فاروق اعظم
ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے اقتصادی مسائل کی نشاندہی اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے انقلابی تبدیلیوں کی تجاویز پیش کیں اور کہا کہ پاکستان کو وقتی پالیسیوں کے بجائے دیرپا معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ساتھ مل کر ‘روشن مستقبل کے لیے اصلاحات، فیصلہ کن گھڑی‘ کے نام سے ایک رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ملک بھر سے اکیس یونیورسٹیوں کے اسکالرز، مختلف اداروں اور اسٹیک ہولڈرز کا نقطہ نظر شامل کرنے کے بعد اقتصادی مسائل کی نشاندہی اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے پانچ شعبہ جات میں انقلابی تبدیلیوں کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
ورلڈ بینک ساؤتھ ایشیا کے نائب صدر مارٹن ریزر کے مطابق پاکستان کو وقتی پالیسوں کے بجائے ‘تصویر کا جامع رخ‘ مدنظر رکھتے ہوئے دیرپا معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق ”پاکستان اپنی ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اس لیے یہ فیصلہ کن گھڑی ہے۔ گزشتہ برس کا سیلاب اس بھیانک حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کیسے موسمیاتی آفات کی زد پہ ہے۔ اسے فیصلہ کرنا ہے کہ ماضی کی روش پر چلنا ہے یا روشن مستقبل کے لیے مشکل لیکن انتہائی ضروری اقدامات اٹھانے ہیں“۔
جامع معاشی اصلاحات کی ضرورت
مارٹن ریزر کے مطابق ”مجھے سن 1988 میں لندن اسکول آف اکنامکس میں اپنی پہلی کلاس کی بات یاد ہے جہاں پاکستان خطے میں انسانی خوشحالی کے حوالے سے بطور مثال ذکر کیا گیا۔ تب سری لنکا کے بعد یہ فی کس آمدنی میں باقی تمام ممالک سے آگے تھا۔ اب یہ فی کس آمدن کے اعتبار سے آخر سے دوسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران زرعی پیداوار کی صلاحیت میں سالانہ اضافے کی شرح ایک فیصد رہی جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت میں یہ شرح چار فیصد رہی۔ ایک ایسا ملک جس کی چالیس فیصد مقامی لیبر زراعت سے وابستہ ہے اس کے لیے یہ اعشاریے تشویشناک ہیں۔ کیا یہ بحرانی کیفیت اس بار مستحکم اصلاحات کے لیے متحرک کر پائے گی؟
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سابق وزیرِخزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ ملکی معیشت پہلے بھی قابلِ رشک حالت میں نہ تھی کہ کورونا نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ پاشا کے مطابق اس وقت گیارہ کروڑ یعنی تقریباً چوالیس فیصد لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور تقریباً 75 لاکھ افراد بے روزگار ہیں لیکن خوفناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے حالات مزید سنگین ہونے کے خدشات ہیں۔ ایسے میں جامع معاشی اصلاحات کے سوا کوئی حل نہیں۔
پاشا کے بقول، ”یہ اصلاحات ہمیں خود کرنا چاہیے تھیں لیکن ہم نہ کر سکے۔ اب عالمی ادارے ہم سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے ہم ایسی پوزیشن میں نہ چلے جائیں جہاں ان سے لیا گیا قرض واپس کرنا ممکن نہ رہے۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ جامع اور زمینی حقائق سے قریب ہے“۔
-
اولین اور اہم ترین مسئلہ ‘ہیومن کیپٹل کا بحران‘
رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اولین اور اہم ترین مسئلہ ہیومن کیپٹل کا بحران ہے جہاں دستیاب انسانی وسائل کا کم استعمال پیداوار اور ترقی کو متاثر کر رہا ہے۔”پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر چالیس فیصد بچے ‘اسٹنٹنگ‘ کا شکار ہیں۔ ایسا صاف پانی اور صحت مند غذا کے فقدان، بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفے کی کمی اور صحت کی سہولیات تک عدم رسائی کے سبب ہو رہا ہے۔ سالانہ جی ڈی پی کے ایک فیصد اضافی خرچ سے یہ مسئلہ دہائی کے اختتام تک نصف سطح تک لایا جا سکتا ہے“۔
