زکریاورک
شام کی لا ئبریریاں
شام کے بڑے اہم شہروں جیسے دمشق، حلب اورطرابلس میں کتب خانے تھے۔ کئی صدیوں سے دمشق علم کا گہوارہ چلا آرہا تھا۔ امیہ شہزادہ خالدبن یزید (705)، خلیفہ عبد الملک ابن مروان (705) اور عمر بن عبد العزیز (720) نے یہاں عمدہ کتب خانے تعمیر کروائے۔ خالد کو کتابیں جمع کرنے کا جنون تھا۔ اسلامی دنیا میں پہلی دفعہ اس نے کیمیا پر یونانی کتابوں کے تراجم کروائے۔ جامع بنی امیہ الکبیرکے کتب خانے میں نادر الوجودقیمتی مخطوطے تھے نیز یہاں تاریخی دستاویزات تھیں۔ مسجد کی بنیاد ولید اول (715) نے رکھی تھی۔ مصحف عثمانی یعنی حضرت عثمانؓ کا ترتیب کردہ قرآن اس لا ئبریری میں تھا۔ابن بطوطہ نے یہ قرآن مجید اپنے سفر کے دوران دیکھا تھا۔
سولہویں صدی میں دمشق میں 30 مدرسے اور20 کتب خانے تھے۔ اندلسی سیاح ابن جبیر نے اپنے سفر نامے رحلہ میں لکھا ہے تمام مدرسوں میں سے نور الدین زنگی مدرسہ اس قدر عالی شان تھا کہ سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔مذہبی علوم کے علاوہ یہاں فزکس، میتھ، اسٹرانومی، لٹریچر کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہاں چار میڈکل سکول اور ایک انجنئیرنگ سکول تھا جن کے ساتھ اکیڈیمک لا ئبریریاں تھیں۔
طرابلس کی لا ئبریری: شیعہ خاندان بنو عمار کے دورحکومت میں طرابلس علم کا گہوارہ تھا۔ بلکہ شہر علم و ادب کا مینارہ نور تھا۔ حسن بن عمار نے ایک سکول کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ کتب خانہ تھا جس کی وجہ یہاں کئی علما وفضلا نے جنم لیا ۔ طرابلس کو دارا لعلم کہا جاتا تھا جہاں 180کاتب تھے جن میں سے30شب و روزکتابیں نقل کرتے تھے۔ اندازاََ یہاں 130,000مسودات تھے جن میں پچاس ہزار قرآن ، اور بیس ہزار تفاسیر القرآن تھیں۔صلیبیوں کے شہر فتح کرنے پر کتب خانے پامال کر دئے گئے۔
حلب میں بنو ہمدان کے حکمراں سیف الدولہ نے شہر میں کتب خانہ تعمیر کروایا۔ اس کا سائنس ایڈوائزر ابو نصر محمد ابن فارابی (872-950)تھا۔چیف لا ئبریرین محمد ابن ہاشم تھا۔
سمر قند اور بخارا کی لائبریری
سمر قند (ازبکستان) کو کتابوں کی تاریخ، ان کی تشہیر اور ان کی تحفظ میں اہم مقام حاصل ہے۔ یہاں پیپر مل ۷۵۱ میں تعمیر ہوئی تھی۔ کاغذ کی فراوانی سے کتابیں لکھنا نہ صرف آسان ہوگیا، بلکہ علم کی اشاعت دور دور تک ہو گئی۔ خواجہ نصیر الدین طوسی کی خواہش پر ہلاکو خاں نے آذربا ئیجان میں رصدگاہ تعمیر کروائی جس کے ساتھ پر شکوہ لا ئبریری تھی جس میں مسلم اور چینی سکالرز شانہ بہ شانہ تحقیق میں مصروف رہتے تھے۔ سقوط بغداد) (1258ء کے بعد سینکڑوں کتابیں یہاں لا ئی گئیں تھیں۔سمر قند اور بخارا سمانید سلطنت (819-999)کے کلچرل سینٹرز تھے۔ امام بخاری ؒ (870)بخارا کے رہنے والے تھے۔ سمانید حکمراں نوح ابن منصور (r976-997)نے بخارا میں عالی شان کتب خانہ تعمیر کروایا تھا۔ ابن سینا (1037)نے اس کتب خانے کی کتابوں سے اکتساب فیض کیا تھا جس کا احوال ابن خلکان(1282) کی وفیات الاعیان میں دیا ہے۔
www.google.ca/books/ibn+khallikan+dictionary
احسان مسعود کے بقول بخارا میں ایک پبلک لا ئبریری تھی جہاں سکالرز کسی وقت بھی جا سکتے اور لا ئبریرین سے کہہ سکتے کہ ہمیں فلاں کتاب درکا ر ہے، اور پھر وہاں بڑے کشادہ ہال میں بیٹھ کر نوٹس لکھ سکتے تھے۔ (12)۔
غزنی کی لا ئبریری: سلطان محمود (998-1030)غزنوی کی لا ئبریری دنیا کی بہترین لا ئبریریوں میں سے تھی۔ سلطان محمود نے غزنی کوہندوستان سے لوٹ مار کر کے متمول شہر بنا دیا تھا۔ باوجودیکہ وہ جنگجو حکمراں تھا مگر اس کے ساتھ وہ علماو فضلا کا قدر دان اور ان کی سرپرستی کرتا تھا۔ البیرونی، الفارابی، فردوسی جیسے علم کے پروانے اس کے دربار کے جگمگاتے ہوئے ستارے تھے۔ سینٹرل ایشیا کے جگادری شاعراسدی، عنصری، عذاری ، پھر دو مؤرخ عتبی اور بیہقی اس کے دربار میں شب و روز اپنے کام میں مگن رہتے تھے۔ غزنی میں ایک لائبریری، میوزیم اور جامعہ وقف کی رقم سے چلتے تھے۔سلطان نے جب رے پر قبضہ کیا تو صا حب ابن العباد کی تمام کتابیں غزنی بھجوادیں جو 400 اونٹوں پر لادی گئیں تھیں۔ مجدالدولہ کی کتابیں50ا ونٹوں پر غزنی بھیجی گئیں تھیں۔
اسلامی سپین کی لائبریریاں
