پشتون گلوکار بےیار و مددگار کیوں ۔۔۔؟

پائندخان خروٹی

دعوےسے کہا جا سکتا ہے کہ پشتو گلشن موسیقی و گلوکاری کا میدان اتنا زرخیز اور غنی ہے جس کا مقابلہ شاید ہی خطے کی کسی اور قوم و زبان سے کیا جا سکتا ہو۔ پشتون فنکاروں اور گا ئیکوں نے اپنی انتھک محنت اور شاندار کارکردگی کی وجہ سے جہاں اور کامیابی حاصل کی، وہی نئی نسل کو اپنے جغرافیہ، تاریخ اور تہذیب و تمدن سے پیوستہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فن موسیقی کو فروغ دینے، دھنوں اور راگوں کی تخلیق کرنے میں نمایاں اساتذہ کرام موجود ہیں جن کی طویل فہرست ہے۔ گلشن موسیقی کے ساتھ ساتھ خاص طور پر قومی جدوجہد کو زندہ رکھنے اور آگے بڑھانے میں بھی اپنا تاریخی کردار نہایت ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے رہے ہیں۔

گلوکاری کے جدید عہد میں آواز کا جادو جگانے والوں میں نمایاں نام گلنار بیگم اور شہنشاہ غزل خیال محمد وغیرہ کے ہیں جنہوں نے پشتو فلموں میں ہزاروں گانے ریکارڈ کروائے۔ صرف گلنار بیگم کے پشتو فلمی گانوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ فلمی اور غیر فلمی گیتوں کے علاوہ ان کئی دوسرے گلوکاروں اور فنکاروں نے سیاسی ترانوں اور نغموں کی دنیا میں بھی متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ دوسروں کیلئے باغ و بہار رہنے والے اور عام آدمی کی خوشی اور غمی میں شریک رہنے والے آرٹسٹ اپنی ذاتی زندگی میں تنہائی اور تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ خاص طور سے عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اکثر فنکار عمر کے آخری حصے میں انتہائی غربت اور افلاس کے شکار ہو جاتے ہیں۔ معاشرے کی بےحسی اتنی بڑھ چکی ہے کہ زندگی کے کسی شعبے سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات یہاں تک کہ سیاسی اور حکومتی ادارے بھی ان کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

گزشتہ کئی عشروں سے اس پورے خطے میں جنونیت، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ان گلوکاروں، موسیقارو اور مزاحیہ فنکاروں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ کئی مقامات پر انھیں لوٹ مار اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اکثر فنکار اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر دیار غیر میں سکونت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس سے ایک جانب ان کی ذاتی زندگی اجڑ کر رہے گئی تو دوسری طرف دنیا موسیقی ان کی صلاحیتوں اور کارکردگی سے محروم ہو گئی۔ سول سوسائٹی، کلچر اور انسانی حقوق کے نام سے عالمی اداروں اکیڈمیوں اور تنظیموں کی کارکردگی بھی مایوس کن ہے۔ مختلف بیرونی ممالک ویزوں کے اجراء میں فنکاروں اور گلوکاروں کیلئے ویزا کے اجراء میں مخصوص کوٹہ رکھ کر بھی ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ معاشرے کی سرپرستی حاصل ہو تو یہی آرٹسٹ اور فنکار تشدد، انتہا پسندی، عدم برداشت اور مایوسی جیسی مضر کیفیات کو کم کرنے میں موثر اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یہ بھی یہ حقیقت ہے کہ ہمارے خوشحال گھرانوں کے مرد و خواتین ڈپریشن، مایوسی ذہنی تناؤ اور مختلف نفسیاتی الجھنوں کے شکار ہوتے ہیں اور علاج معالجہ پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں جبکہ فن اور فنکار کی ترقی اور مالی معاونت سے ان ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا علاج بھی بآسانی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ برصغير پاک و ہند میں بالخصوص سامراجی اور استحصالی قوتوں نے بالشویک انقلاب اور قومی آزادی کی تحریکوں کو ناکام کرنے کیلئے گذشتہ نوے سال کے دوران جس جنونیت، انتہا پسندی اور تنگ نظری کو فروغ دیا جن سے پورے خطے کے لوگوں کی جمالیاتی حس بری طرح متاثر ہوئی اور زندگی کی خواہش سے بیزار ہو کر مرگ پرست بن گئے ہیں۔ پورے خطے کے نامساعد حالات اور معاشی بدحالی کے باعث ہمارے معاشرے کے زندہ دل لوگ بھی زندہ دل نہ رہے، تخلیقی اور تنقیدی ذہن پیدا کرنے والے فکری رہنمائی فراہم کرنے والے اشخاص بڑی تیزی سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

ان منفی رحجانات کو دور کرنے اور احساس زندگی کے احیاء کیلئے سب سے زیادہ ذمہ داریاں ان ہی سامراجی قوتوں اور استحصالی عناصر پر عائد ہوتی ہیں کہ علوم و فنون سے وابستہ تمام افراد کی حوصلہ افزائی اور مالی مدد کریں۔ انھیں چاہیے کہ مثبت و تعمیری رحجانات کے فروغ دینے کیلئے اپنے وسائل بروئے کار لائیں اور زندگی کی مضبوط علامات اور فنون کے فروغ کیلئے دوبارہ پوری توجہ مرکوز کریں۔ اس سلسلے میں میری ایک تجویز ہے کہ پشتون من حیث القوم اپنے قومی ایام میں فنکاروں اور گلوکاروں کے نام ایک خاص دن مختص کریں اور ہر سال قومی جوش و خروش کے ساتھ منائیں تاکہ ابھرتے ہوئے نوجوان اپنی خوابیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے قابل بن جائیں۔

Comments are closed.