لیڈر، ہیرو اور دیوتا

بیرسٹر حمید باشانی

ہمارے ہاں شخصیت پرستی باقاعدہ ایک روگ ہے۔ کچھ لوگ اسے گریٹ مین سنڈرمیا عظیم آدمی کی تھیوری بھی کہتے ہیں۔ عظیم لوگوں اور خصوصا عظیم لیڈر کے بارے میں یہ تھیوری انیسویں صدی میں بہت مقبول ہوئی۔ اس تھیوری کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کو صرف عظیم لوگوں کے اس پر اثرات کےذریعے ہی سمجھا سکتا ہے۔ یہ عظیم لوگ اپنے سماج اور وقت کے ہیرو ہوتے ہیں۔ یہ لاثانی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جو اپنی غیر معمولی قدرتی صلاحیتوں کی وجہ سے عظمتوں کی بلندیوں پر فائز ہوتے ہیں۔ ان قدرتی صلاحیتوں میں ان کی بے پنا ہ دانش، ہمت، لیڈر شپ کی غیر معمولی صلاحیت یا پھر مافوق الفطرت رہنمائی شامل ہوتی ہے۔

یوں تو یہ ایک پرانی تھیوری ہے،لیکن اسے سب سے پہلے سکاٹش لکھاری دانشور اور تاریخ دان تھامس کارلائل نے باقاعدہ شکل دی۔ اس سلسلے کا آغاز 1840 میں ہوا،جب کارلائل نے ہیروازم پرلیکچرز دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ بعد میں یہ لیکچرز کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ کار لائل نے اس کتاب میں تاریخ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ جو کچھ انسان اس دنیا میں حاصل کرچکا ہے، وہ یونیورسل تاریخ ہے، اور یہ تاریخ دراصل اس عظیم آدمی کی تاریخ ہوتی ہے، جس نے یہ تاریخ بنانے کے لیے کام کیا۔ یہ عظیم لوگ اپنے وقت کے لیڈر تھے۔ ہم اپنے اردگرد جتنی حاصلات دیکھتے ہیں، وہ ان ہی عظیم لوگوں کی محنت اور کوشوں کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے اپنی دانش کو بروے کار لاتے ہوئے اپنے خیالات اور نظریات کو مادی کامیابیوں میں تبدیل کیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی روح ہے۔

کارلائل نے لکھا کہ دنیا کی تاریخ دراصل عظیم لوگوں کی سوانح عمری ہے۔ ہیروز اپنی ذاتی خوبیوں اور مافوق الفطرت انسپائریشن کی وجہ سے تاریخ بناتے ہیں۔ اپنی کتاب ہیروز اور ہیروز کی پرستشمیں کارلائل تاریخ کو ہیروز کے خیالات اور عمل کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اس کتاب میں اس نے ہیروز کی درجہ بندی بھی کی ہے۔ ان میں پیغمبر اسلا م،شاعر و ادیب جیسے شکسپئیر، مارٹن لوتھر کنگ جیسے پادری، روسو جیسے لکھاری اور نپولین جیسے لیڈر شامل کیے ہیں۔ ہیگل نے اس تھیوری پر تھوڑا ہٹ کر بات کرتے ہوے لکھا کہ عظیم آدمی تاریخ تخلیق نہیں کرتا، بلکہ تاریخ سے پردہ اٹھاتا ہے،اور ناگزیر مستقبل کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس نظریے کے دو بنیادی اصول ہیں۔ ایک یہ کہ عظیم آدمی پیدائشی طور پر ایسی خصوصیات رکھتا ہے ، جن کی وجہ سے وہ عظیم لیڈر بنتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ان خصوصیات کے اظہار کے لیے سازگار حالات کی موجودگی ضروری ہے، اور ان سازگار حالات کی وجہ سے ہی کوئی شخص لیڈر بنتا ہے۔

انیسویں صدی کے چوتھے عشرے میں یہ تھیوری بہت مقبول ہوئی، اور اسے دنیا میں عمومی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن ظاہر ہے عظیم لوگوں اور تاریخ کے باب میں یہ کوئی واحد تھیوری نہیں تھی۔ اس باب میں چند دوسری تھیوریاں اور خیالات موجود تھے۔ اس کے مقابلے میں آگے چل کر ساٹھ کی دہائی میں جو تھیوری مقبول ہوئی۔ یہ تھیوری زیادہ تر سوشل تاریخ دانوں نے پیش کی۔ اس میں تاریخ کو اوپر سے نیچے دیکھنے کے بجائے نیچے سے اوپر دیکھنے کا نظریہ پیش کیا گیا۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں یہ نظریہ زیادہ تر نوجوان نسل میں مقبول ہوا، لیکن آج بھی کینیڈا فرانس، جرمنی وغیرہ میں تاریخ اور شخصیت کے بارے میں یہ نظریہ کافی مقبول ہے۔ لیکن یہ نظریہ جسے نئی سوشل تاریخ بھی کہا جاتا ہے، اتنا نیا بھی نہیں ہے کہ اس کی ابتدا1930میں کیمرج یونیورسٹی سے ہو چکی تھی۔ یہ تاریخ کا عام آدمی سے متعلق نظریہ تھا، جس کا مقصد یہ بیان کرنا تھا کہ تاریخ کو صرف عظیم لوگوں کے کردار اور سرگرمیوں سے ہی نہیں ، بلکہ عام لوگوں کی محنت اور جدوجہد کے زاویہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ یہ نظریہ 1963 میں تھامسن کی کتاب “‘ دی میکنگ آف دی انگلش ورکنگ کلاس” کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچا۔ اس طر ح اس نے ایک باقاعدہ سوشل ہسٹری کے طور پر مغربی دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی جگہ بنائی۔ جرمنی برطانیہ وغیرہ میں عام آدمی کے نقطہ نظر سے تاریخ پر لکھا گیا۔ امریکہ میں ہاورڈ زن سمیت کئی لوگوں نے پیپلز ہسٹری کے عنوان کے تحت اس کو آگے بڑھایا۔

