سبط حسن
احتشام ، سرکاری ملازم تھا۔ اس کے گھر تین لڑکیوں کے بعد ایک لڑکے ، ارمغا ن کی ولادت ہوئی۔ لڑکے کی بڑی دھوم سے پرورش شروع ہوئی۔ گھر کی چار عورتیں ، لڑکے کی ماں اور اس کی بہنیں، اس کی داسیاں بن گئیں۔ لڑکا کباب مانگتا تو گھر میں کباب کی دعوت ہو جاتی۔ لڑکاکوئی کھلونا مانگتا تو کھلونوں کے انبار لگ جاتے۔ احتشام نے لڑکے کی ناز پروری کے لیے کسی ایسی جگہ تبادلہ کروا لیا جہاں بد عنوانی کی گنجائش تھی۔ احتشام نے فیصلہ کیا کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر بنے گا۔ اس نے لڑکے کو ایک اچھے انگریزی میڈیم سکول میں داخل کروا دیاجبکہ اس کی بیٹیاں محلے کے گورنمنٹ ہائی سکول میں پڑھتی تھیں۔
ابتدائی سالوں میں لڑکے کی تعلیمی کارکردگی اچھی رہی۔ اس کا شمار ہمیشہ کلاس کے قابل لڑکوں میں ہوتا تھا۔ چھٹی کلاس تک ارمغان کے ناز نخرے روزِ اوّل کی طرح جاری رہے۔ اس دوران اس کا اپنے بارے میں تصور بھی تبدیل ہونے لگا تھا۔ پہلے وہ کسی بھی بچے کی طرح لاڈ دلار کی خواہش کرتا تھا، اب وہ اپنے آپ کو گھر کا سب سے اہم فرد سمجھنے لگا تھا۔ وہ اپنی بہنوں اور اپنی ماں کو اپنے والد سے ڈانٹ پڑواتا۔ ماں اور باپ کے بیچ ارمغان کو جیتنے کے لیے تگ و دو ہونے لگی۔ اب گھر میں طاقت کی کشمکش شروع ہو گئی اور اس کا محور ارمغان تھا۔ ارمغان کو اس بات کی پوری سمجھ تو نہ تھی البتہ وہ یہ بات ضرور سمجھ رہا تھا کہ وہ گھر کا سب سے اہم فرد ہے۔
دوسری جانب اس کا والد اس کو ڈاکٹر بنانے کے لیے چھٹی کلاس سے ہی اسے تندہی سے پڑھنے کی طرف لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے اسے ’ ڈاکٹر ارمغان ‘کے نام سے پکارنا شروع کردیااور ساتھ ہی پڑھائی کے معاملے میں سختی شروع کردی۔ ایک دو دفعہ اس کی پٹائی بھی کردی۔ اس صورتِ حال میں ارمغان کے اندر بیٹھا شہنشاہ ہل کر رہ گیا۔ اس کوجسمانی تکلیف سے زیادہ تذلیل کا احساس ہوا۔ اس کی ذات کے اندر بنا شاندار محل منہدم ہو گیا۔ باپ نے ندامت کا اظہا ر کیا اور اسے منانے کے لیے تحفے لا کر دیے۔ بگاڑ کا یہ نیا روپ تھا۔ اب وہ ایسے حربے استعمال کرتا کہ اس کا باپ اس سے ناراض ہو اور وہ پھر اسے منانے کے لیے تحفے دے۔
پڑھائی تو کیا ہونا تھی، سزا اور پھر جزا کا ایک ایسا گھن چکر شروع ہوا جو تشدد کی انتہائی بری حدود کو چھونے لگا۔ اسی دوران ارمغان دسویں جماعت میں پہنچ گیا ۔ گذشتہ دس سالوں سے وہ اسی جماعت میں اونگ رہا ہے۔ وہ ہیروئین اور نشہ آور اشیاء کا نشہ کرتا ہے۔ اس نے دو دفعہ خودکشی کی بھی کوشش کی ہے۔ اس المناک ماحول میں کسی واجب توجہ کے میسّر نہ ہونے کے باوجودارمغان کی بہنوں میں سے دو ڈاکٹر بن گئی ہیں اور ایک ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہی ہے۔
احتشام، دراصل اپنے بیٹے کو ہی اپنے تعارف کا وسیلہ بنانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کے اردگرد جو ماحول بنایا، وہ اس لڑکے کو محض لڑکا ہونے کے ناطے ایک مخصوص شناخت دینے کا تقاضا کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ وہ ایک عام نارمل بچہ نہ رہ سکا۔ ایک نارمل بچے کی صلاحیتیں پنپ نہ سکیں اور وہ اس اندھی گلی میں الجھ کر رہ گیا۔ اس ساری صورتحال کا ذمے دار بلاشبہ اس کا باپ ہے جس نے روایتی خیالات کو اپنی غایت مان لیا اور اس پر کبھی سوال بھی نہ اٹھایا۔ احتشام ، ایک ثقافت کا اسیر تھا اور اس ثقافت نے دونوں باپ اور بیٹے کو نگل لیا۔
2
ہر طبقے اورغایت کے لیے الگ وزٹنگ کارڈ بنایا جاتا ہے۔ سرکاری عہدیداران کے وزٹنگ کارڈ کا رنگ سبز ہو گا اور اس پر حکومتی مہر کا ہونا اس کی وقعت کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔ ایسے کارڈ سائل کے ہاتھ میں جادوئی ا ثر رکھتے ہیں۔ خدمات فروخت کرنے والے ہنر مند، اپنے وزٹنگ کارڈ میں ایک سے زیادہ فون نمبرلکھتے ہیں۔ کرم فرماؤں کو لبھانے کے لیے وہ بازار سے بارعایت اور ایک فون کال پر حاضر ہو جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایسے کارڈوں میں رنگوں کا غیر ضروری استعمال کیا جاتا ہے جو عام طور پر غیر جمالیاتی ہو تے ہیں۔ کارڈ کو دیرپا بنانے کے لیے اس کی لیمینیشن بھی کی جاتی ہے۔ ایسے کارڈ کسی محبت نامے سے کم نہیں ہوتے کیونکہ ایک عاشق کے لکھے خط میں عاشق اپنا دل دکھانے کے لیے خط میں خوشبولگاتا ہے، دل کو چیرتے تیر کی تصویر بناتا ہے اور ضرورت پڑے تو روشنائی کے بجائے اپنے خون سے خط لکھ دیتا ہے۔ ایسے کارڈوں کے بر عکس امیر کمپنیوں کے مینیجر حضرات کے وزٹنگ کارڈ نہایت روکھے اور ااپنائیت سے پاک ہوتے ہیں۔