سپین میں قرطبہ اسلامی سلطنت کے ماتھے کا جھومرتھا۔ شہر24 میل لمبا اور10 میل چوڑا تھا۔ یہاں380مساجد، 800 مدرسے، اور 70 پبلک لا ئبریریاں تھیں۔ یہ یورپ کا کلچرل اور انٹلیکچو ئیل سینٹر تھا۔ اس کا ایک نام کتابوں کے عاشقوں کا شہر تھا۔ قرطبہ کی سوسائٹی میں جن افرادکے ذاتی کتب خانے تھے ان کو اہم شخصیت مانا جاتا تھا۔ بک شیلف صندل کے ہوتے تھے جن کے باہر کتابوں کی فہرست چسپاں ہوتی تھی۔ قرطبہ مسجد کی لا ئبریری سب سے بڑی تھی (13)جس کی جامعہ میں چار ہزارطلباء تحصیل علم کرتے تھے۔ دارلکتابت میں جلد سازوں کے علاوہ کاتب شب و روز کتابت میں مصروف رہتے تھے۔ شہر میں کتابوں کی خاص مارکیٹ تھی۔ خلیفہ الحکم ثانی (961-976)کی بے نظیر لائبریری تھی۔ وہ ایک تسلیم شدہ عالم و فاضل تھا جس نے 27فری سکول جاری کئے، جامعہ قرطبہ میں چئیرز قائم کیں۔ اس کے گماشتے کتابوں کی تلاش میں مصر، شام، عراق کے کتاب بازاروں کوکھنگالتے تھے۔ اس کے شاہی محل میں جو ذاتی لا ئبریری تھی ان کی متعدد مکتب کا وہ مطالعہ کر چکا تھا کیونکہ ان کے حاشیوں میں نوٹس لکھے ہوتے تھے۔ ایران میں لکھی کتابیں اس کے نام سے منسوب کی جاتی تھیں۔ لا ئبریری کلرکس جن میں کئی خواتین تھیں کتابوں کو نقل کرتی تھیں جبکہ جلد ساز ان کی جلدیں بناتے اور کیلی گرافرز ان کے سرورق کے ڈیزائن بناتے۔) (14ابو الفرج اصفہانی کو خلیفہ کے حکم پر ایک ہزار دینار بھیجے گئے تا وہ اپنی تصنیف کتاب الاغانی سب سے پہلے سپین بھیج دے۔
الحکم کی لائبریری کی شہرت کی بناء پر اس کے مشیروں میں مقابلہ رہتا تھا کہ وہ با صلاحیت لا ئبریرینز اور سکالرز کو مدعو کریں ۔اس شاندار لا ئبریری کی مہتمم قرطبہ کی خاتون لبنیٰ (984)تھی جس میں چار لاکھ کتابیں اور اس کی فہرست 44جلدوں پر مشتمل تھی ۔ لبنیٰ کے ذمہ کتابوں کے نقول تیار کرنا، تراجم کروانا اور نئی کتب لکھوانا تھا۔ بعض مؤرخین کے مطابق قرطبہ میں 170عورتیں ہمہ وقت کتابت کا کام کرتی تھیں جس سے اس روشن خیال خلیفہ کے دور میں عورتوں کا معاشرتی مقام ظاہر ہوتا ہے۔ جب الحکم پر علما کرام نے پریشر ڈالا کہ وائن کو ممنوع قرار دیا جائے تو اس کے خازن نے یا د دہانی کرائی کہ وائن پر گناہ ٹیکس سے قرطبہ لا ئبریری کی نئی عمارت کی تعمیر کا خرچ ادا ہو رہا ہے۔
ہر بڑے شہر طلیطلہ، اشبیلیہ، غرناطہ میں وسیع کتب خانے تھے۔ جرجی زیدان کا کہنا ہے کہ غرناطہ میں 137 مدرسے اور70 لا ئبریریاں تھیں۔ مؤرخابو العباس احمد المقری (1632)کا کہنا تھا کہ اہل اندلس لائبریریوں میں دنیا پر سبقت لے گئے ہیں۔ شہر میں کئی صا حب ثروت ایسے تھے جو اگرچہ نا خواندہ ہوتے تھے مگر گھروں میں کتب خانے ہونے پر وہ فخرو انبساط محسوس کرتے تھے۔ڈچ عربک سکالر ڈوذی (1883) کا کہنا ہے کہ اندلس میں ہر شخص پڑہنا لکھنا جا نتا تھا جبکہ یورپ میں صرف پادری اور اشراف پڑہنا لکھنا جانتے تھے۔ باقی سب کے سب جاہل مطلق۔ (15)۔
امریکی مؤرخ رچرڈ ایرڈوزلکھتا ہے: “اندلوسیا سکالرز ، لائبریریز اور کتابوں کے عاشقوں اور جمع کرنیوالوں کی سرزمین تھی۔ قرطبہ میں بجائے خوبصورت داشتاؤں اور ہیرے جواہرات کتابیں مطلوب ہوتی تھیں۔ شہر کی شہرت اس عظیم لا ئبریری کی وجہ سے تھی جس کو الحکم دوم نے قائم کیا تھا۔۔۔انجام کار یہاں چار لاکھ کتابیں تھیں۔۔ ۔ ہرکتاب کے پہلے صفحہ پر مصنف کا نام، تاریخ، مقام پیدائش اور اس کے اجداد کے علاوہ اس کی دیگر کتابوں کا ذکر ہوتا تھا۔ کتابوں کی فہرست 48 جلدوں میں تھی جس کی لگاتار ترمیم کی جاتی، نئے اضافے کئے جاتے ، کل کتابوں کے نام لکھے جاتے، اور ہدایت ہوتی کہ فلاں کتاب لائبریری میں کہاں پرموجود ہے“۔
Andalusia was, above all, famous as a land of scholars, libraries, book lovers and collectors133in Cordoba books were more eagerly sought than beautiful concubines or jewels133the city’s glory was the Great Library established by al-Hakam II133ultimately it contained four hundred thousand volumes133on the opening page of each book was written the name, date, place of birth and ancestry of the author, together with titles of his works, Forty eight volumes of catalogue incessantly amended, listed and described all titles and contained instructions on where a particular work could befound”( 16)
قرطبہ کا جج (قاضی) ابوالمعترف ابن فطیس عبد الرحمن کتابیں جمع کرنے میں سب پر سبقت لے گیا تھا۔ اس کی ملازمت میں چھ کاتب تھے۔ وہ کسی کو کتاب عاریتاً نہیں دیتا تھا۔ بلکہ اس کی نقل کروا کر تحفہ میں دے دیتا تھا۔ اس کی لا ئبریری میں اتنی بیش قیمت کتابیں تھیں کہ ان کے نیلام میں چالیس ہزار دینار موصول ہو ئے تھے۔ کئی خواتین سکالرز بھی تھیں جیسے پرنس احمد کی دختر جو غضب کی شاعر اور شعلہ نوا مقرر تھی۔شاہی کتب خانے میں ملازم کئی عورتوں نے شادیاں نہیں کیں اور محض کتابوں کی تلاش اور جمع کرنے میں مجر د زندگی گزار دی۔
