اصغر علی بھٹی۔ نائیجر
صرف اور صرف ہم پکے اور سچے مسلمان ہیں ہمارے دل میں اسلام کا بہت درد ہے اور ہم پوری دنیا میں اسلامی مفادات کے ضامن ہیں اس لئے کشمیر ، چیچنیا اورفلسطین کا مسئلہ اور قبلہ اول القدس کی آزادی ہمارے پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کا وہ مشترکہ آکسیجن ٹینٹ ہے جس نے ہماری ہر کمزور ڈوبتی اورٹوٹتی سانس کوبحال کیا اورہمیں ہمیشہ زندگی کی نئی توانائیوں سے ہم کنار کیا ۔ جس کے نام پر ہم نے ہمیشہ بھرپور مظاہرے بھی کئے ، نذرانے بھی لئے اور قربانی کی کھالیں بھی اُٹھائیں۔ اور یوں حاصل وصول میں امریکہ اور اسرائیل کے چند پتلے اور چندجھنڈے جلا کر قیمت میں ووٹ بھی وصول کئے ۔ اسمبلی کے ٹھنڈے ٹھار ہالوں کے مزے بھی لئے اور اسی کی برکت سے جھنڈے والی گاڑیوں اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کے طلسماتی قالینوں پرہوائی اڑانیں بھی بھریں۔ گویا یہ مسئلہ ہماری وہ زنبیل ہے جس میں سے ہر مشکل کے وقت حسب موقعہ اور حسب ذائقہ ہم کوئی بھی کبوتر نکال سکتے ہیں۔
اصولی طور پرحالیہ دنوں میں جناب ٹرمپ صاحب نے فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے فیصلہ کرکے آنے والے 2018 کے الیکشنوں کے لئے ہمیں ایک نعمت غیر مترقبہ یعنی بنگالی عامل بابے والاطاقت کا تعویذ ،ایک بار پھر سے عطا کرکے ہماری بگڑی بنا دی ہے ۔مگر یہ کیا ؟ناشکری کیوں ؟ منظر دھندلا دھندلا ساکیوں ہے ؟ خوشیوں کے شادیانے کیوں نہیں بج رہے ؟ دھڑا دھڑ مظاہرے کیوں نہیں ہو رہے ؟ امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدارہے کے فلک بوس نعروں سے فضا کیوں نہیں گونج رہی؟ ہماری تمام مذہبی جماعتیں اس غیر متوقع مگربروقت اوروافر مقدار میں نازل ہونے والے من و سلویٰ پر خوش کیوں نہیں ہیں؟ چند ایک ایک ٹھنڈے ٹھنڈے پھس پھسے سے مظاہرے اور بس ؟ کیا اب امریکہ اور اسرائیل مشرف بہ اسلام ہو گئے ہیں یا چلمن کے پیچھے وقوعہ کچھ اور رو پذیر ہو گیا ہے ؟
معروف مذہبی لکھاری جناب خورشید ندیم عقدہ کشائی کرتے ہوئے گویا ہیں کہ اب کی بار موسم کیوں بدلا بدلا سا ہے۔ فرماتے ہیں’’ جب صدر ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تو اس سے پہلے فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس کو سعودی عرب بلوایا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے انہیں بتا دیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔ ٹرمپ صاحب کے داماد پہلے عرب ریاستوں کو اعتماد میں لے چکے تھے ۔ استنبول میں مسلمان حکمرانوں کی سرد مہری سے بھی واضح ہے کہ اب فلسطین کے معاملے میں عالم اسلام کی گرم جوشی دم توڑ چکی ہے ۔‘‘ پھر آپ نے مزید او آئی سی کی استنبول میں گرم نرم کانفرنس کا بھی کچھ اندرونی حال بیان کیا اور فرمایا کہ ’’ ترکی کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ گزشتہ دنوں استنبول میں او آئی سی کی کانفرنس ہوئی ۔ 13 دسمبر کو ہمارے ممدوح طیب اردوان نے اسرائیل کے خلاف ہمارے جذبات کو الفاظ کا پیراہن عطا کیا اور ایک ولولہ انگیز خطاب کیا ۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے اسرائیل کے ایک ادارے نے ترکی سے بسوں کی خریداری کا ایک بڑا معاہدہ کیا ۔ اس کی مالیت 18.6 ملین یورو ہے ۔ ایک طرف تجارت اور سفارتی تعلقات برقرار ہیں اور دوسری طرف جذبات بھی متلاطم ہیں ‘‘ ( روزنامہ دنیا مستقل کالم تکبیر مسلسل جناب خورشید ندیم صاحب زیر عنوان اہل فلسطین کا حقیقی خیر خواہ کون ؟)