جس طرح اشیاء اور خدمات کی فروخت میں کشش پیدا کرنے کے لیے اچھی ، بھونڈی یا روکھی سی کوشش وزٹنگ کارڈوں جھلکتی ہے اسی طرح والدین اپنے بچوں کے ذریعے اپنا سماجی تاثر قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے کس سکول میں پڑھتے ہیں، کیسے کپڑے پہنتے ہیں، ان کی باتوں میں کس نوعیت کے الفاظ اور تصورات کوپایا جاسکتاہے، وہ کس قسم کے کھانوں کی باتیں کرتے ہیں، باتوں میں انگریزی کے کتنے الفاظ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ سب اس بچے کے والدین کے سماجی رتبے اور خواہشات کی تفسیر کرتے ہیں۔ کچھ باتیں خاموشی سے بچوں کے رویوں کا حصہ بن جاتی ہیں اور والدین خاموشی سے ان پر اتراتے ہیں ۔
مثلاًخوشحا ل گھرانوں کے بچے، تنک مزاج، لاپرواہ اور اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔ اس کے برعکس، محتاجوں کے بچے چاپلوسی، برداشت اور فراموشی کی عادتیں بچپن سے ہی سیکھ جاتے ہیں۔ درمیانے طبقوں کے بچے ہر معاملے میں اخلاقی پہلو تلاش کرنے اور اس میں اپنی آسانی تلاش کرنے کے ماہر ہو جاتے ہیں۔ آگے بڑھنے کے ہنراور مسابقت کے ڈھنگ سیکھ جاتے ہیں۔یہ سب باتیں ، والدین مانیں یا نہ مانیں ، ان کو ایسی باتوں کا شعور ہو یا نہ ہو ، وہ ان کی نمائندگی کرتے ہوئے بچوں کے مزاج کا حصّہ بن جاتی ہیں ۔ اس طرح بچہ ایک لحاظ سے والدین کا وزٹنگ کارڈ بن جاتا ہے۔ وزٹنگ کارڈ ، ضروری نہیں کہ والدین کی حقیقی سماجی صورتحال اور مستقبل کے حقیقی اہداف کی نشاندہی کرتا ہو۔ ان میں زیادہ تر جعلی پن ہوتا ہے اور اس کا مقصد اپنی سماجی کم حیثیت اور اس کے پیچھے چھپے ہیچ احساس سے فرار کی کوشش ہو تی ہے۔
کچھ اطوار، والدین اپنی سماجی ساکھ او ر دین دنیا کی بھلائی ‘ کے لیے بچوں میں نفوذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً، تاجر حضرات اور وہ لوگ جن کے پیشوں میں مستقل اور قابلِ بھروسہ آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوتا، وہ بچوں میں مخصوص وضع قطع اور ظاہری طور پر اخلاقی برتری کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچے اس احساس کے ساتھ اپنے آپ کو اخلاق کا کوتوال سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض والدین اپنی محرومیوں اور دبی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اپنے بچوں کو ان کے میلانِ طبع کے خلاف دباؤ ڈال کر ان سے ایسی خواہشات کو پورا کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ بعض اپنے اپنے نظریے کے مطابق بچوں کواپنے بڑھاپے میں اپنی عافیت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے سارا بوجھ اپنے بچوں پر ڈال دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ والدین کے لیے وزٹنگ کا رڈ کی حیثیت عمومی طور پر صرف لڑکوں کی ہی ہوتی ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش چونکہ نا پسندیدہ سمجھی جاتی ہے اس لیے ان کی گھر میں موجودگی بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ اس لیے انھیں والدین کی شناخت کی نمائندہ تو کیا، گھر کی مستقل ساکن بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ان کی کم عمری میں ہی شادی کرکے اپنی جان خلاصی کر لی جاتی ہے۔
لڑکیاں اپنے والدین کا وزٹنگ کارڈ اس لیے بھی نہیں بن سکتیں کیونکہ ان کی تربیت کے بارے میں کسی قسم کی ’ جدّت ‘ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کی تربیّت کا پیمانہ اور اسلوب معاشرتی سطح پر یکساں ہوتا ہے۔ اس لحا ظ سے اس میں کسی قسم کی دراندازی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس طرح لڑکیوں پر والدین کی خواہشات کی سرمایہ کاری نجّی سے زیادہ سماجی ہوتی ہے۔ یہ سماجی سرمایہ کاری لڑکی کو ایک کارآمد جنسی اکائی بنانے اور پھر اسے بحفاظت اس کے شوہر کے سپرد کرنے تک محدود رہتی ہے۔ اس لحاظ سے والدین کا اپنی لڑکیوں کے ساتھ تعلق عارضی ہوتا ہے اور اسے وزٹنگ کارڈ کا درجہ دینے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ والدین اپنی شناخت اور اپنی خواہشات کو دائمی بنانے کے لیے لڑکوں کو اپنے وزٹنگ کارڈ کے طور استعمال کرتے ہیں۔