اسلامی سپین کی لا ئبریریوں کا یورپ کی نشاۃ ثانیہ اورسائنس پر کیا اثرہؤا؟ اس کاجواب تھامس یوں دیتا ہے:” قریب ایک سو سال کے عرصہ (1150-1250) ارسطو کی تمام کتابوں کے تراجم کئے جانے پر ان کو مغرب میں متعارف کیا گیا جن کے ساتھ ان کی شرحیں تھیں۔ ۔۔یہ بذات خود ایک بہت بڑی لا ئبریری تھی۔ ان علوم کا جذ ب کرنااور ان پر قدرت حاصل کرنا اس چیز نے عیسائیت کے ذہین ترین دماغوں کو مصروف رکھا اور اس کے ساتھ مغرب کی روحانی اور دانشی حیات کو قطعی طور پرتبدیل کر کے رکھ دیا۔ (ارسطو) پر ابن سینا اور ابن رشد کی یکتائے فن شرحیں جنہوں نے فلاسفر کی فکر کو غیر مذہبی اور غیر روحانی ہونا ثابت کیا، اس امر نے مغرب کے خردمند وں کیلئے سنجیدہ بحران پیدا کر دیا۔ ۔۔اس سارے کام کو عیسائی دھرم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بہت دشوار کام تھا۔۔۔ اس وجہ سے بے مثال دانشی سرگرمی کے دور کا آغاز ہؤا جو تیرھویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچا خاص طور پر پیرس اور آکسفورڈ میں“۔ (17)۔۔
اسکوریال کی لائبریری: اسلامی کتابوں کے بیش قیمت قلمی نسخے سب سے زیادہ یہاں پائے جاتے ہیں جو میڈرڈ سے45 کیلومیٹر اسکوریال پیلس میں واقع ہے۔ اس کا سنگ بنیاد کنگ فلپس دوم نے بطور محل اور راہب خانے کے1563ء میں رکھا تھا ۔ دوسری منزل پرایسی کتابیں ہیں جن کو کیتھولک مذہبی عدالتInquisition نے ممنوع قرار دے دیا تھا۔انکوئے زیشن میں ستر ہزاراسلامی کتابیں نذر آتش کی گئیں تھیں۔ جو بچ گئیں ان میں سے1800 عربی کے قلمی نسخے یہاں موجود ہیں جو مسلمانوں کے سپین سے انخلاء پر حاصل کئے گئے تھے۔راقم الحروف نے اس محل ، راہب خانے اورلا ئبریری کو2000میں سپین کی سیاحت کے دوران دیکھا تھا۔
ہندوستان کی لا ئبریریاں
مغل دور حکومت سے قبل سلاطین ہند (1206-1526) ہندوستان کے فرماں روا تھے۔ رضیہ سلطان (r1236-40)دہلی سلطنت کی حکمراں تھی۔ درحقیقت وہ ہندوستان کی پہلی خاتون حکمراں تھی۔ رضیہ ارباب علم و فضل کی سرپرست تھی جس نے شمالی ہندوستان میں مدرسے اور کتب خانے قائم کئے۔ اس کو عالم نواز کالقب مولانا منہاج سراج جزجانی نے دیا تھا جو23 جلدوں پر مشمول طبقات ناصری (1260)کے مصنف تھے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی میں تمام سلاطین اور امراء کی پرائیویٹ لا ئبریریاں ہوتی تھیں جہاں وہ دن کا کچھ حصہ گزارتے تھے۔ ایسے کتب خانے محل کے اندر یا پھر مسجد سے ملحق ہوتے تھے۔ (18)سلطان علاء الدین خلجی (d1296)نے دہلی میں شاہی لا ئبریری قائم کی اورممتازصوفی سکالر امیر خسرو کو اس کا لائبریرین مقرر کیا ۔ لا ئبریری کے ناظم کا عہدہ حکومت کا اہم آفیسر سمجھا جاتا اور اس کی عزت وشہرت تھی۔ نظام الدین اولیاء ؒ (1325)نے اپنی درگاہ میں لا ئبریری قائم کی جس کیلئے عطیات عوام سے ملے۔ یہاں کثیر تعداد میں مسودات تھے۔ (نوٹ: نومبر2013ء میں راقم الحروف کو درگاہ شریف پر دعاکرنے ، تبرک کھانے اور امیر خسرو کا مزار دیکھنے کا موقعہ نصیب ہؤا تھا) ۔.
مغل ہندوستان کی لائبریریاں 1526-1857
تمام مغل حکمراں کتابوں کے رسیا تھے اور ذاتی لا ئبریریوں کیلئے نادر نسخے جمع کرنے پر آمادہ رہتے تھے۔ مغل دور حکومت میں پہلا کتب خانہ ظہیرالدین بابر (d1531)نے قائم کیا تھا جو بہ ذات خود مصنف تھا۔ اس کی لائبریری شاہی محل دہلی میں واقع تھی جس کو آنیوالے حکمرانوں نے توسیع دی ۔ ہندوستان پر حملے وقت وہ اپنے ہمراہ کئی نادر کتابیں لایا جن میں بعض پینٹنگز کی تھیں۔ اس کا وطن مالوف ازبکستان عالموں اور دانشوروں کا منبع و مرجع تھا۔ سمرقند، فرخانہ، خراساں اور ہیرات علم کے مراکز تھے جہاں علما دور دور سے وفور شوق سے کشاں کشاں چلے آتے تھے۔ اس کے شاہی دربار میں بہت سے سکالرز تھے۔ وہ خود کیلی گرافی کا ماہر تھا۔ خواہ وہ دہلی میں ہوتا یا پھر فوجی مہم پر لائبریری کا کچھ حصہ اس کے پا بہ رکاب ہوتا تھا۔ مغل حکمرانوں کے کتب خانوں میں فارسی میں ادب اور سائنس پر کتابیں پائی جاتی تھیں۔ بابر کا فرزند ارجمند نصیر الدین بیگ ہمایوں (1556)بھی عمدہ کتابیں جمع کرنے کا شوقین تھا۔ پرانے قلعہ دہلی میں شیر منڈ ل عمارت تھی جس کی دوسری منزل پر اس کا کتب خانہ تھا ۔ یہ عمارت بطور رصد گاہ بھی اس کے زیر استعمال رہی۔
