طارق احمد مرزا
عام طورپر’’قابل اعتراض‘‘کتابوں پرمطلق العنان اور غیرجمہوری حکومتیں ازخود اور یا ایسے معاشرے کے دباؤ میں آکر جس میں ضبط و برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے،مصنفین کے احتجاج کے باوجودپابندی لگا کر انہیں بحکمِ سرکارضبط کر لیتی ہیں لیکن آج ایک ایسی کتاب کا تذکرہ مقصود ہے جس پر بحکم سرکار نہیں بلکہ خود بحکمِ مصنف پابندی لگاکراس کی ضبطی کاحکمنامہ جاری کیاگیا تھا۔
اس لحاظ سے منفرد،اور غالباً اپنی نوعیت کی واحدکتاب کا نام ہے’’گولڈاینڈگنز آن دی پٹھان فرنٹیئر‘جو صوبہ سرحد(خیبرپختونخوا)کے سابق وزیراعلیٰ جناب عبدالقیوم خان صاحب نے لکھی تھی ۔اس کا اکلوتااور پہلوٹھاایڈیشن 1945 میں شائع ہوا تھاجو انٹرنیٹ پہ دستیاب ہے۔2015 میں ایک کمپنی نے اسی ایڈیشن کو دیدہ زیب ہارڈ کور کے ساتھ دوبارہ بھی شائع کیاہے۔
’’سرحدی گاندھی‘‘اور ’’مسیحِ افاغنہ ‘‘ کے القاب سے معروف خان عبدالغفار خان صاحب کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے نام اس کتاب کا انتساب کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک پٹھان شمال مغرب کامسئلہ زیادہ تر معاشی ہے۔جبر اور رشوت نے ہمیں کسی بھی حل کے قریب تر نہیں ہونے دیا،ہمیں اس معاملہ سے سراسر مختلف انداز سے نبردآزما ہونے کی ضرورت ہے۔
پٹھان ایسی قوم ہے جو اپنی زندگی اپنے طورپر گزارناپسندکرتی ہے۔کتاب کا مقصد پٹھان مسئلہ کواس کے حقیقی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے اس خطہ پرپیسے اور بندوق کے زور پرحکومت چلائی جارہی ہے ۔
پہلے باب میں لکھا ہے کہ سنہ تیس کی دہائی سے قبل ہندوستان کے لوگوں کے لئے صوبہ سرحد،قبائلی پٹی اور ڈیورنڈلائن سے ملحقہ علاقہ ایک پراسرار مہربند کتاب کی طرح تھی۔لوگ اس کے بارہ میں اسی حد تک معلومات رکھتے تھے جس حد تک حکومتِ ہند کا پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ چاہتا تھا۔1932کی اصلاحات کے نفاذ کے بعد لوگ اس قابل ہوئے کہ سکے کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
یہ صوبہ محض چھ عددسیٹلڈضلعوں مردان،پشاوربنوں کوہاٹ وغیرہ پہ ہی مشتمل نہیں ،بلکہ اس کی اصل وسعت اشوکاؔ اور پھر مغل دور کے ہندوستان کا جغرافیہ دیکھنے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔جغرافیائی تفصیل کے بعد پٹھان قوم کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ پٹھان صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ ہی میں نہیں بلکہ افغانستان کے ایک اچھے خاصے حصے سے لیکر کوئٹہ اورژوب تک آباد ہیں۔
باب دوم میں اس خطہ پہ گزرنے والے مختلف تاریخی ادوارجوزمانہ قبل ازمسیح سے لے کر سکھا شاہی اوربرطانوی تسلط تک محیط ہیں ،کا ذکرکیا گیاہے۔اسی طرح بعد کے ابواب میں پشتون قوم کی نسلی تاریخ کا تعارف ہے۔
