علی احمد جان
دیوار پر ایک نیا کیلنڈر چڑھ گیا پرانا کوڑے دان میں چلا گیا جس کے ساتھ ہی سال بیس سو سترہ بھی تاریخ کا حصہ ہو گیا۔ کچھ لوگ جو گزشتہ سال ہمارے ساتھ تھے مگر اب ان کی صرف کچھ باتیں اور کچھ یادیں رہ گئی ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران کئی نئی روحیں زمین پر آچکی ہیں جو آنے والے ماہ و سال میں اپنے جلوئے دکھائیں گی۔ سال بیس سو سترہ بھی کئی لوگوں کے لئے کامیابیاں ، خوشیاں ، شہرت، عزت ، دولت اور اقتدار کی سنگھاسن لے کر آیا تو کئی ایک سے بہت کچھ چھین کر چلا گیا۔
نئے سال کی آمد کو منانے کا رواج اتنا ہی پرانا ہے جتنا ماہ و سال کے بارے میں انسانی شعور قدیم ہے ۔ وسطی ایشیا میں سردیوں کے سخت موسم کو گزارنے والے جب بہار کی آمد کا جشن مناتے تھے تو ان کا مطمع نظر شین سے شروع ہونے والے نام کے سات پکوان کھانا ہی نہیں بلکہ نئے سال میں بہتر فصل اور خوشحالی کے لئے ارزو اور دعا کے ساتھ اس جشن کو منانے والوں کے لئے ایک نئے جذبے کے ساتھ جینے کا عہد بھی شامل ہوتا تھا۔
آج اور کل میں فرق صرف یہی ہے کہ پہلے زمین فصل اور کاشتکاری کے لئے قدرتی عوامل پردارومدار تھا اب ٹیکنالوجی کے دور میں لوگوں کا انحصار مالیاتی اور صنعتی اداروں پر ہے اور اسی حساب سے جشن منانے کے اطوار توبدل گئے ہیں مگر مقصد وہی ہے یعنی گزرے وقت کا حساب اور آنے والے وقت کے لئے عہد اور امید۔
ہمارے ہاں بھی لوگ یکم جنوری پر آنے والے نئے سال کو اپنے انداز میں خوش آمدید کہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کو مغرب زدہ اور گمراہ کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہمارا کیلنڈر قمری ہے جس کا پہلا مہینہ محرم الحرام کو واقعہ کربلا کی یاد میں بطور ماہ غم منایا جاتا ہے جس میں کسی جشن یا خوشی کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
کچھ روایت پسندوں کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا سے جڑے پنجاب کا سال بسنت یا بیساکھی کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے مگر اس کو کسی اور مذہب کا کیلنڈر اور تہوار سمجھ کر حرام قرار دیا گیا ہے ۔ وسطی ایشیا کا نیاسال جو اکیس مارچ کو نوروز کے جشن کے ساتھ شروع ہو تا ہے ہمارے لئے مجوسیوں کی رسم بن کر حرام ہو چکاہے۔ الغرض ہمارے ہاں نئے سال کی آمد کا کوئی جشن نہیں ۔ ویسے بھی عمر عزیز کا ایک سال بے کار گزرنے کا جشن کیونکر ہو نا چاہیے ، یہ تو مقام تفکر ہے۔
بظاہر ہمارے ہاں اس سال کے دوران کوئی بڑا سیلاب، زلزلہ یا طوفان تو نہیں آیا اور نہ ہی کوئی قحط یا وبا ٔپھوٹی جس کو ہم یاد کر کے غمزدہ ہوں ۔ اس سال کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی ایسا حادثہ ہوا جو پہلے نہیں ہوا تھا۔ لیکن معاشرتی ارتقأ میں نئی چیزیں بتدریج عمل پذیر ہوتی ہیں جن کو ہم صرف اس وقت دیکھ پاتے ہیں یا محسوس کرتے ہیں جب یہ ہمارے رویوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ خاندان، مذہب، ریاست سمیت کسی بھی ادارے کا آغاز ایک جست میں نہیں ہوا بلکہ یہ بتدریج عمل میں آیا ہے۔ ارتقأ کا یہ عمل کبھی رکتا نہیں اور نہ موقوف ہوتا ہے۔ بقول اقبال
