جو چاہت پاکستان کے عوام کی جانب سے بھٹو خاندان کو ملی ہے وہ کسی اور سیاستدان اور اس کے خاندان کو نصیب نہیں ہوئی ۔۔۔ جو لافانی محبت ذوالفقا ر علی بھٹو اور اس کے بیوی بچوں سے کی گئی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان میں وزرائے اعظم اور صدور بہت آئے اور گئے ہیں لیکن جو عزت ،وقار اور مقام سندھ کے ڈودا خان کے بہادر اور لائق فائق فرزند غلام مرتضی خان بھٹو کے ذہین فطین لخت جگر سرشاہنواز بھٹو اور لیڈی خورشید بیگم کے بطن سے جنم لینے والے عظیم فرزند ارجمند ذوالفقا ر علی بھٹو اور ان کی اولاد کو ملی وہ ’[جب تک سورج چاند رہے گا۔۔۔ یہ عزت وقار اور مرتبہ باقی رہے گا‘‘ عوام بھٹو سے کس قدر محبت کرتے ہیں آج اسکی چند جھلکیاں تحریر کررہا ہوں۔
میں ان دنوں سکھر میں مقیم تھا۔ ذوالفقا ر علی بھٹو شہید پابند سلاسل تھے دختر مشرق بیرون ملک زیر تعلیم تھیں باپ ،خاندان ،پیپلز پارٹی ،اپنے عوام اور اپنی دھرتی ماں کو مشکل میں دیکھ کر وطن واپس آئیں تو انہوں نے سندھ کا طوفانی دورے پر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مخدوم طالب المولی کے فرزند رشید مخدوم خلیق الزماں پیپلز پارٹی سندھ کے صدر تھے، دختر مشرق سندھ دھرتی کے اس دورے کے دوران سندھ کے گاؤ ں گاؤں قریہ قریہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ سندھ کے چپے چپے پر پہنچیں۔ جس گاؤ ں یا شہر میں دختر مشرق نے قدم رکھا پورے کے پورے گاؤں اور شہر خالی ہوگئے۔ لوگ اپنے قائد کی تصویر کی زیارت کرنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ اور کہتے تھے کہ آج بیٹی آئی ہے تو کل باپ بھی آئے گا۔
میں نے وہ مناظر بھی دیکھے کہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے عوام کا ہجوم بیکراں آمڈ آتا تھا۔ اور عوام کے سمندر کے باعث گاڑی کا رینگنا بھی دشوار ہوتا تھا جس کی وجہ سے محترمہ رات کے پچھلے پہر گوٹھوں میں پہنچتیں تو مرد وزن ،پیرو جواں ہاتھوں میں لالٹینیں پکڑے ان کی زیارت کرنے کے لیے موجود ہوتے۔ بوڑھی خواتین ان کی بلائیں لیتیں، بزرگ ان کے سرپر دست شفقت رکھتے اورقائد محبوب فخر ایشیا کی رہائی کے لیے تن من دھن قربان کرنے کے وعدے بھی کرتے۔میری آنکھوں نے یہ مناظر بھی دیکھے کہ بوڑھی عورتیں قائد عوام کی بیٹی کو اپنے زیور اتار کر پیش کرتیں تو قائد بے مثال کی بینظیر بیٹی زیوارات کو شکریہ کے ساتھ واپس لوتا دیتی۔ نعرے گونجتے سندہ جو رانی۔۔۔ بے نظیر نیانی۔
اکتوبر1978 میں، میں پنجاب لوٹ آیا اور یہاں اخبار کی ملازمت کی تلاش میں تھا کہ مرحوم ادریس بٹ (جو روزنامہ امن کراچی کے لاہور میں بیورو چیف تھے) نے مجھے اپنے ساتھ کام کرنیکی پیش کش کی اور کہا کہ افضل صدیقی ایڈیٹر کراچی سے وہ خود معاملات پر بات کرلیں گے۔ سو لاہور میں کام کرنے کا سلسلہ چل نکلا۔
قائدعوام ذوالفقا ر علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو ان دنوں میں قصور میں نواب محمد احمد قصوری اور اس کے خاندان سے متعلق معلومات جمع کرنے میں مصرووف تھا ۔ نواب محمد احمد قصوری سے متعلق اگلے کالم پر اٹھا رکھتا ہوں،۔ نواب محمد احمد قصوری اور ایف ایس ایف کے ڈی جی مسعود محمود( جو بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ قتل میں وعدہ معاف یا سلطانی گواہ تھا ) کے مابین کیا چپقلش چل رہی تھی اس پر بھی آئندہ کالموں میں لکھوں گا۔
آخرمیں میں یہ کہوں گا بھٹو مخالفین جو یہ کہتے ہیں کہ بھٹو خاندان بدقسمت ہے، وہ بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ کبھی گڑھی خدا بخش جاکر دیکھیں کہ پاکستان کے عوام کس قدر گڑھی خدا بخش میں مدفون مرحومین اور ان کے خاندان سے والہانہ عقیدت اور محبت رکھتے ہیں۔ ایوب خان نے اس ملک پر دس سال حکومت کی ہے۔ ترقی کے جشن بھی منائے لیکن کہاں ہیں ایوب خان؟ تاریخ میں ان کا مقام کیا تحریر ہے؟
اسی طرح سقوط مشرقی پاکستان کے وقت کے حکمران جنرل آغا محمد یحییٰ خان تاریخ کے کوڑے دان میں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان پر گیارہ سال تک ’’پاکستان کے جسم ‘‘ کو ٹکٹی پر باندھ کر کوڑے برسانے، سیاسی اور نظریاتی اختلاف رائے رکھنے والوں کو پھانسیاں دینے والے جنرل ضیا ء الحق کو خوردبین سے بھی تاریخ میں تلاش کرو تو نظر نہیں آتے۔
یہ ہے تاریخ کا انتقام۔۔۔ اسی لیے ذوالفقا ر علی بھٹو نے کہا تھا کہ وہ تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے آمر جنرل ضیا کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دوں گا۔ لیڈر کی سوچ یہی ہوتی ہے جبکہ کاروباری سیاستدان ملک اور عوام کو فوجی آمر کی گرفت میں چھوڑ کر اپنی چمڑی اور سرمایہ بچانے کے لیے چپ چاپ جدہ روانہ ہوجاتا ہے۔ ملک کو آمریت کے تاریک اندھیروں کے سپرد کرکے ملک اور اس عوام کو گڈ بائے کہہ دیتا ہے جس نے اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا ہوتا ہے۔
♦