اقبال احمد سے ایک انٹرویو


ڈیوڈ برسامیاں


سوال: آپ اپنی زندگی میں جن دلچسپ اور معروف شخصیات سے ملے ہیں ان میں سے ایک الجیریا کے ماہر نفسیات فرانز فینن بھی تھے۔ فینن سے ملاقات کے بارے میں کچھ بتائیں۔

اقبال احمد : جب میری فرانز فینن سے ملاقات ہوئی تو وہ کچھ بیمار تھے۔ اس ملاقات کے چند ماہ بعد ان کی خون کے کینسر لیوکیمیا کی تشخیص ہوئی اور انہیں پتہ چلا کہ موت ان کا شدت سے انتظار کر رہی ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی معرکہ آرا کتاب

THE WRTECHED OF THE EARTH

بڑی جلدی میں لکھی تھی۔ فینن الجیریا کی فرانس سے آزادی کی جدوجہد میں شامل تھے اور اس جدوجہد نے انہیں بہت بدل دیا تھا۔

سوال: آپ امریکی رہنما میلکم ایکس سے بھی مل چکے ہیں۔ آپ کو ان دونوں رہنماؤں میں کیا مشترک اور کیا مختلف دکھائی دیا؟

جواب : فرانز فینن زیادہ اور میلکم ایکس کم تعلیم یافتہ تھے۔ دونوں نے نسلی تعصب کا سامنا کیا اور اس تعصب نے ان کے سماجی شعور کو بڑھاوا دیا۔ دونوں کے دلوں میں سفید فام استعماریت کے خلاف غصہ تھا۔

دونوں پہلے علیحدگی پسند تحریک کا حصہ تھے لیکن اپنی جدوجہد کے دوران انہوں نے رنگ اور نسل سے بالاتر ہو کر انسانیت کی یکتائی کو پہچانا۔ نسلی جدوجہد کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبقاتی جدوجہد کو بھی گلے لگایا۔

جب ان کا نسلی اور طبقاتی شعور بڑھا تو انہوں نے استعماری طاقت کے خلاف پرزور بغاوت کی۔ ان دونوں کی جدوجہد ہم پر واضح کرتی ہے کہ انسان کس طرح جدوجہد کے دوران اپنی اور دوسروں کی انسانیت سے متعارف ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ فینن کی کتابوں میں جہاں تشدد کا ذکر ہے اسے صحیح نہیں سمجھا گیا۔

یورپ اور امریکہ کے دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ فینن تشدد کو بڑھاوا دیتے ہیں تشدد کا جشن مناتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فینن کے فلسفے میں جدوجہد اور تشدد میں بڑا فرق ہے۔ فینن استعماری طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد کے حق میں تھے لیکن بے وجہ اور بے مقصد تشدد کے حق میں نہیں تھے۔

A DYING COLONIZATIONاگر ہم فینن کی دوسری کتاب

کا مطالعہ کریں تو ہم پر ان کا جدوجہد کے بارے میں موقف زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ فینن کے استعماریت سے آزادی کے بعد نیشنلزم کے تصور کے بارے میں بھی تحفظات اور اعتراضات تھے۔ ان کا خیال تھا کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد نئی ریاستوں میں بھی اصحاب بست و کشاد نے عوام پر ظلم ڈھائے ہیں۔

مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ فینن بہت جلد فوت ہو گئے۔ مرتے وقت ان کی عمر چالیس برس بھی نہ تھی۔

سوال: کیا آپ نے فینن کے ساتھ کام بھی کیا تھا؟

جواب: میں نے اس دور میں فینن کے ساتھ چھ ماہ کام کیا تھا جب وہ اپنی تحریک

NATIONAL LIBERATION FRONT…NLF

کے دفتر میں کام کرتے تھے اور ایک زیر زمین رسالے۔ المجاہد۔ کے ایڈیٹر بھی تھے۔

ہم میلکم ایکس کی بات کر رہے تھے۔ میلکم ایکس شروع میں کالوں کی علیحدگی پسند تحریک کا حصہ تھے لیکن جب وہ حج کرنے گئے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ حج میں ساری دنیا کے سارے رنگوں اور نسلوں کے لوگ مل کر حج کر رہے ہیں۔ اس مذہبی تجربے کے بعد وہ باقی قوموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہو گئے۔

میلکم ایکس نے اپنی جدوجہد کے آغاز کے دوران جو علیحدگی پسندی کی تحریک کی غلطی کی وہی غلطی یہودیوں کی صیہونی تحریک نے کی۔ انہوں نے بھی علیحدگی پسندی کی تحریک چلا کر اور سب سے جدا ہو کر اسرائیل بنا لیا۔ اس طرح وہ باقی قوموں سے جدا ہو گئے۔ اس علیحدگی پسندی نے ان کے مسائل کم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیے۔