3
قبائلی معاشرے کی بنیاد کنبے پر تھی۔ قبائلی معاشرت کو تاریخی تسلسل دینے کے لیے والدین اور بچوں کے درمیان نسلی ربط اور رشتے کے عنصر کو شامل کر دیا گیا۔ حقِ وراثت ، اس سلسلے میں بنیادی محرک کا کردار ادا کرتا تھا۔ کاشتکاری کا حق ہو یا نجی ملکیت، ہر دو صورتوں میںیہ حقوق باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتے رہے ۔ واضح رہے کہ ان حقوق کے ایک نسل سے دوسری نسل کو انتقال میں لڑکیوں کی حیثیت نہ ہونے کے برابر یا ادنیٰ ہی رہی۔ اگر کہیں ،ورثے میں لڑکیوں کو ورثے کا حقدار قرار دیا بھی گیا تو ساتھ ہی یہ روایت بھی قائم کردی گئی کہ لڑکی اپنی جائیداد کا حصہ اپنے بھائیوں کو تحفے کی صورت میں دے دے۔
اصل ہدف یہ تھا کہ کچھ بھی ہو جائے، جائیداد کو خاندان سے باہر جانے سے روکا جائے۔ عورت کی سماجی شناخت اس کے شوہر کے ساتھ وابستہ تھی۔ اسی لیے اسے شوہر کا نام دیا جاتا تھا۔ اگر جائیداد وراثت کی صورت میں باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتی ہے تو پھرپرکھوں کی نیکیوں اور گناہوں کا کِیا جوکھا بھی منقولہ وراثت کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونا چاہیے۔ اسی خیال کی بنیاد پر خاندانی روایات کا سماجی تصور پیدا ہوا۔ کچھ خاندان نسلی طور پر معزز بن گئے اور کچھ ذلیل قرار دے دیے گئے۔
مثال کے طور پر محنت کرنے والے لوگوں کو ادنیٰ اور ان کی محنت پر پلنے والوں کو معزز قرار دے دیا گیا۔ اس حکمتِ عملی کے تحت معاشرے کے حقیقی معماروں کو سماجی وقاراور معاشی آزادی سے محروم کردیا گیاتاکہ وہ مسلسل محنت کرتے رہیں اور خود اعتمادی سے دور رہیں۔ دوسری جانب ، دوسروں کی محنت پر پلنے والے شرم سے ڈوب مرنے کی بجائے اتراتے پھرتے تھے بلکہ فخر سے کہتے تھے کہ انھوں نے کبھی، کئی نسلوں سے اپنے ہاتھوں سے کوئی کام نہیں کیا۔ یہ ان کے لیے افتخار کی بات تھی۔ یہیں سے دونوں گروہوں کی نسلی وراثت ایک دوسرے سے جدا ہو گئی۔ محنت کرنے والوں نے برداشت اور خاموشی سیکھ لی اور حرام کھانے والوں نے عیاری اور کھوکھلا تفاخر سیکھ لیا۔
اس طرح دونوں خاندانوں میں وراثت کے وزٹنگ کارڈ ایک دوسرے سے یکسر جدا ہو گئے۔ اسی وراثتی تصور کے تحت پرکھوں کی دشمنی اور قتل و غارت گری آنے والی نسلوں کو منتقل ہونے لگی۔ اسی کے تحت غیرت اور خاندان سے وفاداری کی روایت پیدا ہوئی اور صدیوں تک اس تسلسل کو برقرار رکھنے کا بندوبست ہو گیا۔ اسی تناظر میں روحانی، حکمت اور دانشوری کے خاندانوں کی تقسیم ممکن ہوئی۔
خاندانی وراثت کا تعلق ایک گمنام مستقبل اور اس میں چھپے مبہم اہداف کا پیچھا کرنے میں ہے۔ وراثت کامعاملہ محض خاندان تک محدود نہیں ، یہ قبیلے، قبائلی عصبیت ، وطن، قوم ، نسلی گرو ہ سا زی، مذہب، اور اس سے ملتی جلتی سماجی ساختوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی کی بدولت یہ سب ،جاری زندگی سے قطع نظر، ایک مبہم مستقبل پرتکیّہ کرتے ہوئے کسی نجات دہندہ کی آمد، نا قابل حصولِ مقاصد، آفاقی خوشی یا نجات کے متلاشی رہتے ہیں۔ ان تمام اہداف کا تعلق ذہنی کیفیات یا نفسیاتی افکار سے ہوتا ہے۔ ان دونوں کا تعلق حقیقی زندگی سے ہر گز نہیں ہوتا تاہم ان پر مبنی معیشت اور رسومات اپنے طور پر ایک حقیقت بن جاتی ہیں۔ اس طرح ایک ثقافت جنم لیتی ہے۔
یہ لوگوں کی حقیقی زندگی کی نمائندہ نہیں ہوتی بلکہ اس کا واسطہ مستقبل کے ان مبہم اہداف سے ہوتا ہے جوایک سراب کی طرح لوگوں کی زندگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جس طرح یہ مبہم اہداف زندگی سے انحراف کے باعث جامد ہوتے ہیں اسی طرح ان کے جلو میں پنپنے والی ثقافت بھی جامد ہوتی ہے کیونکہ اس کی جڑیں مبہم اہداف کے زیرِ اثر سنورنے والی معیشت اور رسومات میں ہوتی ہیں ۔ چونکہ مستقبل کے یہ اہداف نہ تو کسی تاریخی ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کا تاریخی تسلسل سے کوئی تعلق ہو تا ہے۔ وہ خیالی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے غیر تاریخی ہونے کے ناطے تجرید پر مبنی ہوتے ہیں۔