لیکں ان سب نظریات کے مقابل برسوں پہلے تاریخی مادیت کا نظریہ سامنے آچکا تھا، جس نے تاریخ لکھنے والوں کی بنیادی سوچ کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تاریخی مادیت کارل مارکس کا نظریہ ہے۔ اس نظریے کے ذریعے یہ واضح کیا گیا کہ دنیا کی تاریخ کوئی بڑے لوگوں کی ہی تاریخ نہیں ، بلکہ یہ طبقاتی جدو جہد کی تاریخ ہے۔ اگرچہ تاریخی مادیت کو کسی ایک کتاب کی شکل میں پیش نہیں کیا گیا، لیکن مارکس اور اینگلز نے مختلف اوقات میں مختلف تحریروں کے ذریعے اس پر اظیار خیال کیا، جو جدید دور کا اس موضوع پر ایک اہم ترین نقطہ نظر بن گیا۔

تاریخی شخصیات اور عظیم لوگوں کے بارے میں یہ تین قسم کے نظریات دنیا بھر میں مقبول ہوئے، اور آج بھی مختلف ممالک میں ان کو تھوڑے بہت رد و بدل کے ذریعے قبول کیا جاتا ہے۔ مغرب میں یہ تینوں قسم کے نظریات مقبول ہیں ، اور یہاں کی یونیورسٹیوں اور دیگر متعلقہ فورمز پر ان پر مختلف مکاتب فکر کے درمیان بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے۔ ہمارے ہاں بر صغیر میں مختلف لوگوں نے اپنے اپنے طور پر ان ہی نظریات کی کسی نہ کسی شکل کو قبول کیا۔ لیکن بر صغیر کے مقامی حالات اور مقامی نفسیات کی وجہ سے ان نظریات نے کئی مقامی رنگ اختیار کیے۔

مقامی سطح پر سب سے زیادہ اس پر مذہب کا رنگ چڑھا۔ اولیا، رشی اور منی روایات اور خیالات نے اس پر کافی اثر ڈالا۔ چنانچہ یہاں لیڈر کا تصور کسی دیوی دیوتا یا مافوق الفطرت شخص کی شکل میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ یعنی لیڈر ایسا ہو جو ایسی ذاتی اور شخصی خصوصیات رکھتا ہو ، جو عام آدمی سے کئی زیادہ اور غیر معمولی ہوں۔ وہ دلیر و دیانت دار ہو، نا قابل شکست، اورعظیم لا زوال کردار کا مالک ہو۔ یہ نفسیات پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بہت زیادہ ہے۔ لیڈر کو ہیرو سمجھ کر پوجا جاتا ہے۔ بلکہ یہ خصوصیات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اولادوں میں بھی تلاش کرنے کی کوشش ہوتی ہے، جس کی وجہ ان ممالک میں موروثی سیاست کا روگ موجود ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پختہ تر ہو تا جا رہا ہے۔ 

پاکستان میں اس موروثی سیاست کی جھلک اکثر دکھائی دیتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں اس طرح کی سیاست کی غالب حیثیت اور مستقبل کی حکومتی تشکیل میں ایک غالب عنصر کے طور پر اس کی موجودگی کے مظاہر عام ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ میں بھی یہ سیاست مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہی ہے، جہاں لیڈر کی وفات پر اس کی اولاد کا لیڈرشپ کا حق دار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مغرب کی کامیاب جمہوری ریاستوں میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی سیاسی خاندان سے کوئی اک دکا شخص آگے آتا بھی ہے، تو وہ اس مروجہ سیاسی پروسس سے گزر کر سیاست میں اپنی جگہ بناتا ہے، جس سے عام آدمی کو گزرکر آنا پڑتا ہے۔لہذا بر صغیر میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ موروثی سیاست میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، یہ ساری دنیا میں پائی جاتی ہے بنیادی طور پر ایک گمراہ کن دلیل ہے، جو غلط بیانی پر مبنی ہے۔ پاکستان میں موروثی سیاست کے قائل سیاست دان اکثر اس طرح کا بیان دیتے ہیں، جو حقائق سے متصادم ہے۔

 

Comments are closed.