سوال: کیا آپ کی میلکم ایکس سے ملاقات ہوئی تھی؟

جواب :جی ہاں ہوئی تھی۔ جب میں پرنسٹن یونیورسٹی کا طالب علم تھا تو ہم نے میلکم ایکس کو ایک تقریر کے لیے بلایا تھا۔ اس تقریب کا اہتمام و انتظام میں نے ہی کیا تھا۔

سوال : آپ کی امریکی دانشور نوم چومسکی سے بھی ملاقات ہوئی ہے اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب : انیس سو ساٹھ کی دہائی میں جب امریکہ میں ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا اس وقت تک چومسکی اپنی لسانیات کی تحریروں کی وجہ سے مشہور ہو چکے تھے۔ میرا تعارف ان کے مضمون

THE RESPONSIBILITY OF INTELLECTUALS

کی وجہ سے ہوا تھا۔ وہ بہت ہی عمدہ مضمون تھا۔ اس مضمون نے امریکی دانشوروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

ان ہی دنوں میرا ایک مضمون

HOW TO TELL WHEN THE REBELS HAVE WON

بھی بہت مشہور ہوا تھا۔ میں نے اس مضمون میں لکھا تھا کہ امریکہ ویت نام کی جنگ کب کا ہار چکا تھا اب اسے واپس آ جانا چاہیے کیونکہ اب وہ بے مقصد اپنے نوجوانوں کی قربانی دے رہا ہے۔ میرے اس مضمون نے ویت نام کی جنگ کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میری چومسکی سے پہلی ملاقات اتنی ہی فطری تھی جیسے کسی انسان کی ہوا اور بارش سے ہوتی ہے اس لیے وہ مجھے یاد نہیں۔

سوال : آپ کو کب اور کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟

جواب : مجھے دسمبر انیس سو ستر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مجھ پر یہ الزام تھا کہ میں نے چھ اور لوگوں کے ساتھ مل کر ہنری کسنگر کو اغوا کر لیا تھا۔ مجھے کچھ عرصہ جیل میں رکھا گیا۔ جب یہ پتہ چلا کہ تمام الزامات بے بنیاد ہیں تو مجھے رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد چومسکی مجھ سے ملنے آئے تھے۔ پھر ہماری دوستی ہو گئی۔ یہ علیحدہ بات کہ دونوں کی اپنی اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہماری ملاقاتیں کم ہوتی ہیں۔

سوال : آپ کی نگاہ میں چومسکی کی مقبولیت کی کیا وجوہات ہیں؟

جواب : چومسکی نے ہمیشہ عوام کو امید دلائی ہے۔

جب سے چومسکی نے استعماریت جیسے دشمن کی نشاندہی کی ہے انہوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا اور اس کے مضر اثرات کی نشاندہی کی ہے چاہے وہ مقامی ہوں یا بین الاقوامی۔ چومسکی کی تحریروں میں مستقل مزاجی ہے۔

وہ افراد کی بجائے نظاموں کی بات کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ فلاں لیڈر امریکہ کا صدر بن جائے گا تو حالات بہتر ہو جائیں گے وہ جانتے ہیں کہ حالات نظام بدلنے سے بدلتے ہیں چہرے بدلنے سے نہیں بدلتے۔

چومسکی سے میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ سچ کو بار بار دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چونکہ استعماری قوتیں جھوٹ کو بار بار دہراتی ہیں تو ہمیں سچ کو بار بار دہرانا چاہیے اس سے سچ کو زنگ نہیں لگتا۔

سوال : آپ فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید سے بھی مل چکے ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ARAB AFFAIRSجواب : سن انیس سو اڑسٹھ میں ابراہیم ابو لغد ایک رسالہ نکالا کرتے تھے جس کا نام

THE ARAB PORTRAYEDتھا۔ اس رسالے میں ایک مضمون چھپا تھا جو مجھے بہت پسند آیا تھا۔ اس مضمون کا عنوان

تھا۔ وہ مضمون ایڈورڈ سعید کا لکھا ہوا تھا۔ اس مضمون میں یہ موقف بیان کیا گیا تھا کہ عرب اسرائیل جنگ نے فلسطینیوں کی شناخت کو کیسے بدل دیا ہے۔ اب فلسطینی یہودیوں کا سایہ بن گئے ہیں۔

میں نے جب ابولغد سے پوچھا کہ ایڈورڈ سعید کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ میں نے کہا ان سے ملاقات ہو تو انہیں بتا دینا کہ مجھے ان کا مقالہ بہت پسند آیا ہے۔ بعد میں ہماری کئی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