اس لحاظ سے بلاواسطہ طور پر مان لیا جاتا ہے کہ زندگی ایک مقام پر آ کر رک گئی ہے۔ زندگی کی تگ و دو تو رک نہیں سکتی، اس طرح زندگی اور اہدافی تجرید الگ الگ راستوں پر ایک دوسرے کے متوازی چلتے تو رہتے ہیں مگر وہ باہم نہیں ہو پاتے۔ یہ تضاد ، فکری مغالطوں اور زیست کے اندوہ پیدا کرتے ہیں۔ ایسے مغالطے اور اندوہ متشدد رویوں اور شناخت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
صارفانہ مزاج اپنی کارگزاری کے ناطے غیر تاریخی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے یہ وراثت اور مستقبل کے مجرد اہداف کی نفی کرتا ہے۔ صارفانہ مزاج جاری زندگی میں جیتا ہے اور یہیں سے اسے زیست ملتی ہے۔ جاری زندگی میں زندہ رہنااور اس کا رس بغیر کسی انتظار کے چوس لینا ہی اس کا کلچر ہے۔صارفانہ مزاج ، سرمایہ دارانہ نظام کی افزائش کا ہرا ول ہے اس لیے یہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کی طرح عالمی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کلچر کی واضح شہادت دنیا میں لباس و طعام اور نظریہ حیات میں بڑھتی ہوئی یکسانیت میں نظر آرہی ہے۔ علاقائی کلچر اور نظریاتِ حیات اپنی عملی تاثیر کھو چکے ہیں۔اس کا احساس سرمایہ دارانہ نظام سے پچھڑے ممالک اور ثقافتوں یا ان کے نمائندوں کو بخوبی ہے۔ صارفانہ مزاج کے زیرِ اثر ایک عالمگیر ثقافت کو فروغ مل رہا ہے جو قبائلی یا اس سے ملتی جلتی وراثت سے قطع نظر آفاقیت پر انحصار کرتی ہے۔
4
قبائلی وراثت اور اس سے منسلکہ نظریات میں بچے کی حیثیت ایک مجہول اکائی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ بچّہ ان مبہم اہداف کے حصول کا ذریعہ اور آلہء کار سمجھا جاتا ہے جو قبائلی معاشرہ اپنے لیے طے کرتا ہے۔ یعنی اس کی ایک انسان ہونے کے ناطے اپنی انفرادیت ایک جسم و جان کی حد تک تو ضرور ہوتی ہے مگر اس کا اس جسم و جان پر اپنا کوئی حق نہیں ہوتا۔ جس طرح قبائلی اور نسلی گروہ بندی کی ثقافت غیر حقیقی ہوتی ہے اسی طرح بچے سے متعلق نظریات بھی غیر حقیقی اور مجرد ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ وہ ایک ٹھوس تاریخ میں مقیدجسم تو رکھتا ہے مگر اس جسم کے اہداف غیر تاریخی اور مجرد ہوتے ہیں۔ بچے کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی وجود اور جسم و جان کو اپنی ثقافت کو سونپ دے اور مبہم اہداف ہی اس کا حتمی مقصدِ حیات رہ جاتا ہے۔ بچے کو اپنا وزٹنگ کارڈ بنانے کے لیے یہی اہداف اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاریخ میں مخصوص مقاصد اور ان مقاصد کے نگہبان گروہوں نے انسانی فطرت کو قید یا اس میں تحریف کر کے وراثت، نسلی تفاخر اورا کلچر سے متعلق مخصوص تصورات پیدا کیے۔ بچوں سے متعلق تصورات اور ان کی تنفیذکو بچے اور انسان کی حقیقت سے قطع نظر محض افادی بنا دیا۔ وراثت دراصل سیکھنا ہی ہے۔ تجارت سے منسلک خاندان اپنے بچوں کو تجارت کے ہنر سکھاتے ہیں ۔ ان کے گھروں میں ہونے والی باتوں میں کسی شعوری کوشش کے بغیر ، بچوں کے لیے تجارت سے متعلق سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہو تا ہے۔ اسی طرح کھیتی باڑی اور طب سے منسلک خاندانوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔
ایسے خاندانوں میں انتقالِ ورثہ کا انحصار ان بچوں پر ہو تا ہے جو سیکھنے کی بہتر صلاحیتیں رکھتے ہیں ۔ صرف بہتر صلاحییتیں کافی نہیں، وراثت کا جاری حالات میں کارآمد ہونا بھی ضروری ہے۔ اس طرح اگروراثت سے ملنے والے ہنر اور علم فرسودہ ہو جائیں تو انھیں جدید ترین تحقیق سے میسّر علم اور ہنروں سے تبدیل کیا جانا لازم ہو جاتا ہے۔ اگر خاندان محض جذباتی تعلق یا شعوری اندھے پن کی وجہ سے تبدیلی کو تسلیم نہ کریں تو وہ ختم ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے ہاں روایتی طب کے ساتھ ہوایا جدید ریاست میں باقاعدہ آرمی کی تنظیم کے ساتھ پیشہ و ر خاندانی سپہ گری کے ساتھ ہوا ۔