جلال الدین اکبر (1605)نے دادا کی لا ئبریری کو منظم کیا۔ ایرانی ماں کی طرف سے اس کو ادب اور فنون لطیفہ سے لگاؤملا تھا۔ اس نے لا ئبریریوں کیلئے حکومت میں الگ سے محکمہ قائم کیا جو کتابوں کو حاصل کرکے ان کو جدید خطوط پر سٹور کریں نیز ان کی باز یافت کا اہتمام کریں۔ فتح پور سیکری میں اس نے خواتین کی تعلیم کیلئے کتب خانہ قائم کیا۔ لا ئبریری آگرہ قلعہ کے کشادہ ہال میں واقع تھی۔ اکبر کی لا ئبریری میں 24,000 مسودات تھے ۔ فتح پور سیکری میں دیوان خانہ میں ترجمہ کا دفتر تھا جس کانام مکتب خانہ تھا۔ ہر مصنف پر لازم تھا کہ وہ اپنی تصنیف کی ایک کاپی شاہی کتب خانے کو ارسال کرے۔ کئی کتابیں اس نے مہموں کے دوران حاصل کیں جیسے گجرات کی فتح پر اعتماد خاں گجراتی کی تمام کتابیں دہلی بھیج دی گئیں جن میں سے کچھ اس کے نورتنوں کو ملیں جیسے عبد القادر بدایونی کو امام غزالیؒ کی مشکوۃ الانوار تحفہ میں ملی تھی۔ جب شیخ ابو الفیض فیضی نے داعی اجل کو لبیک کہا تو اس کی 4,600کتابیں شاہی لا ئبریری میں منتقل کر دی گئیں۔(19) یہ کتابیں اسٹرالوجی، اسٹرانومی، میتھ، تفسیر، حدیث اور فقہ پر تھیں۔ یورپین پادریوں نے اکبر کو یورپین کتب لا کر دیں۔
اکبر کے دربار میں متعدد ارباب علم وفضل اور قابل آرٹسٹ تھے۔ متعدد کتابوں کے تراجم کئے گئے۔ ترکش، سنسکرت اور عربی سے مذہبی کتب فارسی میں ترجمہ کی گئیں۔ چوبیس ہزار کتابوں کی فہرست تیار کی گئی جس کیلئے اس نے کتابوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ خواتین کیلئے لا ئبریری کا قیام عمل میں آیا۔ کتابوں کا شوق خون کی ماننداس کی نس نس میں دوڑتا تھا باوجودیکہ وہ لکھنا اور پڑھنا نہیں جا نتا تھا۔(20) ۔
مرزا نورالدین جہانگیر (1627)نے ریاضی، سائنس اور لسانیات میں تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ خود معروف قلمکار تھا جس نے اپنی خود نوشت سوانح تزک جہانگیری (جہانگیر نامہ) قلم بند کی تھی۔ اجداد سے ملنے والی لا ئبریری کو اس نے توسیع دی اور اس کیلئے آرٹ ورک خریدا۔ نئے مدرسے اور کتب خانے تعمیر کروائے۔ اس نے قانون بنایا اگر کوئی متمول شخص ورثاء کے بغیروفات پاجائے تو اس کی دولت راہب خانوں اور مدرسوں کو دے دی جائے۔ اس کی لا ئبریری میں 60,000 کتابیں تھیں جس کا نا ظم مکتوب خاں تھا۔ وہ ناظم کو ہدایات دیا کرتا تھا کہ کتابوں کی کیٹیلاگ کس طریق پر تیار کی جائے۔
شہاب الدین بیگ خرم شاہجہاں (1666)کے دور حکومت کو مغل فن تعمیرات نیز علم و آگہی کا دور کہاجاتا ہے۔ شاہی لا ئبریری میں مزید توسیع کی گئی۔ اپنے باپ کی طرح شاہ جہاں بھی ارباب فن و کمال کا سرپرست تھا۔ اس کے دربار میں کیلی گرافرز کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ اس کی لا ئبریری میں مختلف علوم پر کتابیں تھیں جیسے ریاضی، جغرافیہ، طب، علم نجوم، منطق، تاریخ اور زراعت۔ لاہور، دہلی، جون پور، احمدآباد علم و فیض کے مراکز تھے۔ دانشوروں کے اپنے کتب خانے بھی تھے جیسے ملا عبد الحکیم سیالکوٹی کی لا ئبریری میں نادر الوجود مسودات تھے۔
محی الدین اورنگ زیب عالمگیر (d1707) عالموں اور دانشوروں کی محفل میں رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ صغر سنی سے اس کو کتابوں کا شوق تھا۔شرعی مقدمات کیلئے کوئی جامع مانع کتاب فقہ نہ تھی جس میں تمام مسائل کے جواب جمع کر دئے گئے ہوں۔ اورنگ زیب نے ۵۰ ممتاز علماء دین کا بورڈ تشکیل دیا تا وہ حنفی فقہ کے مطابق فتاویٰ کا مجموعہ تیار کریں۔اس بورڈ کے افسر ملا نظام تھے۔ اس محنت طلب کام کیلئے تمام ریفر نس بکس شاہی کتب خانہ جس میں بے شمار کتابیں فراہم تھیں وقف کردیا۔ کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد کتاب فتاویٰ عالمگیری تیار ہوئی جو عرب ممالک میں فتاویٰ ہندیہ کہلاتی ہے۔ بعض ایک ریفرنس بکس مولانا حبیب الرحمن شیروانی (شعبہ حبیب گنج ) علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی میں دستیاب ہیں۔ وہ بذات خود اچھا قلمکار اور خوش نویس تھا۔ حافظ قرآن ہونے کے ناطے اس نے فارغ اوقات میں قرآن مجید اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔سیالکوٹ پیپر انڈسٹری کا گڑھ تھا اسلئے یہاں پرشوکت لا ئبریری تھی۔تاریخ کی کتابوں میں اس کی لائبریری کے ناظموں کے نام دئے گئے ہیں جیسے محمد صالح ابن عیسیٰ خاں، سید علی تبریزی۔ محمد منصور (مہتمم)، سید علی حسین (مہتمم)اور کبیر خاں(مہتمم) ۔
مغلیہ دور حکومت میں ایسی خاتون شعراء ، مصنفین بھی تھیں جو کتابوں کی شوقین تھیں جیسے ماہم اننگ (1562)، گل بند بیگم(1603)، ممتازمحل (1631)، سلیم سلطانہ بیگم (1612)، نور جہاں بیگم (1645)۔ شہزادی گل بدن بیگم فارسی اور ترکی میں شعر کہتی تھی۔
زیب النساء کی لا ئبریری : مغل شہزادیاں کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کرنے میں پیش پیش تھیں۔ اورنگ زیب کی بڑی بیٹی زیب النساء (1638-1702)کو باقاعدہ