مصنف نے اس کے بعد تفصیل سے کتاب میں ذکر کیا کہ روسی پیش قدمی کو اس کے گھرکے باہر ہی روک دینے کی نیت سے برطانیہ کی کوشش رہی کہ کسی طرح افغانستان پر قابض ہو کر وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کردی جائے جس کے زیر انتظام یہ ملک روس اور برطانیہ کے درمیان ایک بفرزون کا کام دے۔اس مقصد کے حصول کے لئے برطانیہ نے افغانستان پر متعددبارحملے کئے ۔وہ افغانستان پر تو اپنی خواہش کے مطابق قابض نہ ہو سکا البتہ ہر حملہ کے بعدپشتون قبائلی علاقہ کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور اپنی جھولی میں ڈال لینے میں کامیاب ہوتا رہا۔
اس قبائلی علاقہ(ٹرائبل بیلٹ)کے بارہ میں عبدالقیوم خان لکھتے ہیں کہ یہ شمال میں پامیر تو جنوب میں تخت سلیمان،بلوچستانی سرحد تک پھیلا ہوا ہے اور سائز میں صوبہ سرحد سے دوگنابڑاہے۔اس کا رقبہ تقریباً پچیس ہزار مربع میل ہے۔یہ تمام علاقہ 1849تک افغانستان کا حصہ تھا۔
1878 میں کرم اور خیبر پر قابض ہوجانے کے علاوہ افغانستان کے ساحلی صوبہ بلوچستان پربھی برطانیہ قابض ہو گیا جس نے خان آف قلات کو، جو کہ افغان بادشاہ کے ماتحت ہو اکرتا تھا، مجبور کیا کہ وہ برطانیہ کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کردے۔اس اقدام نے افغانستان کو چاروں طرف سے لینڈ لاکڈ ملک بناڈالا۔1889 میں وادئ ژوب جہاں پشتون آباد ہیں قبضے میں آئی اور پھر1893 میں ڈیورنڈ لائن کو افغانستان اور ہندوستان کی نئی انٹرنیشنل باؤنڈری تسلیم کرلینے کے سمجھوتاہوا جس پر دستخط کرنے کے علاوہ امیر کابل کا کچھ دوش نہ تھا۔یوں یہ قبائلی علاقہ جو نسلی،لسانی اورمذہبی اعتبار سے افغانستان کامسلمہ حصہ تھا،برطانیہ کے زیر نگین آگیا۔یہ پیدائش تھی’’ فرنٹیئرپرابلم‘‘ کی جو تب سے اب تک جوں کا توں چلا آرہا ہے۔
آپ بتاتے ہیں کہ صوبہ سرحد کو پنجاب سے الگ کرنے کے بعد انگریز نے پٹھانوں کو ڈیورنڈ لائن کے آرپار اور پھر ڈیورنڈ لائن کے اِس پار قبائلی علاقہ اور صوبہ سرحد کے شہری علاقہ میں تقسیم کردیا ان کے آپس میں آزادنہ مل جول پر جابرانہ عسکری نوعیت کی پابندیاں عائد کردیں۔سر صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب صوبہ اورقبائلی علاقہ کو شاہین کے دوپرقرار دیتے تھے لیکن انگریز اس شاہین کو اڑتا ہوا دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔چھاؤنیاں قائم کرکے صوبے کے اضلاع کو ملٹری افسران کے ماتحت کردیا گیا۔ظالمانہ قوانین ایف سی آر،ایم او اے کا نفاذ سختی سے کیا گیا۔ خود مختاری یا آزادی کی بات کرنے والوں کے خلاف ایف سی آر کے ظالمانہ سیکشن ۴۰ کے تحت بھاری جرمانے کئے جاتے،ان افراد کو دفاع یا اپیل کا حق حاصل نہ تھا۔نہ کوئی ان کی وکالت کر سکتا۔جرمانوں کے عدم ادایگی کی صورت میں تین سال قید کی سزا دی جاتی۔
اس کے ساتھ ساتھ انگریزنے خان خوانین اور جاگیرداروں کومختلف قسم کی رشوتیں ،انعامات وغیرہ دے کر ان سے اپنے مطلب کے کام نکلوانے شروع کئے۔۱۹۰۹ میں مورلے منٹواور۱۹۱۹ میں مونٹیگو چیلمس فورڈ اصلاحات انڈیابھر میں نافذ ہوئیں لیکن صوبہ سرحد کو ان اصلاحات سے محروم رکھا گیا۔سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے جن مقامی افرادنے صوبے میں اصلاحات کے نفاذ کی بات کی ان کے خلاف فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن(ایف سی آر) کاہتھیار استعمال کیا گیا ۔
