حسن مجتبیٰ
آن لائن ہمعصر میگزین “ہم سب” جسے میں اب “تم سب” کہتا ہوں میں ایک انتہائی میلا کچیلا مضمون برصغیر کی اس ملکہ ترنم جسے منٹو نے سرورجہاں کہا تھا کی ہرزہ سرائی میں چھپا ہے جس سے مجھ سمیت “ہم سب“یعنی “تم سب” پڑہنے اور اسے چاہنے والوں کا دل شیشے کی طرح چھناکے سے جاکر ٹوٹا۔
یہ قیاس سے بہت دور اور اہل رجعت پسندی کے فرشتوں کے بھی گمان میں نہیں ہوگا کہ خود کو ترقی پسند یا لبرل کہلوانے والوں کے پیٹ میں بھی ایسی کیکٹس نما داڑھی اگ سکتی ہے جو روح قدس جیسی اس عورت پر ایسے وار کریں گے۔
پھر عذر گناہ بدتر از گناہ کہ اصل میں سوالیہ متنازعہ مضمون تو برسوں قبل اور کہیں نہیں دہشت گرد تنظیم جماعت الدعوۃ کے جریدے یا آرگن میں چھپا تھا اور انہوں نے اس نیت سے اسے پھر “ہم سب” ،سوری “تم سب“، میں چھاپا کہ انکے پڑھنے والوں کو پتہ چلے کہ ملاں میڈم نور جہاں جیسی عورت کے بارے میں کیسے قبیح خیالات رکھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا مضمون چھاپتے وقت مذکورہ اشاعت میں اس ادارے یا ادارتی بورڈ بشمول معزز مدیر اور ہمارے صاحب حسن کارکردگی برادر کی طرف سے کسی بھی قسم کا نوٹ تحریر نہیں تھا۔ اور نہ کوئی پہلے سے شایع شدہ تحریر کا حوالہ موجود تھا۔
میڈم کے حسن اور کارکردگی دونوں پر ایک انتہائی کٹھ ملاں کی طرف سے بیہودہ ہرزہ سرائی کی ہوئی تھی۔ بقول سندھی مہان شاعرشیخ ایاز کہ “پھوسڑی سے کہو کہ وہ اپنے میلے مٹیالے پیر کرنے کے پھول پر مت رکھے“۔
مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ “تم سب” والے یہ ایسی گراوٹ والی سوچ پر مبنی شاہ پارہ نہیں چھاپ سکتے تھے بلکہ کسی بھی گری یا اونچے پد والی تحریر شائع کرنا انکی حق آزادی اظہار ہے جس کے لیے میں جیسا کہ والٹیئر نے کہا تھا انکے اس حق کیلیے لڑتا رہوں گا لیکن بشرطیکہ اس سے اختلاف کرنے کا حق وہ بھی مجھ سمیت لوگوں کو دیں ۔ انکے خیراندیشوں کا یہ بھی حق ہے کہ وہ انکے عمل اور نیات کو بھی پرکھیں۔ دائیں کا سرمہ بائیں کے لیبل میں تو نہ بیچیں۔ پھر نہ کہیں کہ وہ بے آوازوں کو آواز دینے کی لڑائی لڑ رہےہیں۔ اگر جان بچانا سنت ہے کے مصداق وہ جماعت الدعوۃ کے ترجمان جریدے کے بھی ترجمان بنے ہوئے ہوں گے پھر ہم جیسے بھولوں کو بنائیں تو نہیں نہ۔ بس کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ میرے جیسا لاخدا بھی یہ کہہ رہا ہے۔
حسن کارگردگی کے اعزاز جب ملتے ہیں تو پھر کیا ایسا کرنا پڑتا ہے؟ ایک حسن کارگردگی اس عظیم عورت اور مغینہ کو بھی ملا تھا جب اس نے غلط یا برابر ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹوڈیوز کے باہر سترہ دن تک خیمے گاڑ کر نام نہاد “ملی نغمے” گائے تھے۔ تو جنگ تو جنگ ہے نہ! پھر وہ پاکستان بھارت کے بیچ میں ہی کیوں نہ ہو فضول، بکواس، انسانیت کش، اور امن، چاہے بچوں کی دشمن ہوتی ہے “۔