طور پر مذہبی امور و عقائد کے متعلق تعلیم دی گئی تھی۔ وہ قد آور سکالر اور ادبی شخصیت تھی جو کئی نامور دانشوروں کی سرپرستی کرتی تھی۔ نغمے لکھنے اور گانے کے علاوہ اس نے کئی خو ب صورت باغ تعمیر کروائے۔ اس کا دربارادبی اکیڈیمی میں لگتا تھا جس کا نام بیت العلوم تھا ۔ یہاں سکالرز نئی کتابیں لکھنے اور تحقیق پر مامور تھے۔ کتابیں اس کے نام سے
منسوب کی جاتی تھیں۔ اس کی لائبریری میں لا تعداد قلمی نسخے تھے۔ اس کی شاعری کے مجموعہ دیوان مخفی میں421 غزلیں تھیں۔ اس نے درج ذیل کتابیں تالیف کیں: مونس الروح، زیب المنشات، زیب التفاسیر ۔) وکی پیڈیا(۔
عبد الرحیم خان خاناں لا ئبریری: مغلیہ دور حکومت میں اشرافیہ، اعیان ریاست اور ممتاز افراد کی اپنی لائبریریاں تھیں۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ اس کے پاس کتابیں زیادہ ہوں۔ دہلی میں عبد الرحیم خان خاناں(1627) کی پرورش شہنشاہ اکبر کے گھرانے میں ہوئی تھی۔ وہ پانچ زبانوں پرقدرت رکھتا تھا بشمول پرتگیزی کے۔اس نے ‘بابر نامہ‘ کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ اس کی مہتمم بالشان لا ئبریری تھی جس سے کئی نامور ادیبوں ، دانشوروں نے اکتساب فیض کیا تھا۔ اس کی لا ئبریری سے کتابیں رضا لا ئبریری رامپور، خدا بخش لا ئبریری پٹنہ اور ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ میں محفوظ ہیں۔ میر باقی اس کے کتب خانے کاناظم اور مو لانا ابراہیم نقاش اس کا کتاب دار (چیف لا ئبریرین) تھا۔ لائبریری میں95 ملازم تھے۔ مشہد کا رہنے والا محمد امین نقاش جلد ساز کتب خانے کے عملہ میں پانچ سو روپے ماہوار پر ملازم تھا۔ شجاع شیرازی یہاں ایک معزز کاتب اور ملامحمد حسین مشا ق جلد ساز تھا۔ اسی طرح دہلی کا ایک معزز شخص نواب ابراہیم خاں شاندار لا ئبریری کا مالک تھا۔ ہرکتاب پر اس کے مالک کی مہر تھی۔ فارسی کے سکالر شیخ فیضی کے پاس طب، شاعری، فلاسفی پر کتابیں تھیں۔ جہانگیرکا بیٹا شہزاہ (1622)خسرو کتابوں کا شوقین تھا۔شاہجہاں کے بیٹے دارا شکوہ (1659)کی مصوری کی کو لیکشن انڈیا آفس لا ئبریری لندن میں موجود ہے۔
دارا شکوہ کی قدیم لائبریری کی عمارت اس وقت گرو گوبند سنگھ اندرا پراشتھا یونیورسٹی کشمیری گیٹ دہلی میں واقع ہے۔ وہ ایک عالم فاضل اورماہر ترجمہ نگا ر تھا۔ اس نے 50 ا پنشد کاسنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا جس کانام سر اکبر ہے۔ مجمع البحرین اس کی شاہکار کتاب ہے جس میں اس نے ویدانتا فلاسفی اور صوفی ازم میں مشترک باتوں کو تلاش کیا تھا۔
لکھنو، دریاباد، مرشد آباد، بلگرام کے ارباب علم و سخن کے یہاں بڑے بڑے کتب خانے تھے۔ عوام مساجد کو کتابیں عطیہ میں دیتے جس کی وجہ سے عبادت گاہیں پبلک لا ئبریریاں بن گئیں تھیں۔
ٹیپو سلطان کی لائبریری: میسور کی ریاست کے حکمراں ٹیپو سلطان (1752-1799)کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ لوگوں میں قابلیت پہچان لیتا تھا۔ اس نے لبرل ایجوکیشن کیلئے سکول کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ لا ئبریری تھی جہاں کتابیں بیجاپور، گولکنڈہ، چیتور، ساوانور، کاڈاپا اور مہاراجہ میسور سے لائی گئیں تھیں۔ تمام کتابوں کی جلد چمڑے کی تھی۔ ملٹری آفیسرز کیلئے ٹریننگ کالج کی اپنی نفیس لا ئبریری تھی۔ سرنگا پٹم کے کالج جمیع الامور میں مذہب، سیاست اور دیگر امور پر کتابیں تھیں۔ ٹیپو کی ذاتی لائبریری میں دو ہزار سے زائد کتابیں تھیں۔29 دسمبر 1786 کو اس کو یورپ سے ایک کتاب ملی جس میں تھر ما میٹر پر معلومات تھیں۔ اس نے حکم دیا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ کر کے اس کو پیش کیا جائے۔ ہر کتاب کے مطالعہ کے بعد وہ اس پر” سلطنت خداداد” یا پھر اپنے نام ٹیپو سلطان کی مہر لگا دیتا تھا۔ اس کے کتابوں کے مجموعہ میں ایک نادر قرآن تھا جس کی کتابت اورنگ زیب عالمگیر نے کی تھی جو بعد میں برٹش رائیل لا ئبریری ،ونڈسرکاسل میں بھیج دیا گیا۔ برطانوی فوج کے خلاف لڑائی میں جب اس کو 1799 میں شکست ہوئی تو دو ہزار کتابیں جن میں سے بعض ایک کی جلد پربیش قیمت ہیرے جڑے تھے ، برطانوی فوج کے ہاتھ لگ گئے۔1838ء میں تمام عدیم المثال کتابیں لندن بھجواد ی گئیں۔
رضا لا ئبریری رامپور: یہ لا ئبریری ہندی اسلامی ثقافت و تہذیب کا مخزن ہے جسکی بنیاد اٹھارویں صدی کے آخر میں رکھی گئی تھی۔ ریاست کے حکمراں محمد سعید خاں کے دور حکومت میں شاہی لا ئبریری کا نام “کتب خانہ ریاست رامپور “تھا۔ نواب حامد علی خاں نے لا ئبریری کی عربی اور فارسی مخطوطوں کی فہرست 1928ء میں تیار کروائی۔ نامور شخصیات جیسے امیر مینائی، حکیم اجمل خاں، امتیاز علی خاں عرشی اس کے چیف لائبریرین تھے۔ لائبریری میں 1889ء میں 9347 کتابیں تھیں پھر اس میں اضافہ ہوتا گیا اور 1927 میں 24,117 ، اور اس وقت 55,000ہیں جن میں سے 15,000نادر قلمی مسودات ، تاریخی دستاویزات، ہئیت کے آلات، پینٹنگزہیں۔ (21)