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
جو تخلیقات، ایجادات اور مصنوعات آج ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں ان میں سے کچھ بھی کسی واحد نابغہ روزگار نے ایک دن ، ماہ یا سال میں نہیں بنا ئی بلکہ یہ سب مسلسل اجتماعی کاوشوں اور صدیوں کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے ۔ ارتقا ٔکا یہ عمل ہمیشہ مثبت ہی نہیں بلکہ منفی بھی ہوتا ہے۔ اگر آج انسان نے موت تک پر کسی حد تک قابو پالیا ہے تو دوسری طرف ایسی خوفناکی بھی ایجاد ہوئی ہے جس سے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں زمین پر ہر ذی روح تباہ و برباد ہوسکتی ہے۔ ایک طرف اگر انسان نے اس ارتقا ٔکے دوران پر امن بقائے باہم کے سنہری اصول وضع کئے ہیں اور پر امن انتقال اقتدار کے لئے جمہوریت کی معراج کو پالیا ہے تو دوسری طرف سیاست پر اثر انداز ہونے کے سائنسی طریقے بھی ڈھونڈ نکالے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرتی رویوں کی ابتدا بھی چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی واقعات سے ہوتی ہے۔ یہ واقعات اپنے تسلسل کی وجہ سے پورے معاشرے کا اجتماعی رویہ بن جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے چھوٹے واقعات اور چھوٹی باتیں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں جن کو ہم نظر انداز کردیتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے اجتماعی رویے کا حصہ بن جاتی ہیں۔ سال ۲۰۱۷ ء میں بھی کئی ایک ایسی باتیں ظہور پزیر ہوئیں جو نئی تھیں ان میں سے چند ایک مجھے یاد آرہی ہیں۔
اس سال کے اوائل میں ہی ایک نوجوان کو اس کے ساتھی طلبہ اور اساتذہ نے ملکر لاٹھیوں، گھونسوں، پتھروں ، اینٹوں اور گولیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا اور مار دیا۔ یہ ایک ایسے علاقے میں ہوا جہاں پشتون ولی کے رواج کے نام پر بڑے سے بڑے ملزم کو بھی اپنے دفاع کا حق دئے بغیر سزا کا مستحق نہیں گردانا جاتا ہے۔ اس میں نیا یہ نہیں کہ مرنے والے پر الزام غلط تھا یا الزام لگانے والے خود مدعی اور خود ہی منصف بھی تھے اور نہ ہی نیا یہ ہے کہ دن دھاڑے کسی شہر میں واقع کسی جامعہ کے احاطے میں ہونے والے اس واقعہ میں ریاست اور اس کے ادارے بے دوست و پا تھے۔
کچھ یہ بھی نیا نہیں ہے کہ ایسا کرنے والا ہجوم پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل تھا جو اس معاشرے کے صرف چار فیصد ہیں جنھوں نے آنے والے دنوں میں اس ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنی ہے۔ یہ سب کچھ نیا ہوتا تو مجھے افسوس نہیں ہوتا مگر دکھ اس بات کا ہے کہ اس میں نیا کچھ بھی نہیں کیونکہ ماہ و سال کی گردش میں اب یہ سب کچھ ہمارے رویوں کا حصہ بن چکا ہے اور ہم ایسے ہی جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔
ہاں مگر بظاہر نظر نہ آنے کے باوجود ایک چیز جو نئی ہے وہ یہ کہ اب کی بار عام لوگوں نے ایسا ہونے کو قبول نہیں کیا ۔ بطور معاشرہ اس واقعہ پر ہماری نا پسندیدگی ایک ایسا رویہ ہے جس نے ریاست کو بھی چپ سادھنے کی روش کو ترک کرنے پر مجبور کیا ۔ اگر معاشرہ بھی اس واقعہ پر خاموش رہتا تو مشال خان کے غریب باپ اور اس کی لاچار بہنوں اور مجبور ماں کے بس میں نہیں تھا کہ وہ مظلوم کے لئے انصاف دلا سکتے۔ امید ہے کہ ایسے واقعات پر خاموشی توڑنا ہمارے اجتماعی رویے کا حصہ بن جائے گی۔
