پاکستان نے مذہبی آزادیوں سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کردی

چند روز قبل امریکہ نے مذہبی آزادی سے متعلق تشویش پائے جانے والے ممالک سے متعلق اپنی ایک فہرست جاری کی تھی، جس میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔ اس فہرست کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جاری کیا تھا۔

اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ دنیا کی حکومتوں کو مذہبی اقلیتی برادریوں کے ارکان اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے، فرقہ وارانہ تشدد اور پرامن اظہار کے لیے طویل دورانیے کی قید جیسی جبر، اور مذہبی برادریوں کے خلاف تشدد کے مطالبات جیسی زیادتیوں کو عالمی سطح پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس فہرست میں برما، چین، کیوبا، شمالی کوریا، اریٹیریا، ایران، نکاراگوا، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان  جیسے ممالک کو خصوصی تشویش کے ممالککے طور پر درج کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ امریکہ نے الجزائر، آذربائیجان، وسطی افریقی جمہوریہ، کوموروس، اور ویتنام کو بھی مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے یا اسے برداشت کرنے کے لیے خصوصی واچ لسٹ کے ممالک کے طور پر نامزد کیا ہے۔

جبکہ اسلام آباد نے مذہبی آزادی سے متعلق پاکستان کے بارے میں امریکی اقدام کو تعصب پر مبنی اور زمینی حقائق کے برعکسقرار دیا۔ اس نے مذہبی آزادی کے سب سے بڑے مخالف بھارتکو اس میں نہ شامل کرنے پر بھی تنقید کی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں اس بات پر سخت مایوسی ہے کہ یہ اقدام تعصب اور ایسی من مانی تشخیص پر مبنی ہے، جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک تکثیری ملک ہے جس میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بھر پور روایت رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے آئین کے مطابق پاکستان نے مذہبی آزادی کو فروغ دینے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات بھی کیے ہیں۔

مذہبی آزادی کی فہرست میں جن ممالک کو خصوصی تشویش والے زمرے میں رکھا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ممالک یا تو خود ایسی شدید خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں یا پھر اس طرح کی سرگرمیوں کو برداشت کرتے ہیں۔ امریکہ نے یہ فہرست گزشتہ ہفتے جاری کی تھی۔

تاہم اس فہرست میں بھارت کا نام شامل نہیں ہے، جبکہ اس حوالے سے امریکی ادارے باقاعدہ اس بات کی سفارش کرتے رہے ہیں کہ بھارت کی موجودہ حکومت میں مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، اس لیے اسے بھی اس فہرست میں شامل کیا جائے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان نسیم زہرا بلوچ کا کہنا تھا: ”ہم نے انتہائی تشویش کے ساتھ نوٹ کیا کہ مذہبی آزادی کی سب سے زیادہ اور مسلسل خلاف ورزی کرنے والے بھارت کو ایک بار پھر سے امریکی محکمہ خارجہ کی نامزد کردہ اس فہرست سے خارج کر دیا گیا، جبکہ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اس حوالے سے اپنی واضح سفارشات بھی پیش کی تھیں”۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ متعدد بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں نے بھی بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے بارے میں کھل کر خدشات کا اظہار کیا، اس کے باوجود ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ واضح کوتاہی پورے عمل کی ساکھ، شفافیت اور معروضیت کے بارے میں سنگین سوالات کھڑے کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات کا قائل ہے کہ اس طرح کی تفریقی، یکطرفہ اور ایک خاص نکتے پر مبنی مشقیں بے معنی ہوتی ہیں اور اس طرح کی حرکت عالمی سطح پر مذہبی آزادی کو آگے بڑھانے کے مشترکہ مقصد کو نقصان بھی پہنچاتی ہیں”۔

انہوں نے مزید کہا، پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ مذہبی عدم برداشت، زینو فوبیا اور اسلامو فوبیا کے عصری چیلنج کا مقابلہ باہمی افہام و تفہیم اور احترام کی بنیاد پر تعمیری تعاون اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت پاکستان نے دو طرفہ طور پر امریکہ کے ساتھ بات چیت کی ہے”۔

dw.com/urdu

Comments are closed.