ان حالات میں خان عبدالغفار خان کے وجودمیں پشتون قوم کوایک عظیم رہنمامل گیا جس نے اس قوم کے حقوق کی آوازبلندکی۔وہ پشتون بھی تھے اور مسلمان بھی اورطبعی طورپر انہوں نے مددکے لئیانڈیا کے مسلمان لیڈروں سے رابطہ کرکے اپنی تحریک کی تائید اوراخلاقی امداد حاصل کرنا چاہی لیکن ان مسلمان لیڈروں نے اس وقت غفار خان باچا کی پکار کو نظرانداز کردیاکیونکہ برطانوی سامراج نے ’’خدائی خدمت گاروں‘‘ کے خلاف ان کے سرخپوش ہونے کی بنا پر انہیں کمیونسٹ اوربالشویک قرار دے کر پروپیگنڈہ کیا ہواتھا جو خاصاکامیاب رہا تھا۔
مصنف کے نزدیک اس وقت مہاتما گاندھی ہی تھے جنہوں نے عبدالغفار خان کی طرف دوستی اور تعاون کاہاتھ بڑھا دیا۔ہندو مسلم اتحادہی ان دونوں رہنماؤں کی تحریک حریت کو کامیاب بناسکتا تھا۔اس تعاون کے نتیجے میں خدائی خدمتگار تحریک کے ساتھ ساتھ کانگرس صوبہ سرحدکی مقبول ترین جماعت بن گئی۔اورآگے چل کر اسے صوبہ میں اپنی حکومت بھی قائم کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی۔
مصنف نے بتایاکہ پشتون مسلمانوں کی مدد کا یہ ابتدائی موقعہ گنوانے کے بعدکس طرح بعد میں مسلم لیگ نے صوبے میں کانگرس کا اثررسوخ زائل کرنے کے لئے صوبے میں طبقاتی تقسیم پیدا کرنے کے خواہاں اعزازی مجسٹریٹوں،ذیل داروں،معافی داروں اور جاگیرداروں سے رابطے قائم کئے کیونکہ بزعم خود مسلمانوں کی نمائندہ کہلانے والی جماعت مسلم لیگ کو یہ بات بڑی چبھتی تھی کہ ایک ایسا صوبہ بھی ہے جس میں پچانوے فیصد باشندے مسلمان ہیں اور ان کی اکثریت کانگرس سے وابستگی رکھتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی کہ جب لیگ نے’’ شمال مغربی پاکستان‘‘ کی بات کی تھی تو شمال مغربی صوبے کو شامل کئے بغیر’’شمال مغربی‘‘پاکستان بھلا کیسے بن سکتاتھا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ لیگی رہنماؤں نے ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘کا رونا رو کرصوبے کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو مسلم لیگ کی طرف راغب کرنے کا منصوبہ بنایا۔سردار محمد اورنگزیب خان نے اعلان کیا کہ وہ ’’ہندو‘‘کانگریس کا خاتمہ کرکے صوبے میں قرآن اور شریعت کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔مصنف کادعویٰ ہے کہ اس منصوبے کو انگریز کی تائید حاصل تھی وہ چاہتا تھا کہ اس طرح سے دنیا پرثابت کر سکے کہ تمام مسلم اکثریتی صوبے کانگریس کے خلاف ہیں کیونکہ کانگریس ایک ہندو تنظیم ہے اور ہندوستان میں ہندو راج قائم کرنا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کو مذہب کی بنیاد پرہندوستان کی تقسیم پہ اعتراضات تھے۔اور غالباً وہ صوبہ سرحد کی مثال دیتاتھا کہ وہاں کے مسلمان تو مسلم لیگ میں شامل یا اس کے حامی بالکل بھی نہیں۔
بہرحال ان کوششوں کے نتیجے میں 1843میں ایک منارٹی گورنمنٹ کا قیام عمل میں آگیا جو کہ مسلم لیگ منسٹری تھی۔لیکن یہ زیادہ دیر نہ چل سکی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ لیگ میں کچھ ایسے مفادپرست لوگ راتوں رات اپنی وفاداریاں بدل کر شامل ہو گئے جو لیگ کے ساتھ مخلص نہ تھے۔انکا شمار لیگ کے شدید مخالفوں میں ہوتا تھا لیکن اقتدار کی لالچ نے انہیں مسلم لیگ کی صفوں میں لا کھڑا کیا ور بعد میں انہی لوگوں کی بدانتظامی، بدعنوانی،اقربا پروری،کرپشن اور مفادپرستی لیگی حکومت کو لے ڈوبی اور بعدہ صوبے میں ایک بار پھر ڈاکٹر خان صاحب حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