اس سال ہمارے ایک اور وزیر اعظم عدالت کے کمرے سے گھر چلے گئے اورسیاست کے لئے تا حیات نااہل ہو کر تاریخ کا حصہ بن گئے۔ اس میں بھی کچھ نیا نہیں ہے ۔ نواز شریف خود پہلی بار اقتدار کے کوچے سے بے ابرو ہو کر نکلے نہ پاکستان میں کسی منتخب وزیر اعظم کی ایسی بے عزتی پہلی بار ہوئی ہے۔ کل کو اس نااہل قرار دئےجانے والے وزیر اعظم کو سزا بھی ہو تو یہ بھی نیا نہیں ہوگا۔ کسی منتخب وزیر اعظم کے لئے نا اہلی، کال کوٹھری، جیل، پھانسی سب کچھ ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔
نئی بات یہ بھی نہیں کہ نکالے جانے والے وزیر اعظم نے اپنے اس طرح نکالے جانے پر صدائے احتجاج بلند کی اور ایسا فیصلہ کرنے والوں کو وضاحتوں پر مجبور کیا ۔ جونیجو، بھٹو، بے نظیر بھٹو، ظفر اللہ جمالی ، یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے اپنے انداز میں احتجاج تو کیا مگر ان کا تعلق چھوٹے صوبوں اور قومیتوں سے ہونے کی وجہ سے ان کی بات کسی نے نہیں سنی۔ اب کی بار پاکستان کی مقتدرہ کے مرکز پنجاب کے دل لاہور سے پہلی بار ایسے فیصلے کے خلاف اٹھنے والا احتجاج نیا ہے جو اس ملک کی سیاست پر دور رس نتائج مرتب کر سکتا ہے۔
دھرنوں کا احتجاج بھی کافی پرانا ہے یہاں اس کی ابتدا جانے کب ہوئی مگر اس طرز سیاست کے لئے مقبول مرحوم و مغفور قاضی حسین احمد تھے۔ پیپلز پارٹی کے گزشہ دور میں کینیڈا والے شیخ الاسلام نے دھرنے میں کافی مقبولیت حاصل کی اور شہر اقتدار میں لوگوں کو کافی عرصے تک محبوس کئےرکھا۔ حالیہ تاریخ کا سب سے لمبے عرصے کا دھرنا عمران خان اور ان کے سیاسی کزن طاہر القادری نے دیا جس میں دیگر نعروں کے علاوہ امپائر کی انگلی کافی مقبول ہوئی۔
اس سال کے دوران بھی ایک دھرنا ہوا جو اپنی زبان و بیان کی وجہ سے کافی مقبول ہوا مگر یہ بھی نئی با ت نہیں تھی ما سوائے لہجے اور انداز بیان کے کیونکہ سابقہ دھرنوں میں ایسی زبان متعارف ہو چکی تھی جس میں پاجامے اور ملبوسات کے علاوہ شجرہ نسب کی تفصیلات سے نوجوان نسل کو آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ سیاست اور ایسے دھرنوں میں بھی پردہ نشینوں اور پس چلمن رہنے والے حلقوں کے ہاتھ ہونے کی باتیں بھی نئی نہیں تھیں کیونکہ اس دوران کراچی سے بھی خبر زبان زد عام ہوئی جب ان حلقوں نے دو متحارب سیاسی فریقین میں ثالثی کراوئی تھی۔
مگر اب کی بار نئی بات یہ تھی جب حکومت اور دھرنا دینے والوں کے درمیان بطور فریقین سمجھوتا ہوا تو اس پر پس چلمن رہنے والوں نے بطور ضامن دستخط کردئے ۔ اگر یہ بات آنے والے دنوں میں قبول ہوتی ہے تو پھر کیا ہر احتجاج کرنے والے شہری کا یہ حق نہیں ہوگا کہ اس کےمطالبات پر عمل درآمد کے لئے بھی ضامن وہی ہوں جو فیض آباد کے چوک پر دھرنا دینے والے مولوی خادم حسین اور حکومت پاکستان کے بیچ طے پانے والے معاہدہ کے ضامن تھے؟
ہم سب کو نئے رویوں کی ابتدا ٔ اور نیا سال مبارک ہو۔
♦