خدابخش لا ئبریری پٹنہ: لا ئبریری کی بنیاد1891میں بہار کے مولوی محمد بخش نے رکھی تھی۔ آپ کے فرزند خان بہادر خدا بخش (1908)کو 1400مسودات ورثہ میں ملے تھے۔ خدا بخش نے ہندوستان کے کونے کونے کا سفر کیا تا لا ئبریری کیلئے مزید کتابیں حاصل کرسکیں۔ آپ کے نمائندوں نے قاہرہ، دمشق، بیروت اور طہران کے کتابوں کے بازاروں کو18سال تک اچھی کتابوں کیلئے تلا ش کیا۔ پٹنہ کے متمول خاندانوں نے لا ئبریری کیلئے 1904ء میں کتابیں عطیہ میں دیں۔ لا ئبریری میں موجود کتابوں کی فہرست 1950ء میں22 جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہاں 340 نادر الوجود مسودات ہیں بشمول تیمور نامہ ، شاہ نامہ، دیوان حافظ، سفینۃ الاولیاء۔ اس کے علاوہ 112پینٹنگز ہیں۔ قرآن مجید کا ایک مقدس صفحہ بھی ہے جو ہرن کی کھال پر لکھا ہؤا ہے۔ لائبریری 250,000کتابوں کی لا زوال دولت سے مالامال ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد لا ئبریری علی گڑھ: لا ئبریری کی بنیاد1877ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام کے وقت رکھی گئی تھی۔ سات منزل کی یہ ایشیا کی دوسری سب سے بڑی لا ئبریری ہے۔ یہاں چودہ لاکھ 1,400,000کتابیں ہیں، رسائل، پمفلٹ، مسودات، پینٹنگز اور تصاویر ہیں۔ علم بصریات کے باوا آدم ابن الہیثم کی کتاب المناظر کا لاطینی میں ترجمہ جو 1572میں یورپ میں ہؤا یہاں موجود ہے۔ یہاں 15,162بیش قیمت نوادرات ہیں جیسے کوفی رسم الخط میں پارچمنٹ پر لکھا کوفی نسخ میں مسودہ جس کو حضرت علیٰ ؓ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مغل بادشاہوں (بابر، اکبر، شاہ جہاں، شاہ عالم، شاہ عالمگیر )کے فرامین، ایک قمیض جس پر مکمل قرآن مجید خفی نسخ میں کتابت کیا ہؤا ہے۔
لا ئبریری کے اوریینٹل ڈویژن میں دو لاکھ کتابیں ہیں جبکہ اردو کی یہاں ایک لاکھ کتابیں ہیں۔ http://www.amu.ac.in/malibrary/
ابن سینا اکیڈیمی لا ئبریری علی گڑھ: اکیڈیمی یو نانی میڈیسن اور ہسٹری آف میڈیسن پر تخصیص کیلئے عالمی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں بیس ہزار نہایت بیش قیمت اور نادر کتابیں اور پانچ سو قلمی مخطوطات ،مائیکرو فلم ، کم پیکٹ ڈسکس اور کثیر تعداد میں رسائل و جرائد موجودہیں۔ اکیڈیمی میں خاص طور پرفارسی، اردو، انگلش، سنسکرت اور عربی میں ہسٹری آف میڈیسن، طب یونانی، عہد وسطیٰ کی طب، علم الادویاء پر کتابوں کا مخزن ہے۔ پھر بر صغیر ہند و پاکستان کے مشہور شعراء و نامور افراد غالب، اقبال، سر سید احمد خاں پر خاص مجموعے اور رسائل کے پرانے شمارے ہیں۔غالب سٹڈی سینٹر میں مرزا غالب پرلکھی جانے والی کتابوں اورجرائد کا نادر و نایاب خطیر مجموعہ ہے۔ خاص طور پر غالب کی صد سالہ برسی پرشائع ہونیوالے “غالب نمبرز “جو1969ء میں منائی گئی تھی۔ اکیڈ یمی کے بانی اور روح رواں45 کتابوں کے مصنف پروفیسر حکیم سیدظل الرحمن پدما شری ہیں۔ راقم کو حکیم صا حب کی صحبت میں چند رورز رہنے اور فیض یاب ہونے نیز اکیڈیمی میں نادر الوجود نوادرات ، رسائل کونومبر2013ء میں دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔
سلطنت عثمانیہ 1299-1823
استنبول کی لا ئبریری : سلطنت عثمانیہ کے زیر حکومت اسلامی دنیا کے تمام معروف شہر رہے تھے جیسے بغداد، قاہرہ، دمشق، مکہ، مدینہ، یروشلم۔ سلطنت عثمانیہ میں نئے مدرسے، کالجز اور لائبریریز سترویں صدی میں قائم ہوئی تھیں۔ محکمہ اوقاف کے قیام کے بعد کتابوں کی اشاعت، فروغ اور ترسیل کا کام نئے نہج پر شروع ہوگیا۔ لائبریریوں میں تنخواہ پر عملہ تھا۔ استنبول میں1678 میں ایک خاص عمارت میں لا ئبریری قائم کی گئی جوخاص اس مقصد کیلئے تعمیر کی گئی تھی۔ ٹوپکاپی محل میں عربی کے سب سے زیادہ مسودات جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت یہاں 14,000 مسودات ہیں، 18,000 منی ایچرزہیں جن کی چھ صد البم ہیں۔ سائنس، تاریخ، مذہب، لڑیچرپران گنت کتابیں ہیں۔ ٹوپکاپی پیلس میوزیم میں ایک زمانے میں دنیا کی سب سے زیادہ کتابیں پائی جاتی تھیں۔
http://topkapisarayi.gov.tr/en/manuscript-library-catalogue
پا کستان کی لائبریریاں