مصنف کے بقول مسلم لیگ کے اکثر رہنماان صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔وہاں کے مسلمانوں میں خوف اور ڈر کا کارڈ استعمال کرکے مسلم لیگ اپنی سیاست چمکانے میں کامیاب ہوئی تھی۔اس کے برعکس صوبہ سرحد کے پشتون مسلمان جو اس صوبہ میں اکثریت میں ہیں ،انہیں ہندو کے خوف اور ڈر پر مبنی کوئی سیاسی پیغام متأثر کر نہیں سکتا۔پٹھانوں کو نہ صرف یہ کہ کوئی خوف لاحق نہیں بلکہ ہندو سے ڈرنے کو وہ توہین سمجھتا ہے۔
عبدالقیوم خان صاحب نے کتاب میں خان برادرز کے علاوہ صوبہ سرحدکی بعض دیگر نمایاں سیاسی اورغیر سیاسی شخصیات کا بھی ذکر کیاہے اورپشتونوں کے لئے ان کی زریں خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
کتاب کے آخری ابواب میں انہوں نے پشتون علاقہ کے مسئلہ ، جسے وہ ’’فرنٹئیر پرابلم‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں،کے ممکنہ حل پیش کئے جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اولین طورپر قبائلی علاقہ پر سے برطانوی پولیٹیکل اور ڈیفنس ڈیپارٹمنٹس کا کنٹرول ختم کیا جائے۔قبائلی عوام میں جرگہ سسٹم رائج کیا جائے جس میں ہر قبیلے کا جرگہ اپنے قبیلے کے اندرونی معاملات کو سنبھالنے کا ذمہ دارہوگا۔ان مقامی قبائلی جرگوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک گرینڈ( لویہ) جرگہ تشکیل دیا جائیگاجو قبائل کے باہمی معاملات کی نگرانی اور باہمی تنازعات کا فییصلہ کرنے کے علاوہ قبائلی علاقہ کے صوبہ (سرحد)کے ساتھ معاملات کا بھی نگران ہوگا۔اس کے ساتھ انتہائی ضروری ہوگا کہ برطانیہ کے تنخواہ دارقبائلی جاسوسوں اور قوم کے غدار مَلکوں سے بھی جان چھڑائی جائے۔اسی طرح سے ایک کمشن کا قیام کیا جائے جو قبائلی علاقہ کی معاشی ترقی اور یہاں بیروزگاری،افلاس،بھوک ننگ کے خاتمہ کے لئے کاٹج انڈسٹری،کارخانے،زرعی صنعتوں کا قیام عمل میں لائے۔
سیاسی اور انتظامی لحاظ سے موجودہ سسٹم ختم کرکے پٹھان سرزمین کو،جو این ڈبلیو ایف پی،قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان پر مشتمل ہے، ایک اکائی بنا دیا جائے۔اس سے بہت سے اخراجات بچیں گے۔کیونکہ موجودہ تین انتظامی ڈھانچوں کی بجائے ایک ہی اتنظامیہ ہو گی۔جب پشتون ایک قوم ہے تو تین انتظامیہ کیوں؟۔پشتون عملی سوچ رکھتا ہے۔اسی سوچ کی بنیاد پر نئے آئین کو تشکیل دیا جاناچاہیئے۔
پٹھانوں کو اپنا سیاسی مستقبل خود متعین کرنے کا حق اور آزادی ملنا چاہئے۔(برطانوی استعمار کے خاتمہ کے بعد)ہم ایک آزاد اور خودمختاریونٹ ہوں گے جو برصغیر کے دیگر خودمختاریونٹس کے اتحادی ہوں گے۔اس مجوزہ اتحادی انڈین فیڈریشن کے اندر ہم اپنی مرضی سے اپنا کردار اور مقام متعین کریں گے۔ہمیں حق ہوگا کہ قومی مفاد کی خاطر جس حد تک اس کے ساتھ اتحادکرنامناسب ہو کریں اور جب چاہیں اس انڈین فیڈریشن سے الگ ہوجائیں کیونکہ پٹھان نہ خودکسی پہ حاوی ہوتا ہے اور نہ کسی اورکواپنے اوپر حاوی ہونے دیتا ہے‘‘۔(ملخّص)۔
