ہر پڑوسی سے لڑنا ہمارے نظریہ پاکستان کی اساس بن گیا ہے۔

بصیر نوید

ارے یار! پھر وہی پنگے بازی، پھر وہی جہادی گروپوں کے ذریعےسرحدی جھڑپیں کرانا، پڑوسی ممالک کے اندر حملے کرانا۔ طبیعت تنگ آگئی ہے۔ معلوم نہیں ہماری نظریاتی اسٹیبلشمنٹکب سدھرے گی، اسے کب عوام اور انکی فلاح کا خیال آئے گا۔ ہر پڑوسی سے لڑنا در اصل میں یہی ہمارے نظریہ پاکستانکی اساس بن گیا ہے۔ اب کے ایران سے سینگ پھنسانے کا ایجنڈا تیار کیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل کسی صورت غزہ اور فلسطینیوں پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا ہے اور ایران بغیر کسی مصلحت کے حماس، حزب اللہ اور فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ دوسری جانب حوثی باغی سعودی عرب مخالف سخت مزاحمت کررہے ہیں۔ اس لئے ایران کو اس کے پڑوسیوں کے ذریعے ایسی جنگ میں الجھانا ہے جس میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کا جواز بن سکے۔

اب کے پاکستان کے نام افغانستان جیسی کوئی لاٹری تو نہیں نکلی تاہم پاکستان بالکل ننگا اور بھوکا ہونے کے باعث ایسے مواقعوں کی تلاش میں ہے جس میں وہ پھر سے مغرب کی ڈارلنگ بن سکے اور ڈالروں کی بارش سے عسکری مقتدرہ فیض مند ہوسکے۔ پاکستان نے اپنے ہر پڑوسی ملک کے خلاف مسلح جتھے بنائے ہوئے ہیں اور جن کی ملٹری تربیت بھی کی گئی ہے۔ انڈیا کیخلاف بیشمار مسلح گروہ بنا کر انکے قائدین و مجاہدین کو اپنے یہاں بہترین پناہ گاہیں دی گئی ہیں جو پاکستانیوں کو بھی میسر نہیں۔ بھارت دشمنی میں تو عالمی طور پر مطلوب دہشت گردوں اور اسمگلروں و قاتلوں کو بھی اپنی سر زمین فراہم کی گئی بلکہ جن علاقوں میں انہیں آباد کیا گیا وہاں عام شہریوں کا جانا بھی منع تھا۔

افغانستان کی مکمل تباہی میں پاکستان اپنے کردار کو جھٹلا نہیں سکتا۔ تقریباً نصف صدی تک ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ملک اور عوام کو بھی بھوک و ننگ میں مبتلا کرکے رکھا مگر ڈالروں اور غیر ملکی قرضوں سے بھی خود کو دنیا کی سب سے عیاش و ظالم فوج بھی ثابت کروایا۔ افغانستان اور اسکے عوام کیخلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ان گنت مسلح گروپ بناکر نہ صرف افغانستان کو بلکہ اپنے ملک کے عوام کو بھی تباہ حال کردیا۔ اب ایران کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا جارہا ہے، اسرائیل اور حماس کی جنگ میں ایران کو جس طرح قربانی کا بکرا بنانے کی کو شش ہورہی ہے اس پر پاکستان کی رال ٹپک رہی ہے۔ مگر شاید ہماری اسٹیبلشمنٹ کے عاقبت نا اندیشوں کو نہیں پتہ کہ ایران کیخلاف کسی عالمی محاذ میں شامل ہونے کی کوشش میں وہ در اصل چین کو اپنے مخالف کررہے ہیں جس نے سی پیک کے ساتھ بیشمار پروجیکٹ کیلئے اربوں ڈالرز کے قرضوں کے معاہدے ہی نہیں کئے بلکہ کئی ارب کے پروجیکٹ بھی لگا چکے ہیں۔

ایران کیخلاف کارروائی کا مطلب ایران میں چائنا کے بھاری منصوبہ خاص ون بیلٹ ون روڈ کیخلاف کھلی جنگ لیا جائے گا۔ پاکستان کا ہر چینل اور اینکر پرسن، اخبارات کے اداریے، سیاسی لیڈران اور تبصرہ نگار ایران کے حملے پر اپنے غصے کا اظہار کررہے ہیں اور اسے پاکستان کیخلاف جارحیت قرار دے رہے ہیں جبکہ یہ سب جانتے ہیں کہ ہم نے ایرانی سرحد کے قریب کوہ سبز پنجگور میں دو مسلح تنظیموں، جند اللہ اور جیش العدل، کے ٹھکانے کئی دہائیوں سے بنا کر سنوار کر رکھے ہیں جو سنی گروہ ہیں جن کا مقصد ایک شیعہ ریاست میں کارروائیاں کرنا ہوتی ہیں۔ یہ فریضہ وہ اپنے قیام سے جاری رکھی ہوئی ہیں۔ لیکن ہمارے میڈیا ہاوسز، ان کے دانشور اس بات کی مذمت نہیں کرتے کہ وہ ہماری سرحدوں کو ایران کیخلاف اپنی کارروائیوں کیلئے استعمال کررہے ہیں، ان پر پابندی لگائی جائے۔ یہ لوگ ایسا کوئی مطالبہ نہیں کرتے کہ مذکورہ مسلح تنظیموں پر پابندی لگائی جائے اور انکے کرتا دھرتاؤں کو گرفتار کیاجائے۔

سرکاری و غیر سرکاری ٹی وی چینلز سے کہا جارہا ہے کہ ایران کو کرارا جواب دیدیا گیا، ایران سے سفارتی تعلقات معطل کر دیئے گئے، پاکستانی سفیر کو بلا لیا گیا، ایران کے سفیر کو پاکستان آنے سے روک دیا گیا، اگر دربارہ ریڈ لائین کراس کی گئی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ مجھے 1971 کا مشرقی پاکستان یاد آرہا ہے جب ایسی ہی باتیں اور اقدامات کئے جاتے تھے، انڈیا کو اب کے مارکی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔

Comments are closed.