نیشنل لا ئبریری آف پا کستان کا افتتاح 1993ء کو اسلام آباد میں ہؤا تھا۔ یہ ایک قومی اثاثہ یا مخزن لا ئبریری ہے جس کا مقصد قوم کے ادبی ودانشی ورثہ کی حفاظت اور ترسیل ہے۔ یہاں 130,000کتابیں ، 1000جرائد و رسائل، ہیں۔ کتابوں کا بڑا حصہ مخطوطوں اور نادر کتابوں پر مشتمل ہے۔ لا ئبریری کے ایک شعبہ ماڈل چلڈرن لا ئبریری میں 9,000اردو اور انگلش کی کتابیں ہیں جن میں بعض ایک بریلپر ہیں۔ لا ئبریری میں ایک ملین کتابوں کی جگہہ ہے اور ریڈنگ روم میں پانچ سو افراد مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ورکشاپس، کانفرنسز اور سیمیناز کیلئے آڈی ٹوریم ۔ لا ئبریری کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان، اس کے عوام ، کلچر پر کتابیں جمع کی جائیں یا وہ کتابیں جو پا کستان کے متعلق غیر ممالک میں لکھی گئی ہیں۔
قائد اعظم یو نیورسٹی لائبریری: اس کا نام ڈاکٹر ریاض الدین صدیقی میموریل لا ئبریری ہے تا یونیورسٹی کے پہلے چانسلر کی خدمات کا اعتراف کیا جا سکے۔ یہاں 230,000کتابیں، آڈیو وییوزل اور 35,000ریسرچ جرنلز ہیں۔ اقوام متحدہ کی مطبوعات کیلئے یہ دار الامانت ہے۔ مختلف ڈی پارٹمنسٹس میں آٹھ سیمینار لا ئبریریز ہیں۔
پنجاب پبلک لا ئبریری : نیو یارک کی ایک لا ئبریرین’’ اسا ڈکنسن‘‘ نے پنجاب لا ئبریری ایسوسی ایشن کی بنیاد 1915ء میں رکھی تھی۔ لاہور میں جو ٹریننگ پروگرام ترتیب دیا گیا وہ مشرق میں پہلا لائبریری سکول تھا۔(22) ڈکنسن کا ایک شاگرد خلیفہ محمد اسد اللہ (1890-9149)گورنمنٹ کالج لاہور کا پہلا کوالیفائیڈ لا ئبریرین تھا۔ ازاں بعد خلیفہ اسد اللہ نیشنل لا ئبریری آف انڈیا کے چیف لا ئبریرین کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ پنجاب پبلک لا ئبریری میں کئی شعبے ہیں: ٹیکنیکل، ایکوئے زیشن، سرکولیشن، ریفرنس، بیت القرآن سیکشن، چلڈرن سیکشن، کمپیوٹر سیکشن اور ایلا ئبریری۔ بیت القرآن سیکشن کی بنیاد1968ء میں رکھی گئی تھی۔ یہاں قرآن مجید کے متعدد نسخے ہیں جن میں کچھ پانچ سو سال پرانے ہیں۔ نیزپا کستان کے مختلف شہروں سے ہاتھ کے لکھے قرآن مجید اور شائع شدہ قرآن ہیں۔ قرآن کے اس صفحہ کی فوٹو کاپی جو حضرت عثمان غنیؓ تلاوت فرماتے تھے۔مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھ کا لکھا ہؤا قرآن شریف بھی یہاں موجودہے۔
ٹمبکٹو (مالی) لائبریریاں: ٹمبکٹو شہر کی شہرت اسلامی مخطوطات کی بناء پر ہے۔ یہاں میڈیسن، آرٹ، فلاسفی، اور سائنس پر 700,000مسودے پائے جاتے ہیں۔ قلمی مسودات کی کثیر تعداد عربی میں ہے لیکن مقامی زبانوں زبانوں میں بھی لکھے ہوئے ہیں۔یہاں پرانے قرآن مجید کے نسخے بھی ہیں۔ یہ بیش قیمت سرمایہ مالی ایمپائر کے آغازتیر ھویں صدی سے لے کر فرنچ کی آمد تک یعنی بیسویں صدی تک منصہ شہود پر آیا تھا۔ یہاں ضخیم علمی کتابوں کے ساتھ نجی خطوط بھی ہیں ۔ کئی ایک مسودات خاندانوں میں پائے گئے اور بری حالت میں ہیں۔اکتوبر 2008میں سیلاب ایک گھر تک پہنچ گیا اور سات سو مخطوطے آسودہ خاک ہوگئے۔ ان مسودات کی مکمل فہرست موجود نہیں ہے۔ ماما حیدارا لا ئبریری ٹمبکٹو اور احمد با با کولیکشن سے 160مسودات ڈیجے ٹائز کئے جا چکے ہیں۔ ان مسودات کی الیکٹرونک کیٹیلاگ بھی تیار کی جارہی ہے تا دنیا بھر میں سکالرز ان پر تحقیق کا کام کر سکیں۔ (23)۔
چن گوئٹی (ما ریتانیا)کے قدیم شہر میں چھ ہزار پرانے مسودات موجود ہیں۔ فیض (مراکش) کی اسلامک یو نیورسٹی میں قدیم ترین قرآن مجید کا مجموعہ ہے ۔
اسلامک انسٹی ٹیوٹ لا ئبریری ڈاکر (سینی گال) : یہ لا ئبریری 1964ء کو قائم ہوئی اور جامع مسجدمیں واقع ہے۔ اسلامک انسٹی ٹیوٹ عوامی ادارہ ہے جو منسٹری آف ایجوکیشن کے تحت اسلامی تحقیق اور تدریس کیلئے مختص ہے۔ لائبریری پرنس نائف بن عبد العزیز السعود کے نام پر ہے جس نے اس کا افتتاح9 ، اکتوبر 2004 کو کیا تھا۔
احمد بابا انسٹی ٹیو ٹ (ٹمبکٹو) کا قیام 1970 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ ادارہ سولہویں صدی کے سکالر احمد بابا کے نام پر ہے جس نے عربی میں 40 کتابیں سپرد قرطاس کی تھیں۔ یہاں 30,000کے قریب مسودات پائے جاتے ہیں جن کے مطالعے کے بعد ان کی فہرست تیار کی جارہی ہے۔2013 میں داعش کے پیروکاروں نے انسٹی ٹیوٹ کو نذر آتش کر دیا اور بیس ہزار مسودات سپرد خاک ہو گئے تھے۔ (بحوالہ زاہدہ حنا ، روزنامہ ایکسریس لاہور July 31, 2016)
میگلیو نیورسٹی لا ئبریری مانٹریال: اسلامک سٹڈیز لا ئبریری اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز کی بنیاد مشہور و معروف مستشرق پروفیسر ولفریڈ کنٹویل سمتھ نے 1952ء میں رکھی تھی۔ لا ئبریری میں 100,000 کتابیں، رسائل وجرائد ہیں جو تمام اسلامی تہذیب پر محیط ہیں۔ کینیڈا میں اس قسم کی لا ئبریری اس لحاظ سے منفرد ہے۔ اسلامک سٹڈیز کا مجموعہ تین حصوں میں تقسیم ہے: طبع شدہ، مسودات اور سمعی و بصری مواد۔ یہاں مختلف موضوعا ت پر کتابیں ہیں؛ عربک لٹریچر، ایرانین سٹڈیز، اسلامک ہسٹری، اسلامک لینگوایجز(اردو، فارسی، ترکش)، اسلامک سورسز شریعہ اور قرآن، مڈل ایسٹ ہسٹری، ترکش سٹڈیز، ساؤتھ ایشین سٹڈیز۔