سوال : یاسر عرفات اور ان کی تحریک کے بارے میں کچھ بتائیں

جواب : انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ میں ناکامی کے بعد جب فلسطینیوں کو کرامہ رفیوجی کیمپ میں کامیابی حاصل ہوئی تو وہ بہت خوش تھے۔ اس سلسلے میں ایک سیمینار میں مجھے بلایا گیا اس سیمینار میں پی ایل او کے نمائندے بھی تھے۔

اس دور میں ویت نام کی جنگ اور تیسری دنیا میں مسلح جدوجہد پر زور شور سے بحث ہو رہی تھی۔

جب عرب طلبا نے مجھے تقریر کے لیے بلایا تو میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ فلسطینیوں کو مسلح جدوجہد نہیں کرنی چاہیے۔ اگر انہوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی اور تشدد کا استعمال کیا تو وہ غلطی کریں گے۔

میں نے انہیں بتایا کہ سیاسی جدوجہد کا مقصد دشمن کے داخلی تضاد کی نشاندہی کرنا اور ساری دنیا پر اس تضاد کو نمایاں کرنا ہوتا ہے۔

اسرائیل کا بنیادی تضاد یہ ہے کہ اس کی بنیاد مظلومیت پر رکھی گئی ہے۔ یہودی کہتے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں۔ ان کا تضاد یہ ہے کہ اب وہ ان فلسطینیوں پر ظلم کر رہے ہیں جن کا ان پر کیے گئے ظلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہودیوں پر یورپی ممالک نے ظلم کیا تھا فلسطینیوں نے نہیں کیا تھا۔

ہمیں صیہونیوں کے اس تضاد کو ساری دنیا پر اجاگر کرنا ہے۔ اگر فلسطینی اسرائیل پر حملہ کریں گے اور یہودیوں کو قتل کریں گے تو یہودی کہیں گے ہم پر ایک دفعہ پھر ظلم ہو رہا ہے ہم پھر مظلوم ہیں۔ پہلے یورپی اقوام نے ظلم کیا تھا اب فلسطینی ہم پر ظلم کر رہے ہیں۔

سوال : فلسطینیوں کا آپ کی تقریر کے بارے میں کیا رد عمل تھا؟

جواب : وہ میری تقریر سے بہت حیران ہوئے۔ ان کا خیال تھا چونکہ میں الجیریا کی مسلح جدوجہد میں حصہ لے چکا ہوں تو میں فلسطینیوں اور یاسر عرفات کی پی ایل لو کی مسلح جدوجہد کے حق میں ہوں گا لیکن ایسا نہیں تھا۔ ہم نے الجیریا کی جدوجہد سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ الجیریا نے فرانس کو سیاسی شکست تو دی تھی لیکن اس جدوجہد میں لاکھوں لوگوں کی قربانی بھی دی تھی۔

ہم نے الجیریا کی جدوجہد میں یہ سیکھا کہ انقلاب لانے کے لیے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اب ہم نے انقلاب لانے کے لیے زیادہ جانوں کی قربانی نہیں دہنی۔

سوال : آپ کی یاسر عرفات سے کب ملاقات ہوئی؟

جواب : انیس سو اسی کی دہائی میں میری یاسر عرفات سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ پی ایل لو کو ساری دنیا سے کہنا چاہیے  کہہم مسلح جدوجہد سے دست بردار ہوتے ہیں۔ ہم تشدد کر خیر باد کہتے ہیں۔ اگر آپ فلسطینی ریاست کو مان لیں تو ہم بھی اسرائیل کو ماننے کے لیے تیار ہیں۔ جب یہ معاہدہ ہو جائے تو پھر اس مکالمے کا آغاز ہو گا کہ اسرائیل کی سرحد کون سی ہوگی اور فلسطین کی سرحد کیا ہوگی۔ کیا ہم 1948 والا اسرائیل مانیں یا1967 والا اسرائیل۔

جب فلسطینی اس نوعیت کا مکالمہ کریں گے تو امریکہ بھی ساتھ دے گا اور دوسرے ممالک بھی فلسطینیوں کا ساتھ دیں گے۔ یاسر عرفات میری رائے سے متفق نہ تھے۔ یاسر عرفات کے قریبی دوستوں نے بھی ان سے کہا کہ وہ اقبال احمد کے خیالات پر سنجیدگی سے غور کریں لیکن اس وقت وہ اس کے لیے تیار نہ تھے۔

نوٹ: ڈیوڈ برسامیاں کی کتاب

EQBAL AHMAD: CONFRONTING EMPIRE

کے ایک انٹرویو کی تلخیص اور ترجمہ۔

بشکریہ: ڈاکٹر خالد سہیل۔ کینیڈا

Comments are closed.