وراثت محض پیشوں تک محدود نہیں ہوتی، بعض خاندانوں میں بزعمِ خویش بڑائی کے گمان کو وراثت کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ان کے خاندان کی فلاں پشت میں فلاں شخص نے کسی میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے بعد آنے والی نسلوں میں تفاخر اور بے سود احساس برتری کی وراثت کا اجراء ہو گیا۔ان احساسات کا تعلق محض گمان سے تھا اور اسی تناظر میں زندگی کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور بادشاہوں کے دور میں رہنے والے امراؤں کی اولادیں، جب انگریزوں کے آنے کے بعد اپنی طاقت اور معاشی حیثیت کھو بیٹھیں تو ان کے لیے ہاتھ سے کام کرکے روزی کمانے کی جرأت نہ پیدا ہو سکی۔ ان کا خاندانی وراثت کا فخر یہ تھا کہ انھوں نے کئی نسلوں سے ہاتھ سے کبھی کام نہ کیا تھا۔ حالات سے سمجھوتہ کرنے میں خاندانی وراثت کا کھوکھلا احساسِ برتری آڑے آ رہا تھا۔ یہ وہی سفید پوش تھے جنھوں نے خفیہ طور پراپنی بیٹیوں کی کارآمد’ شادیاں‘ کراودیں یا انھیں بیچ ڈالامگر خاندانی وراثت سے وفاداری کا بھرم نہ جانے دیا۔
خاندانی بڑائی کو ثابت کرنے کے لیے کو ئی ٹھوس ثبوت میسر نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جسمانی قوّت، کسی کھیل میں مشاقی یا کسی فن میں مہارت کا دعوٰی کرے تو وہ ان مہارتوں کو مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو منوا سکتا ہے۔ خاندانی تفاخر کا بھرم سوائے باتوں اور رسوم کے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ان رسوم کی ادائیگی یا مخصوص باتوں کے کرنے میں تھوڑا بہت فرق آجائے تو بھرم کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ خاندانوں کا بھرم ہے کہ وہ بہادر اور وفادار ہوتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے پر کھوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ ان کہانیوں کی شرح میں مخصوص باتیں کی جاتی ہیں۔
اول تو یہ سب فرضی کہانیاں ہو تی ہیں اور ان کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہوتا۔ اگر فرض کریں کہ یہ سچ ہیں تو ان کہانیوں کو سنانے والی موجودہ نسل اس سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔اور کیا وہ اس سے کچھ ثابت کر بھی سکتے ہیں یا نہیں؟کہانیوں کو گھڑا بھی جا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پرکھوں نے اپنی ذلت کی زندگی کو انھی کہانیوں کی مدد سے رنگ برنگے غباروں کا ہیولہ دے دیا ہو۔ ا یسی وراثتوں میں ایسے انسانوں کی کہانیاں بھی ملتی ہیں جنھوں نے انسانوں سے پیار کی باتیں کیں۔ لوگوں سے پیار کی، انھوں نے اپنی زندگی سے ایک مثال قائم کی اور ان کے ہم عصر لوگوں نے ان کی قدرکی۔ یہ ذاتی کردار کی مثال ہے اور یہ کیسے مان لیا جائے کہ پرکھوں میں سے کسی ایک فرد کا کرداراس کے بعد اس کی نسل کے خون میں اتر جائے گا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک فرد اس بات پر اتراتا پھرے کہ اس کا یومِ پیدائش اسی دن آتا ہے جب فلاں عظیم سیاستدان پیدا ہوا تھا۔
5
کوئی بھی بچّہ زندگی کے بہتے دریا میں ایک تاریخی پڑاؤ پر پیدا ہوتا ہے۔ اُس تاریخی پڑاؤ کی اپنی مخصوص حقیقت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ازمنہ ء وسطیٰ میں بادشاہوں کے ادوار میں پیدا ہونے والے بچّے انگریزوں کے دور میں پیدا ہونے والے بچّوں سے مختلف ہو نگے۔ آج پیدا ہونے والے بچے ان دونوں ادوار کے بچوں سے مختلف ہوں گے۔ ہر دور کی ثقافت اپنی نمائندہ روش کے مطابق طے پاتی ہے۔ مثال کے طور پر بادشاہوں کے دور میں سب سے کارآمدہتھیار جسمانی قوّت اور سب سے زیادہ بھروسے مند رویہ وفاداری سمجھا جاتا تھا۔ انھی پر اُس دور کی ثقافت کی اساس طے ہوئی اور ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہونے والی ثقافت کی بنیاد انھی باتوں پر تھی۔