قطر ڈیجیٹل لا ئبریری: قطر فاؤنڈیشن اور برٹش لا ئبریری کے باہم اشتراک سے اس آن لائن لا ئبر یری کا قیام اکتوبر2014ء میں عمل میں آیا تھا۔ قدیم دستاویزات اور کتابوں کی یہ مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی آن لائن لائبریری ہے۔ اس کا مقصدقدیم اسلامی اور عربی علمی و دانشی ورثہ کو محفوظ کر نا ہے۔ اب تک آٹھویں اور نویں صدی کے عربی مسودات کو ڈیجے ٹائز کیا جا چکا ہے اور وہ انٹرنیٹ پر ہر متلاشی علم کیلئے دستیاب ہیں۔ http://www.qdl.qa/en/archive/امید کی جاتی ہے کہ 2018 تک یہاں 1,125,000قلمی مسودات اور دستاویزات ڈیجے ٹائز کئے جا چکے ہوں گے۔ برٹش لا ئبریری میں اس وقت پانچ لاکھ صفحات ایسے ہیں جن کا تعلق خلیج کی ریاستوں سے ہے۔ جبکہ پچیس ہزار صفحات کا تعلق عہد وسطیٰ کی عربی میں سائنسی مسودات سے ہے۔ حنین ابن اسحق کے جالینوں کی کتابوں کے تراجم ، یا اس کی اپنی تصنیف المسائل فی الطب للمتعلین آٹومیشن کے باوا آدم الجزری کی عربی میں کتاب فی معرفۃ الحیل الہندسےۃ کا مطالعہ آن لائن کیا جا سکتا ہے۔
http://qnl.qa/about-the-library/partnerships/world-digital-library
حرف آخر
قارئین اس مضمو ن میں اہم لا ئبریریوں کا ذکر کیا گیا ہے ہرلا ئبریری کا نہیں۔ انگلش میں اصل مضمون درج ذیل ویب سائٹ پرموجود ہے۔
https://www.academia.edu/27909814/Libraries_of_the_Muslim_World_859-2000_
میری ذاتی لا ئبریری میں پانچ سو سے زیادہ کتابیں نہیں کیونکہ میں زیادہ تر کتابیں لا ئبریری سے لاکر تین سے چھ ہفتے میں پڑھ کر واپس کر دیتا ہوں کیونکہ یہی واپس کرنے کی میعاد ہوتی ہے۔ کچھ پرانی کتابیں بھی میری لا ئبریری کی زینت ہیں جن کی تفصیل یوں ہے: (1)قلمی مسودہ شرح کتاب العالم والمتعلم منسوبہ امام اعظم ابو حنیفہ از ابو بکر محمد ابن فراق الاصفہانی تاریخ ہجری/1528 AD 935 AH(2) جوزف پریسٹلی اے ہسٹری آف کرپشن آف کرسچینٹی لندن جوزف پرائسٹلی1871 (3) صوفی مطیع الرحمن اے لائف آف محمد انگلش شکاگو1941 (4) قرآن مجید ۔بڑی تقطیع 14″ x 9.5″ ملک محمد دین تاجر کتب کشمیری بازار لاہور1891 (5) علم الفلک : تاریخ عند العرب فی القرون الوسطیٰ، ،ملخص الما ضرات التی القاھا با الجامعۃ المصریہ حضرۃ الفاضل السنیور کرلو نلینو ، طبع بمدینۃ روما العظمی سنۃ ۱۹۱۱
Arabian Astronomy by Carlo Nalino Roma 1911.
کتابیات References
1.Stuart Murray, The Library an illustrated history, Chicago 2009, page 95
2.http://www.muslimheritage.com/article/origins-islamic-science
3. Mrs. Asma Khan, Karachi University Library Science Alumni Association, Canada, online magazine Jan-Jun 2015.
4.Hugh Kennedy, When Baghdad Ruled the Muslim World, Da Capo Press, Cambridge, MA 2004, p 252
5.Quoted by Shafiq Qaisar (1939-1979) Rabwah, Kutub Khanay, Amritsar, India, 2009, p214
6.Encyclopedia of Lib Science & Info Sci. / page 66, vol 13
7.P.K. Hitti, Capital cities of Arab Islam, page 124
International Encyclopedia of Information and Library Science, page 421 www.google.ca/books
9E.J. Brill’s First Encyclopedia of Islam 1913-1936, Volume 1
10.https://en.wikipedia.org/wiki/Central_Library_of_Astan_Quds_Razavi
11.Stuart Murray, The Library- an illustrated history, Chicago 2009, page 56
12.Ehsan Masood, Science in Islam, a history, London, 2009, page 53
13.At Canterbury (UK) the library was 60’x22′. It had 2000 books only.
14.P.K. Hitti, Capital cities of Arab Islam, Minneapolis, USA, 1973, page 154
15.Shafiq Qaisar, Kutub Khanay, Amritsar, India, 2008, page 246
16.Richard Erdoes, 1000AD World on the brink of apocalypse, Berkley, Seastone USA, 1998, pp60-61
17.A Concise history of Catholic Church, NY Doubleday, 1979 pp 172-173
18.Dr. Ramesh Kumar Bhatt, History and development of Libraries in India, New Delhi, 1995, page 29
19.Azad Bilgrami, Urdu Tarikhe Hindustan, Volume 5, 1918 Aligarh page 994 online- www.pdfbooksfree.com
20.20.Stuart Murry, The Libraries, Chicago 2009, page 104
21.21.Muhammad Taher, Librarianship and library science in India, 1994, page 85
22.Stuart Murry, The Libraries, Chicago 2009, page 210
23.https://en.wikipedia.org/wiki/Grand_Mosque_of_Dakar
9 Comments