میرا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں” یہ کاش سرحد کے دونوں پار سپاہیوں کے لیے شاعر کہتا کتنا اچھا ہوتا! پھر میڈم نے یہ بھی تو گایا: ” میرے ماہی نی جرنیل نی کرنیل نی” ماہی کرنیلوں جرنیلوں نے جو اس ملک پاکستان کے ساتھ کھلواڑ کھیلا وہ بھیانک خواب کی طرح ہے اور ابتک کھیلا جا رہا ہے۔ تم سب والے کچھ اس پر بھی شائع کرتے۔
مجھے ویسے میڈم کے جنگی نغمے گانے والا پہلو اچھا نہیں لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب لال قلعے پراس سے دو سال قبل آواز کا بھگوان اپنے گلے میں لیے لتا منگیشکر نے گایا تھا “اے میرے وطن کے لوگو ذرا آنکھ میں بھر لو پانی” واقعی اس نغمے پر میرے جیسوں کے بھی آنکھ میں پانی بھر آتا ہے کہ اس نغمے میں بتائے گئے “شہدا ” کی تعداد ایسے سورماؤں کی ہے جو برصغیر کی آزادی کی جنگ میں کام آئے تھے تانتیا ٹوپی اور راج گُرو جسیسے۔ جو دونوں ملکوں کے شہدا کہلائیں گے۔ لیکن جماعت الدعوۃ جیسی انتہاپسند تنظیمیں ایسے سورماوں کے نام لاہور کی سڑکوں پر کہاں رکھنے دیں گی۔ لیکن “تم سب” یا “ہم سب” کو اس تنظیم کے ترجمان جریدے میں چھپنے والے گند کو اپنے صفحات کی زینت بنانے کی آخر نوبت کیوں آئی۔ کچھ تو مجبوری ہوگی۔ میں اس پر “ہم سب” کہ “تم سب” کو میڈم کے خلاف ملاؤں کے دھرنے کا “فیض آبادچوک” کہوں گا۔
خوبصورت لکھاری اور انسان خالد حسن نے کیا خوبصورت بات کہی تھی کہ یحییٰ خان کے دو کام خوبصورت تھے ایک انکی شراب نوشی اور دوسرا میڈم نور جہاں جیسی معرکہ آرا خاتون سے معاشقہ۔ ہمارے ایک اور دوست اور قانون کے اسکالر محمد طیب کی اوہائیو میں اپنے علاج کی غرض سے اپنے آخری دنوں میں ہسپتال داخل میڈم سے کافی ملاقاتیں رہی تھیں ۔ ایسی ملاقاتوں کے دوران میڈم نے انہیں بتایا تھا :صاحب (یحیی خان ) نے انہیں71 کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران اپنے بنکر سے شادی کیلیے پروپوز کیا تھا۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی“۔
میڈم ایک صحیح معنی میں عورتازاد یا فیمنسٹ تھی۔ ایک حسین وہ مکمل انسان و عورت۔جماعت الدعوۃ کے ترجمان جریدے کے داڑھی پوش مضمون نگار اور اسکے نو ترجمان تم سب کے بغیر داڑھی والے نو ترجمان ملاؤں کو اور ہمارے پیارے دوستوں کی چنری میں لگے داغ کو بس چنری جیسے رنگوں والے تخلیق کار سندھی شاعر حسن درس کے الفاظ سے ہی دھویا جا سکتا ہے۔
حسن درس اپنی طویل سندھی نظم “ملکہ ترنم، نورجہاں” میں کہتا ہے:
سدا اک ملک یہ حسین عورت
ملاؤں کے شور میں گونجی تو سورج ہو کر ابھری
جب جوانی کی گود میں اس نے گنگنایا
فجر اذان دیکر نسیم صبح بن کر چلی
پھولوں نے نگاہ ڈالی تو آنکھیں ان سے ٹکرائیں۔
اور حسن درس کی ہی نظم کی زبان میں:
خاک کے دیس میں دھویں کے آگے
اس نے اپنے اندر کا آئینہ سنوار کر رکھا۔
ایسی عورت جو اپنے معاشقے انگلیوں پر گنتی کرتے کہتی تھی “ہائے اللہ ایہہ گنندے گنندے وی انیہہ ہو گئے” یہ اس پر گند اچھالنےوالے انیس بار بھی جنم لیں اسکے جیسا ایک عشق بھی نہیں کرسکتے پھر وہ عشق مجازی تھے کہ حقیقی۔ بلھے شاہ کی مٹی سے بنی اس ڈیڑہ قلندر کو دینے والے نے حسن ازل گیر بخشا تھا ۔ جسم تو بقول اک میرے دوست اسکا وطن تھا۔
♦