اسی طرح جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تو انھوں نے بادشاہوں کے دور کے ذاتی وفاداری پر مبنی نظام کی جگہ غیر ذاتی جدید ریاستی نظام قائم کردیا۔ اس نظام میں انفرادی پسند ناپسند سے وفاداری کی بجائے قانون کی بجاآوری نے اپنی جگہ بنا لی۔ جسمانی قوّت کی بجائے، قانون تک دسترس طاقت کا سر چشمہ بن گئی۔ ریاست کے عام لوگوں کے ساتھ تعلق کی بنیاد حقوق اور فرائض کا باہمی تعامل ٹھہرگیا۔ اس طرح افراد نے اپنی آزادی ریاست کے سپرد کردی اوروہ خود حقوق اور فرائض کی اس کشاکش میں گم ہو گیا۔ وہ کس قدر حقوق حاصل کر پاتا ہے اور ریاست اس سے کس قدر اپنے فرائض کی بجاآوری کرواتی ہے، یہ ریاست پر منحصر ہو تا ہے۔ فرد ایک اجتماعیت کے سراب میں گم ہو جاتا ہے۔ اس اجتماعیت کو قوم پرستی کا نام دے کر اس کی وساطت سے ریاست کا تحفظ کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔
ریاست، شہریت، حقوق و فرائض اور قوانین دراصل ایک تجرید ہے اور اسی تجرید میں فرد گم ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جب جدید ریاست کا تعارف ہوا تواس وقت ایک غیر ملکی قوّت قابض تھی۔ وہ قوّت ہندوستان میں اپنے قومی سرمایہ کی توسیع کے لیے سامراجی عزائم لے کر آئی تھی۔ اس دور میں سرمائے کا ارتکاز ریاست اور قومی حدود میں رہتا تھا۔ تاہم سرمائے کی نشوونما کے لیے سرمایہ داروں کا نقطہ نظر قوم پرستی کی حدود سے آگے بین الاقوامی ہو گیا۔ جب ہندوستان میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک میں شامل تمام قومیتوں کا نقطہء نظر ان کے نوآبادیاتی حاکم کے بر عکس قوم پرستانہ تھا۔ جس طرح ہندوستان میں جدید ریاست کا تعارف انگریزوں کی آمد سے ہو اتو قومی اشرافیہ نے اسے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک بہتر ساخت یا مطمحِ نظر کے طور پر قبول کر لیا۔ اس کے برعکس نوآبادیاتی اور سامراجی نظام جو قوم پرستانہ تو تھا مگر اپنے عزائم کے حصول کے لیے بین الاقوامی حکمتِ عملی رکھتا تھا۔ قومی اشرافیہ نے قوم پرستانہ خیالات اور تحریکِ آزادی کے اہداف اور ان سے ہونے والے نتائج کی وجہ سے ایک وسیع النظرما فوق القومی حل کا موقع کھو دیا حالانکہ ان کا داخلی ثقافتی مطمحِ نظر بین الاقوامی تھا ۔
وہ سرمایہ دارانہ نظام جو نو آبادیاتی نظام کے دور میں قومی مرکز اور اس کے بین الاقوامی محور تک محدود رہا، اب بین الاقوامی ہو چکا ہے۔ آج کے تاریخی پڑاؤ پر پیدا ہونے والے بچے ریاستی اور قومی حدود سے پرے بین الاقوامی ہو چکے ہیں۔ وہ گروہ جو سرمایہ داری کے قومی ارتکاز کے دور میں اپنا سرمایہ اور اس کا منافع واپس اپنی قوم میں لاتے تھے ، اب وہ ٹیکس اور سرمایہ کاری کے موزوں مواقع ملنے پر اپنا سرمایہ کسی بھی ملک میں منتقل کر لیتے ہیں۔ اس طرح ریاست کا وجود محض سرمایہ کاری کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کے آلہء کار سے زیادہ کچھ نہیں۔
ریاست کے عوام کے تحفظ کا دعوی ٰاب زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اب ریاست کا قومی وجود صرف ان لوگوں کے حق میں ہے جو ریاست کے وسائل پر پلتے ہیںیا ان کے لیے ضروری ہے جو حکومتی خزانے سے پنشن حاصل کرتے ہیں۔ جو بچے آج کے تاریخی پڑاؤ پر پیدا ہو رہے ہیں ان کی زیست کا پس منظر اور پیش منظر عالمی ہے۔ صارفانہ مزاج ان کے لیے زندگی کا حتمی فیصلہ کن اور فیصلہ ساز عنصر ہے۔ صارفانہ مزاج محض خرید و فروخت کا محرک نہیں، یہ ایک بین الاقوامی کلچر کا پیش رو بھی ہے۔ اس میں مقامی ثقافتوں اور قومی نظریات کی تنگ نظر قبائلی روش کے مقابلے میں عالمی سطح پرلوگوں کو اپنے اندر سمونے کی سکت زیادہ ہے ، اگرچہ قومی نظریات پر چلنے والی ریاستیں اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
یہ ایک تضاد ہے کیونکہ ریاست ایک طرف بین الاقوامی سرمائے کی محافظ ہوئے بغیر بین الاقوامی مارکیٹ میں زندہ نہیں رہ سکتی تو دوسری طرف وہ قومی سرمائے پر قابض گروہ کی حفاظت کی بھی دعویدار بنتی ہے۔ کچھ بھی ہو اب ایک عالمی کلچر پیدا ہو رہا ہے جس میں مقامی کھانوں اور لباس کے ساتھ ساتھ سوچنے کا طریقہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ دنیا کے تمام برِّ اعظموں میں نئی نسل کے نوجوانوں کی سوچ اور زندگی کے منصوبے مشترک ہیں۔ وہ کسی بھی ملک سے اگر ممکن ہو تو، عالمی معیا ر کی تعلیم حاصل کرکے دنیا کے کسی بھی ملک میں زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس عالمی روش کے سامنے تمام تر علاقائی عصبیّتیں اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کر رہی ہیں ۔ دنیا میں مذہب یا ثقافتی شناخت کے نام پر چلنے والی تحاریک کو سمجھنے کا حقیقی تناظر یہی عالمی تبدیلی ہے۔