قارئین موجودہ زمانہ کے حالات میں جبکہ فاٹا اور صوبہ خیبرپختونخواکے ادغام کی بات اور اس پر پیش رفت عروج پر ہے اور اسی طرح جنوبی پشتون علاقہ کو بلوچستان سے الگ کرکے اسے جداگانہ حیثیت دینے یا اس کا ادغام فاٹا خیبرپختونخوا سے کردینے کی تجاویز دی جارہی ہیں،ان کے تناظر میں عبدالقیوم خان کی اس ضبط شدہ کتاب کا مطالعہ اور بھی دلچسپ اور مزیدمعنی خیز ہوجاتاہے۔مسئلہ یہ ہے کہ(میرے علم کے مطابق) اس کتاب پر عائدپابندی کو آج تک باضابطہ طورپرختم نہیں کیا جا سکا۔۔حالانکہ صوبہ میں اے این پی کی حکومتیں بھی رہی ہیں جو باچاخان کے فلسفہ کی علمبردارہونے کی داعی تھیں۔
عبدالقیوم خان صاحب کتاب کی تصنیف سے کچھ ماہ بعدخود مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے اور صوبہ کے مسلم لیگی وزیراعلیٰ ہونے کی حیثیت سے آپ نے اپنی ہی اس کتاب پر پابندی عائدکردی تھی جو مسلم لیگ پر شدید قسم کی تنقیدپر مبنی ہے۔
کوئی کتاب پڑھ کر اس پر پابندی لگانے کا فیصلہ ایک مشکل کام ہوتا ہے اور اس پر عائد پابندی کو ختم کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ،لیکن کتاب لکھ کر اس پر پابندی لگاناغالباً آسان ترین کام ہے کیونکہ ایسی صورت میں مصنف خود ہی منصف ہوتا ہے۔
کئی بارایسا بھی ہوتا ہے کہ قاری کوئی کتاب پڑھ کر بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ کاش مصنف اس کتاب پہ ازخود پابندی لگا دیتا تو کتنا اچھا ہوتا لیکن عبدالقیوم خان صاحب کی زیرتبصرہ کتاب پڑھ کرکتنے ہی لوگ یہ کہہ اٹھے ہونگے کہ کاش وہ اپنی اس کتاب پہ پابند ی نہ لگاتے!۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عبدالقیوم خان نے کانگرس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اس لئے اختیار کی کہ وہ بھانپ گئے تھے کہ آزادی کے بعد برصغیر میں مذہبی سیاست یا سیاسی مذہبیت کا دور شروع ہوجائیگا(جومبینہ طور پرمسلم لیگ کی شکل میں شروع ہو بھی گیا تھا)،ہو سکتا ہے یہ درست ہو لیکن بڑی وجہ اس’’سوئچ اوور‘‘ کی یہ تھی کہ ڈاکٹر خان صاحب نے(کچھ شبہات اور کچھ شواہد کی بناپر) انہیں اگلے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ عطاکئے جانے سے انکارکردیاتھاجبکہ وہ (یعنی عبدالقیو م خان صاحب ) جانتے تھے کہ صوبے کی سیاسی بساط پہ اب وہ ایک اہم اور جانا پہچانا مقام حاصل کر چکے ہیں لہٰذہ چاہے وہ کسی بھی پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں،جیت ان کی ہی ہوگی۔وہ جان چکے تھے کہ اب سیاست میں نظریات کو نہیں بلکہ شخصیات کو دیکھا جائے گااس لئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے سے انہیں ذاتی طورپر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس حقیقت کا اظہار خود انہوں نے ایک موقع پر یہ کہتے ہوئے کیا کہ
147Everything is fair in politics. Whether it was the All-India National Congress or the All-India Muslim League, victory was always the destiny for me.148
آج کاپاکستانی منظرنامہ ان کے اس قول پہ مہرتصدیق ثبت کر رہا ہے۔
♦
One Comment