ہیومن ڈویلپمنٹ بحران کا دوسرا پہلو تعلیم سے جڑا ہے۔ ”کم و بیش دو کروڑ اسی لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جو اسکول جاتے ہیں وہ اساتذہ کی کمی اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب پوری طرح مستفید نہیں ہو پاتے۔“رپورٹ کے مطابق ”پاکستان محض مذکورہ بالا دونوں مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو سن 2047 تک اس کی فی کس آمدنی تین گنا بڑھ سکتی ہے۔ اس کے لیے بجٹ میں رقم ڈبل کے تقریباً پانچ فیصد کرنا ہو گی“۔
-
مستحکم مالیاتی نظام کی ضرورت
اس رپورٹ کے مطابق دوسرا نکتہ مستحکم مالیاتی نظام کی ضرورت ہے تاکہ جمع شدہ ٹیکس درست جگہ استعمال کیا جا سکے۔
”پاکستان کا مالی خسارہ بہت زیادہ ہے اور قرضہ جات کی مد میں اتنی رقم ادا کرنا پڑتی ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود پر بہت معمولی رقم خرچ ہو پاتی ہے۔ آئندہ مالی سال 70 فیصد سے زیادہ ریونیو موجودہ قرض اتارنے کی مد میں خرچ ہو جائے گا۔“۔
رپورٹ میں مالیاتی اصلاحات کے لیے تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں جن میں ”بعض اداروں کی نجکاری، مختلف شعبہ جات میں غیر ضروری اور غیر مستحق طبقات کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ۔ قیمتیں بڑھانے کے بجائے ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنا” شامل ہیں۔
-
زیادہ متنوع اور اوپن معیشت کی ضرورت
رپورٹ کے مطابق ”پاکستانی معیشت مسابقت کے فقدان اور سرمایہ کاری کے مشکل نظام کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ موجودہ معاشی پالیسیاں ریئل اسٹیٹ جیسے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں جبکہ انہیں ایسے شعبہ جات میں آسان قوانین متعارف کروانے چاہییں جن میں سرمایہ کاری کے ثمرات کا دائرہ وسیع ہو“۔
زرعی شعبے میں نئی جان پھونکنے کی ضرورت
ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں زرعی شعبے کی ترقی کو معیشت، ملازمتوں کی پیداوار اور غربت کے خاتمے کے لیے انتہائی اہمیت دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ”ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ اب زرعی شعبے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں وقت کی ضرورت ہیں۔ حکومت کو مختلف اقسام کے بیج اور فصلوں پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لیے بجٹ مختص کرنا چاہیے۔ چھوٹے کسانوں کو سبسڈی دینی چاہیے تاکہ غذائی اجناس کی پیداوار بڑھے اور ان کی قیمتیں کم ہوں۔“
-
توانائی کے شعبے کا بحران، معیشت کی ترقی میں رکاوٹ
رپورٹ کے مطابق ”بجلی کی چوری، بلوں کی عدم ادائیگی، طویل مدتی مہنگے ٹھیکے اور ان سب کے نتیجے میں پیدا ہونے والا توانائی کے شعبے کا بحران پوری معیشت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ عالمی کمپنیوں کو مواقع دے کر، مسابقتی فضا کے ذریعے سستے ٹھیکے کرنے سے توانائی کا شعبہ بہتر کیا جا سکتا ہے۔“
کیا ورلڈ بینک کے اصلاحاتی منصوبے پر عمل درآمد ہو سکے گا؟
مارٹن ریزر کے مطابق ”یہ اصلاحاتی ایجنڈا کوئی نئی بات نہیں۔ دراصل پانچ برس پہلے بھی ہم نے کم و بیش ایسی ہی تجاویز پیش کی تھیں۔ لیکن ابتدائی قدم اٹھانے کے بعد بتدریج اصلاحاتی کوششیں ترک کر دی گئیں۔“
ڈاکٹر حفیظ پاشا ہمیں بتاتے ہیں کہ ”دو وجوہات کی بنیاد پر لگتا ہے کہ مذکورہ شعبہ جات میں جامع اصلاحات ہو کر رہیں گی۔ پہلی یہ کہ عالمی مالیاتی ادارے قرض کی فراہمی اصلاحاتی ایجنڈے سے مشروط کر رہے ہیں اور وہ اس پر سختی سے عملدرآمد چاہتے ہیں، اس لیے حکومتوں کو مشکل فیصلے لینے ہی پڑیں گے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے اسٹیک ہولڈرز سمجھ چکے ہیں کہ یہ ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے، ایک طرح سے اب اس پر اتفاق رائے ہے“۔
معروف ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کے بقول، ”ملک میں بالادست طبقے اور اشرافیہ کو موجودہ نظام فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اس لیے انہیں معاشی نظام میں اصلاحات لانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔“۔
بشکریہ: ۔
dw.com/urdu