6
عالمی ثقافت کے نمودار ہو جانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم اور سیکھنے کے نظریات بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ مقامی طور پر بچوں کو مقامی ثقافتوں کو نسل در نسل بحفاظت وصول کرنے اور اگلی نسل کو منتقل کرنے اور ان میں جیسے تیسے زندگی گزارنے کی تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے۔ عالمی ثقافت میں ایسی تعلیم و تربیت کی گنجائش نہیں کیونکہ ایسی تعلیم بچوں کو دوسروں کے ساتھ جڑنے اور اپنے آپ کو دوسروں میں سمونے کی بجائے قبائلی تکبر پر مبنی شناخت قائم رکھنے پر زور دیتی ہے۔
ؑ ؑ عالمی کلچر کا جوہر تکثیریت ہے۔ اگر مقامی ثقافتوں میں قبولیت اور دوسروں کے ساتھ انسانی سطح پرہم آہنگ ہونے کی گنجائش ہو تو عالمگیریت میں وسعت اور گہرائی آ ئے گی۔ اگر مقامی ثقافتوں میں قبائلی تکبر اور غیریت کا عنصر غالب ہو گا تووہ بگا ڑ کی طرف جائیں گی اور اس طرح تکثیریت کی نفی ہو جائے گی۔ اب معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ عالمی کلچر کا حصّہ بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دینا ہو گی جو ان کو عالمی کلچر میں مدغم ہو نے کی استطاعت دے۔ اس تعلیم کی بنیاد تکثیریت پر ہو گی۔
مقامی ثقافتوں اور بالخصوص گروہی نظریات پر مبنی ثقافتوں میں زندگی کا سفر اور منزل طے شدہ ہوتے ہیں۔ ایسا اسلوب ، ایک مخصوص ثقافت میں تو کارگر ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ اس سے عالمی سطح پر رہنمائی مل سکے۔ ایسے اسلوب معدنیات کی طرح ہوتے ہیں جو ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں ایک شکل تو ضرور اختیار کر لیتے ہیں مگر ان میں مزید تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ہیرا کر وڑوں سالوں کے کیمیائی عمل کے نتیجے میں ایک شکل اختیار کرتا ہے۔ممکن ہے کہ اس میں کوئی کیمیائی عمل اب بھی جاری ہو مگر ہم اپنی زندگیوں کی زمانی حدود میں رہتے ہوئے اس تبدیلی کا ادراک کرنے سے قاصر ہو تے ہیں۔
قبائلی ثقافتیں اورمحدود نظریاتی و گروہی اکائیاں بھی تاریخ کے ایک عمل میں پیدا تو ضرور ہوئے مگر ان کا ارتقا ء ایک مقام پر آ کر رک گیا۔ رک جانے پر ان میں اثر پذیری کی سکت بھی ختم ہو گئی۔ اب وہ اپنی جامد شکل میں زندگی پر اثر انداز ہونے سے تو قاصر ہیں تاہم ان کا وجود رسومات اور مخصوص تکلفات سے آگے نہیں جاتا۔
کلیسا کے خیالات کے برعکس انسان کی پیدائش کسی منصوبے یا کسی منزل کے حصول کا آلہء کار نہیں۔ وہ بس اس دنیا میں آ جاتا ہے اور اس کا وجود اس کے لیے کسی اندوہ سے کم نہیں ہوتا۔ وہ کیا کرے ، اس کا مقصدِ حیات کیا ہو گا، یہ سب سوالات اسے ایک کھلے میدان میں اتار دیتے ہیں ۔ یہ کھلا میدان اس کی دنیا ہے۔ اس دنیا کے ساتھ معنوی تعلق ہی دراصل اس کی ذات ہے۔ یعنی یہ کہ انسان کا جوہر اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ ارد گرد دنیا سے کس نوعیت کے معانی قائم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں استطاعت ہے اور وہ اسی استطاعت کی بنیاد پر ممکنات کو تلاش کرتا ہے۔ استطا عت اور ممکنات کا سفر ہی اس کی زندگی ہے اور وہ خود ہے۔ اس عمل کا خاتمہ اس کی موت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
اس عمل میں بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کی زندگی کسی طے شدہ ہدف پر منحصر نہیں بلکہ اس کی زیست ہی اس کا چلن ہے۔ طے شدہ اہداف میں مان لیا جاتا ہے کہ انسان ایک وسیع تر منصوبے کا ایک کارکن ہے۔ یہ وسیع تر منصوبہ ایک فرد کی زندگی تک محدود نہیں رہتا، یہ جاری رہتا ہے۔ اس طرح وہ ایک تجرید کا حصّہ بنا دیاجاتا ہے اور اس کی اپنی زندگی ایک ہیولے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
