تقدیربدل دینے والے منشور

بیرسٹر حمید باشانی

انتخابات سر پر ہیں۔ انتخابی مہم عروج پر ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں اپنا اپنا منشور سامنے لا چکی ہیں۔ ان انتخابات میں مختلف نظریات و خیالات کی حامل جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ اگر ان میں سے پہلی بیس جماعتوں کے انتخابی منشور پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بڑے دلچسب نتائج سامنے آتے ہیں۔ اب تک جتنے بھی انتخابی منشور سامنے آئے ہیں، ان میں بڑی خوبصورت لفاظی سے کام لیا گیا ہے۔ان میں لمبے چوڑے وعدے ہیں۔ اور سب کا یہ دعوی ہے کہ اگر ان کی پارٹی کو منتخب کیا گیا تو پاکستان کے عوام کے سارے دکھ درد دور ہو جائیں گے۔ کچھ منشور عام آدمی کے لیے بڑے پر کشش ہیں، ان کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ منشور پاکستان کے زمینی حقائق سے میل کھاتے ہیں۔ اور کیاان منشوروں میں مستقبل کاجو سحر انگیز نقشہ پیش کیا جاتا ہے، اور جس طرح کے خواب دکھائے جاتے ہیں، ان کو پورا کرنے کے لیے وسائل موجود ہیں۔

جس طرح کے دعوے ان منشوروں میں کیے جا رہے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے تو  کئی ترقی یافتہ ممالک بھی موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہ کر اپنے عوام کو اس طرح کی مثا لی زندگی دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے منشور بھی ہیں، جو حقیقت پسندی کے عکاس ہیں۔ ہم ان سطور میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون ، تحریک انصاف ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام جیسی جماعتوں کے منشور کے ساتھ ساتھ کچھ چھوٹی جماعتوں کے منشوروں کا جائزہ بھی لیں گے، جو اگرچہ انتخابات میں کوئی بڑی کامیابی تو حاصل نہیں کر سکتے، مگر انہوں نے اپنے منشور پر بڑی عرق ریزی کی ہے، جن کو بحث و مباحثے کا حصہ بننا چاہیے تاکہ عوام کا شعور بلند ہو ۔

اگر حروف تہجی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عوامی ورکرز پارٹی کا منشور سب سے پہلے آتا ہے۔ یہ منشور تو کافی تفصیلی ہے ، لیکن عوام کی آسانی کے لیے اس کو مختصر کر کہ دس جامع نکات میں پیش کیا گیا ہے۔ ان دس نکات میں سب سے پہلا نقطہ قبائلی و جاگیرداری باقیات کا خاتمہ اور بنیادی زرعی اصلاحات ہے۔ قبائلی و جاگیرداری باقیات پاکستان کی معاشی، سماجی اور سیاسی پسماندگی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ہیں۔ یہ ختم کیے بغیر پاکستان میں خوشحالی ، ترقی، اور سماجی انصاف کا تصور ہی نا ممکن ہے۔ جاگیرداری اور قبائلی باقیات کی وجہ سے ناصرف ہزاروں کھیت مزدوروں، ، کاشتکاروں کا استحصال ہوتا ہے بلکہ اس نظام کے زیر اثرسماجی فرسودگی اور پسماندگی پر مبنی خیالات اور فکر کر تقویت دی جاتی ہے۔ اس فرسودہ فکر کے ناگزیراثرات سیاست پرپڑتے ہیں، جس کی وجہ سے استحصالی ، قدامت پسندانہ معاشی پالیسیوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور آمریت پسندانہ سوچ کو مسلط کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ پاکستان کا نمبرون مسئلہ ہے، اور منشور میں اس کو پہلا نقطہ قرار دینا ترقی پسند سوچ کا اظہار ہے۔

اس منشور کا دوسرا بڑا نقطہ عورت مرد اور دیگر صنفوں کی مکمل برابری ہے۔ پاکستان میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک، استحصال ایک کھلی حقیقت ہے۔ ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کو جنس کی بنیاد پر روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے ان کے جائز حقوق اور مساوی مواقعوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ جنسی برابری اور خواتین کو مکمل اور برابر کا نسان سمجھتے ہوئے عام دھارے میں شامل کیے بغیر ترقی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔

