قومی ہیروز اور مجرمانہ غفلت

پائند خان خروٹی

مغلیہ تسلط کے 167 جبکہ برطانوی راج کے ختم ہوئے 77برس بیت چکے ہیں لیکن مغلیہ یلغار کے خلاف اپنی قومی آزادی کی خاطر اٹھنے والی پہلی گرجدار آواز اور پشتون نیشنلزم کے جد امجد پیر بایزید روشان انصاری اور تاج برطانیہ کی 1857 دارالحکومت دہلی میں پہلی دفعہ بنیادیں ہلانے والے جنرل بخت خان یوسفزئی اور جنرل سعادت خان کی قومی مبارزے اور شاندار جدوجہد سے آج تک ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کے باشندے مذکورہ حقیقی ہیروز سے واقف نہیں ہیں۔ اس طرح وہ پشتونخوا وطن اور پورے برصغیر میں اعلیٰ طبقاتی شعور کے ساتھ قومی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہنے والی باغ و بہار شخصیت کاکاجی صنوبرحسین مومند کا ذکر تک نہیں کرتے۔

علاوہ ازیں ایمل خان مومند، دریا خان اپریدی، خوشحال خان خٹک، میرویس خان ہوتک احمدشاه ابدالی، سرتور فقیر، فقیر آف ایپی، سبھاش چندر بوس، کامریڈ بھگت سنگھ، لینن انعام یافتہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو، باچاخان، عبدالصمد خان اچکزئی اور مارکسی دانشور افضل خان بنگش وغیرہ جیسے حریت پسند نیشنل ہیروز خواہ وہ مغل حکمرانی کا دور ہو یا برطانوی عہد ہو۔

لیکن افسوس کے اس خطے کے تمام مذہبی، کمیونسٹ اور لبرل اہل فکر و قلم کو مندرجہ بالا اپنے ان مشاہیر کی گرانقدر خدمات، قربانیوں اور کارناموں کا احساس تک نہیں جن کی بدولت وہ مغلیہ سلطنت اور برطانوی سامراج سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس پورے خطے کے مذہبی لٹریچر، سرکار کے مرتب کردہ تعلیمی نصاب اور مدارس کے کورس میں محض مغل اور عرب اشخاص کو ہی اولیت حاصل ہے جبکہ اس پوری مردم خیز سرزمین سے ابھرنے والے اوریجنل ہیروز کو نصاب اور تاریخ میں جگہ نہیں دی جاتی خواہ وہ عرب و مغل کے مقابلے میں کردار کے بلند کیوں نہ ہو اور ان کی جدوجہد و قربانی کتنی بڑی کیوں نہ ہو۔

اس طرح یہاں صدیوں سے آباد اقوام کی مادری زبانیں بھی حقیر سمجھی جاتی ہیں۔ دوسری جانب ہمارے اپنے اکیڈمیشنز اور پولیٹیشنز بیرونی یلغار کا خاتمہ کرنے اور قومی آزادی کا پرچم بلند کرنے والے قومی ہیروز کا تعین کرنے میں اپنے اپنے علاقے اور برادریوں کے ساتھ اس کے تعلق کو اہمیت دیتے ہیں، پایہ تخت دہلی اور تخت لاہور والے تو مفاد و تعلق کی بنیاد پر اپنی مرضی سے انتخاب کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ملی مبارزہ اور قومی مجادلہ کے تصور کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی نئی نسل کو اپنے جغرافیہ، مشترکہ تاریخ، مادری زبان سے لازوال رشتہ اور حقیقی قومی ہیروز سے بلاامتياز آگاہ کیا جائیں۔

ذہن نشین رہے کہ قومی جدوجہد میں خواتین کا بھی کلیدی کردار ہے اور انھیں بھی ہم کسی صورت فراموش نہیں کر سکتے۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے ہم کسی کو پابند نہیں کر رہے ہیں کہ تمام بڑی شخصیات پر فوری طور پر تقریبات کا اہتمام کیا جائے تاہم مختلف اوقات میں ان ہیروز کو یاد کرنا، انھیں خراج تحسین پیش کرنا، ان کے غیرمطبوعہ تصانیف کو شائع کرنا، ابھرتے ہوئے محققین و مورخین کیلئے ضروری علمی مواد فراہم کرنا، نوجوانوں کو اپنے قومی ہیروز کی شعوری جدوجہد اور انتھک کاوشوں سے آگاہ کرنا ہمارا اہم قومی فریضہ ہے۔

یاد رہے کہ اگر ہم کسی کو پابند نہیں کر رہے تو کسی کو بھی ہم پر اجنبی پودے مسلط کرنے کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تحقیقی مراکز اور ادبی اکیڈمیز کے ساتھ پہلے کے مقابلے میں زیادہ سہولیات، حکومتی پشت پناہی اور خطیر رقوم ہیں لیکن یہاں کی محکوم اقوام، محروم طبقات اور ان کی مادری زبانوں کے حوالے سے ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے۔ قومی وقار اور اجتماعی جدوجہد کی علامت بنے والے قومی ہیروز کو یاد کرنے، ان کا باقاعدہ دن منانے اور ان کی خدمات کو اجاگر کرنے اور عوام کو ان کی فکر و نظر سے روشناس کرانے کے حوالے سے مسلسل مجرمانہ غفلت کا شکار نظر آتے ہیں۔

میری خواہش تو یہ تھی کہ پشتونخوا وطن اور برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند کے سیاسی مفکورہ کے تناظر میں انسانی تاریخ کو حکمرانوں کی عینک سے دیکھنے کی بجائے عام آدمی کی نظر سے دیکھنے کی کچھ مخصوص مثالوں کا حوالہ دیتے لیکن وقت کی کمی کے باعث صرف اتنا ضرور کہوں گا کہ جو اپنے وطن کے شیروں کی قدر نہیں کرتے اُن پر آس پاس کے گیڈر ہی ہاتھ صاف کرتے لیتے ہیں۔

Comments are closed.