کیا ممکن ہے کہ کسی اخلاقی، نظریاتی ڈھانچے یا کسی پہلے سے طے شدہ خیالی سسٹم کو اساس بنائے بغیرزندگی کی جائے؟ اس کا جواب ایک جرمن مفکر نے دیا ہے۔ اس کاخیال ہے کہ انسان ایک صورتحال میں آتا ہے۔ وہ جانے یا نہ جانے ، وہ اس صورتحال میں بس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک اجنبی جگہ پر آتے ہیں ۔ آپ اس جگہ پر بولی جانے والی زبان بھی نہیں سمجھتے۔
یہ بات طے ہے کہ آپ اس صورتحال میں ہیں۔ یہاں آپ کی زیست صرف اسی صورت میں روپذیر ہوگی جب آپ بامعانی سطح پر اس صورتحال کے ساتھ تعلق قائم کریں گے۔ یعنی یہ کہ آپ میں بامعانی ممکنات کی استطاعت ہے جبکہ اس اجنبی جگہ پر آپ کی زیست ابھی روپذیر نہیں ہوئی۔ آپ کی زیست وہی ہو گی، آپ جس قسم کے با معانی ممکنات کا انتخاب کریں گے۔ اگر آپ کے ذہن میں پہلے سے موجود کوئی تعصب، نظریہ یا خیال ہو گا تو آپ اس صورتحال میں بامعانی ممکنات تلاش نہیں کر پائیں گے۔ اسی طرح اگر اس مثال کو وسیع تر انسانی تجربے میں دیکھیں توانسان کے اس زمین پر ابتدائی سالوں میں وہ اپنی ذات میں ، دیگر جانداروں کے مقابلے میں اپنے اندر ممکنات کی استطاعت رکھتاتھا۔ اس وقت اس کا کوئی وجود بھی نہ تھا۔ اس نے اپنے ارد گرد کی دنیا کو جس ڈھنگ سے دیکھا ، اس کا وجود وہی تھا۔
مثال کے طور پر مظاہرِ فطرت کو انھوں نے جادوئی ہستیوں کے وجود کی دلیل جانا۔ ممکنات میں ایسے معانی سے جو انسانی وجود پیدا ہوا وہ اس کے اسی تصور کا اسیر ہو گیا۔ اس کے مشاہدے نے اسے بتایا کہ اس کی زمین کے ارد گرد اجرام فلکی گھومتے ہیں۔ اس نے اس شہادت پر یہ معانی سمجھ لیے کہ وہ زمین کا وارث ہے اور سب سے اعلیٰ ہے۔ اس طرح اس کا وجود انھی معانی تک محدود رہ گیا۔ بعد میں جب انسان کی دیکھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آئی تو اس نے نئے معانی بنا لیے کہ وہ اور اس کی زمین کائنات میں ایک ذرے سے بھی زیادہ نہیں ۔ اس طرح اس سے پہلے والے متکبرانہ معانی ایک نئے وجود کا پیش خیمہ بن گئے۔ واضح رہے کہ تجربے یا مشاہدے کی نوعیت نہ صرف مشہود کے معانی معین کرتے ہیں بلکہ اس مشاہدے اور تجربے کا حامل بھی اسی تجربے کا مرہون رہتے ہو ئے اپنی زیست معین کر تا ہے۔ اس طرح تجربہ و مشاہدہ اور انسان کے وجو د میں تمیز ختم ہو جاتی ہے۔اس عمل میں سچائی آشکار ہو تی ہے۔
اخلاقی نظام، نظریاتی ڈھانچے اور پہلے سے طے شدہ خیالات، تجربہ اور مشاہدہ اور ان دونوں پر ہونے والے مکالمے کی نفی کرتے ہیں۔ ایسے میں سچائی آشکار ہونے کی بجائے طاقت اور فریب کا عکس بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عورت کے بارے میں پہلے سے طے شدہ خیالات تکرار کرتے ہیں کہ وہ جسمانی طور پرکمزور ہے۔ یہ درست ہے کہ مرد اپنے کام کاج کی نوعیت کی وجہ سے جسمانی قوّت حاصل کر لیتے ہیں مگر وہ بچہ پیدا نہیں کرسکتے۔ زچگی اور ممتا کی طاقت سے محروم ہیں۔ ایسے میں طاقت کا معیا ر کیا ہو گا؟ مردوں میں اگر وزن اٹھانے کی صلاحیت ہے تو بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کیا کسی طاقت کے دعوے سے کم ہے؟ عورت کی زیست اور اس کے معانی جب اخلاقی و نظریاتی ڈھانچوں کی وساطت سے سنورنے لگے تو عورت ہونے کا سچ آشکار نہ ہو سکا۔ عورت اس تانے بانے میں کہیں گم ہو کر رہ گئی۔ یہی صورتحال بچے سے متعلق ہے۔
بچے میں ایک انسان ہو نے کی ممکنات اور اس سے متعلق تمام استطاعت ہو تی ہے۔ جب اسے ایک فرد کا وزٹنگ کارڈ بنا دیا جائے گا تو وہ نہایت محدود زیست کا اسیر ہو گا۔ ٖفطرت ایک بچے میں کسی بھی تاریخی پڑاؤ پر بآ سانی چل نکلنے کی استطاعت عطا کرتی ہے۔ اگر بچے کو اس کے ثقافتی اور نظریاتی پس منظر سے قطع نظر اس کے فطری تناظر میں دیکھیں تو اس میں کسی صنفی تفریق سے الگ بچے میں ممکنات کی گنجائش اس میں موجود تخیل کی اثر پذیری سے ممکن ہو تی ہے۔
تخیل ، جب متحرک ہو گا تو سوالات پیدا ہوں گے۔ جوابات کی تلاش دراصل ممکنات کی ہی تلاش ہو تی ہے۔ اسی سفر میں اس کی زیست اور وجود متحرک ہو ں گے۔ جب اس طرح کے ممکنات کو تلاش کیا جائے گا تو بچے کی زندگی آزادانہ طور پر نمو پائے گی۔ ایسے میں وہ اپنے والدین تو کیااپنی ثقافت یا کسی اور دباؤ سے آزادکسی کا وزٹنگ کارڈ نہیں بن سکے گا۔
♦