اس منشور کا تیسرا نقطہ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر امتیازی سلوک کا قصہ بہت پرانا ہے۔ اس موضوع پر انسانی حقوق کے ملکی اور غیر ملکی اداروں سمیت پاکستان کا ہر زی شعور اور صاحب رائے شخص اتفاق کرتا ہے کہ یہاں پر مذہب کے نام پر کئی افراد اور فرقوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ اس موضوع پر ہزاروں مفصل رپورٹس اور سینکڑوں کتابیں اور دیگر دستاویزات موجود ہیں۔ اس مسئلے کا حل نکالے بغیر اور اپنی قوم کے تمام افراد کو برابری کا درجہ دیے بغیر کوئی قوم مہذب ہونے کا دعوی نہیں کر سکتی۔

اس منشور کا چوتھا نقطہ غیر جانب دار اور سامراج مخالف خارجہ پالیسی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس پر عوامی اور قومی سطح پر کھلے عام کوئی بحث مباحثہ کم ہی ہوتا ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے بہت سارے بنیادی سوالات سامنے آئے۔ دنیا کی بڑی قوتوں کے ساتھ تعلقات کو عام جلسوں میں بھی زیر بحث لانے کی کوشش کی گئی۔ خود مختار اور غیر جانب دار پالیسی، جس میں کوئی ملک عالمی طاقتوں کے درمیان تصادم اور کشمکش کا حصہ نہ بنے ایک آزاد اور خود مختار پالیسی کے تحت ہی ممکن ہے۔

منشور کا پانچواں بڑا نقطہ ماحولیاتی نظر سے متوازن اور پائیدار ترقی ہے۔ اس وقت ماحولیاتی بگاڑ اور اس کے اثرات پاکستان کا ایک سنگیں مسئلہ ہے ، جس کی سنگینی کا پورے طریقے سے ادراک نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی اور گندگی ایک خوفناک مسئلہ ہے۔ بڑے شہروں میں تو اب سانس لینا داشوار ہے۔ لوگ اس مسئلے کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ لیکن آج تک حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر دھیان نہیں دیا گیا۔ اس مسئلے کو منشور کے بنیاد نقاط میں شامل کرنا ایک اہم قدم ہے۔

منشور کا چھٹا بنیادی نقطہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔ اختیارات کو گاؤں، بلدیات اور شہروں کو منتقل کرنا کئی حکومتوں کا نعرہ رہا ہے، مگر اقتدار پر آتے ہی، اس موضوع کو ہی گفتگو سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کی تمام کامیاب جمہوریتوں اور ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کے لیے یہی راستہ اپنایا ہے، اختیارات کو میونسپل اور ٹاون کی سطح پر منتقل کر دیا۔ اس کامیاب تجربے سے فائدہ اٹھانا پسماندہ اور ترقی پزیر اقوام کے لیے لازم ہے۔

منشور کا ساتواں اور اہم ترین نقطہ سب کے لیے مفت تعلیم اور صحت ہے۔ صحت اور تعلیم ہمارے عہد میں انسان کا بنیادی حق بنتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتین مجبور ہو رہی ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو مفت تعلیم اور مفت صحت کی سہولیات مہیا کریں۔ پاکستان جیسے غربت زدہ ملک میں تعلیم اور صحت کی بلا امتیاز فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہونا چاہیے۔

منشور کا آٹھواں نقطہ تمام سیاسی حقوق کا تحفظ ہے۔ سیاسی حقوق کو لے کر پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ مایوس کن اور حران کن ہے۔ یہاں آئے دن سیاسی آزادیوں پر قدغن لگتی ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ سیاسی اجتماعات پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، یا پھر خفیہ طریقے سے ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان حالات میں سیاسی حقوق کو منشور کا حصہ بنانا ناگزیر ہے۔

منشور کا نواں نقطہ حقیقی وفاقیت اور کثیر الاقوامی شناخت ہے۔ پاکستان میں قومیتوں کے حقوق کا سوال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، دوسری طرف اٹھارہویں ترمیم کے باوجود مرکز اور صوبوں کے اختیارات کے واضح تعین کے لیے کئی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس منشور کا دسواں نقطہ روزگار اور رہائش کی ضمانت ہے۔ روزگار اور رہائش کے ساتھ خوراک کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا، جو شاید غلطی سے مس پرنٹ ہو گیا ہے۔

ان انسانی ضروریات کو دنیا کے بیشتر کامیاب معاشروں میں ریاست کی بنیادی ذمہ داری قرار دیا گیا۔اس طرح یہ ایک بہت ہی ترقی پسندانہ منشور ہے، جو جدید دنیا کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ منشور لکھنے والوں کو اس سوال کا تفصیلی جواب دینا چاہیے کہ اس طرح کے منشور پر عمل درامد کے لیے کتنے وسائل درکار ہیں، اور ان وسائل کا بندو بست کیسے کیا جائے گا۔

Comments are closed.