بھارت کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جہاں سرکاری طور پر کسی مندر کا افتتاح انتہائی دھوم دھام سے ہوا ہے۔ یاد رہے کہ رام مندر کی تعمیر کا وعدہ وزیراعظم مودی کے بنیادی انتخابی وعدوں میں ایک تھا۔
سنہ2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 1992 میں بابری مسجد کو ڈھانا گو کہ ایک غیر قانونی اقدام تھا لیکن اس مسجد کی بنیادوں میں ایک غیر اسلامی عمارت کے کھنڈرات پائے گئے تھے۔ لہذا سپریم کورٹ نے اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی تھی اور مسجد کی تعمیر کے لیے علیحدہ سے 5 ایکڑ اراضی مسلمانوں کی تنظیم سنی وقف بورڈ کو الاٹ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔مجموعی طور پر دونوں فریقوں نے عدالت کے فیصلے کو تسلیم کر لیا تھا۔
رام مندر کے افتتاح کے موقع پر مسلمانوں کی تنظیم انڈو اسلامک فاؤنڈیشن نے الاٹ کی گئی اراضی پر مئی 2024 کو مسجد کی تعمیر کا اعلان کیا ہے اور اس کا نام”مسجد محمد بن عبداللہ” رکھا گیا ہے۔ یہ مسجد بابری مسجد سے چار گنا زیادہ بڑی ہوگی اور اس کے ساتھ 300 بستروں کا ہسپتال اور میوزیم بھی تعمیر کیا جائے گا۔
رام مندر کے افتتاح کے لیے سیاسی رہنماؤں سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں خاص طور پر کھیل اور فنون لطیفہ کی بڑی شخصیات کو سرکاری طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ میوزک ہندو مذہب کا بنیادی حصہ ہے اور نامور گلوکاروں نے اس موقع پر بھجن گائے۔ اس مذہبی فنکشن کی خاص بات مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھی برابری سطح پر شرکت تھی۔
گوہندو مذہب دنیا پر غلبے کا دعوی نہیں کرتا اور نہ ہی زور زبردستی کرتا ہے لیکن کسی بھی مذہب کا سیاسی استعمال بہرحال نفرتیں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔
پاکستانی میڈیا کے پیشہ ور بھونپو ، حکمران اور لکھاری جو وزیراعظم مودی کی طرف سے رام مندر کے افتتاح کی مذمت کررہےہیں انہیں چاہیے کہ وہ خود بھی اسی اصول کی پابندی کریں۔ پاکستانی میڈیا، حکمران اور لکھاری ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ماتم تو کرتے ہیں لیکن انہیں اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والےغیر انسانی سلوک کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہیے۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا ہے کہ یورپی دانشور اپنی ماضی کی مذہبی لڑائیوں کو ڈارک ایجز سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ مسلمان اسے اپنا شاندار ماضی قرار دیتے ہیں۔
ویب ڈیسک