محمود عباس صاحب کو سعودی عرب بلا کرکیا نصیحت کی گئی ؟ کیا فرمایا گیا؟ کہ سرکار زیادہ اونچا اڑنے کی ضرورت نہیں جیسے مائی باپ امریکہ بہادر اسرائیل کے حوالے سے فرمائیں گے اسے قبول کر لینا یا کچھ اور نصیحت کی گئی ۔ اسی طرح سے ترکی میں اسرائیل کا سفارت خانہ ایک دن کے لئے بھی کیوں بند نہیں کیا گیا؟ اور بسوں کی تجارت کا معاہدہ بھی اوآئی سی کے اجلاس سے عین چند قبل کیوں طے پایا گیا۔ ان تفاصیل سے مجھے کوئی غرض نہیں کیونکہ یہ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے جس میں ہر ملک اپنے قومی مفادات کے پیچھے چل رہا ہے مجھے تو صرف اپنے ان عظیم اسلامی علماء اور مولبی نما صحافی حضرات سے بات کرنی ہے کہ جن کو سدا امریکہ مردہ باد اور امریکہ کا جو یار ہے ۔۔۔وغیرہ نعرے لگاتے اور لگواتے دیکھا وہ آج کیوں چپ ہیں۔کیا آج القدس ہمارا نہیں رہا یا وہ ریال بانٹنے والا بابا ہمارا نہیں رہا ۔نہیں آخرکچھ تو ہوا ہے جو اتنی چپ سی لگی ہے ؟ کوئی تو اس بھیڑ سے جواب دے۔
مجھے چند سال قبل اسی صورتحال سے ملتا جلتا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ حج کے موقعہ پر امریکی اشارے پر سعودی عرب نےپاکستانی تبلیغی جماعت کے چند سرکردہ دیوبندی علماء گرفتار کر لئے ۔اب ایک طرف اپنے مولوی اور دوسری طرف ریال بانٹنے والا بابا ۔کریں تو کیا کریں؟ سب چپ ۔کون اسلامی بھائیوں کی محبت میں اپنے رزق کا بیڑہ غرق کرے۔ انہیں دنوں تحفظ ختم نبوت کے ممتاز دیوبندی راہنما بنوری ٹاؤن سے منسلک اور مشہور عالم دین جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب سے نہ رہا گیا کیونکہ اُن کے اپنے بعض قریبی عزیز اس میں شامل تھے انہوں نے امریکہ ، ریال ،سعودی حکمران اور ہمارے مولبی جی صاحبان کے تعلق کی اندر کی کہانی پر روزنامہ پاکستان میں ایک جہازی سائز کا کالم لکھ مارا ۔آپ کا یہ کالم جمعہ6جون1997ء کے پاکستان اخبار میں ’’علماء الریال‘‘کے نام سے شائع ہوا جس کے کچھ اقتباس ملاحظہ ہوں۔
مولوی بے حس طبقہ
’’افسوس صد افسوس کہ بے حسی کا یہ بہیمانہ مظاہرہ میں نے طبقہ علماء میں دیکھا ہے۔جب بھی کسی عالم کو بتایا گیا کہ یہودونصاریٰ کو ویلکم کہنے والے سعودی حکمرانوں نے پاکستان کے بائیس علماء کو بلاکسی جرم کے گرفتار کرلیا ہے تو سننے والے علماء کے کچھ دیر کے لیے کان بھی کھڑے ہوئے اور حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے بھی لگے لیکن اس کے بعد وہ اپنی مسجدوں اپنے مدرسوں اور اپنی خانقاہوں میں مشغول ہوگئے اور حد تو یہ ہے کہ مولانا عبدالحق مرحوم کے فرزند’’شیخ الحدیث‘‘نے مفتی محمود کے صاحبزادے پر تنقید کی ہے کہ وہ ان مسجون علماء کے حق میں سعودی حکمرانوں کے خلاف بات کیوں کرتے ہیں اور بڑے اطمینان سے یہاں تک کہہ گئے کہ’’ابھی تو یہ بھی واضح نہیں کہ گرفتار ہونے والے علماء ہیں بھی کہ نہیں‘‘سچ بات تو یہ ہے کہ یہ بات کہی تو مولانا سمیع الحق نے ہے اور شرم سے پانی پانی دردمند علماء ہورہے ہیں‘‘۔
عمرے یا ریالوں میں چندہ بٹورنے اور ذاتی کوٹھیاں بنانے کے راستے
پاکستانی علماء کی اپنی رفقاء کی گرفتاری پر بے حسی کی بنیادی وجہ عمرے کا ویزہ ہے اور عمرے سے ان کی دلچسپی اس لیے ہے کہ انہیں وہاں اپنی مسجدوں مدرسوں اور خانقاہوں کے نام پرچندے جمع کرنے ہوتے ہیں اور ان مشائخ عظام کے جبوں قبوں اور رہائش گاہوں کی آب وتاب ان ریالوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔سعودی عرب کا سب سے بہترین محکمہ وہاں کی پولیس کا ہے اور ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جب کوئی بڑی آسامی مدرسہ دیکھنے آتی ہے تو یہ اسے دورہ کراتے ہوئے طلباء کے کمرے دکھا کر کہتے ہیں ’’یہ ہاسٹل ہے رقم نہ ہونے کی وجہ سے ان کمروں میں پنکھے نہیں لگ سکے ہیں طلباء گرمی میں رہ رہے ہیں‘‘کچھ آگے چل کر کرکہتے ہیں’’یہ کچن ہے ہماری بڑی خواہش ہے کہ بچے اچھی خوراک کھائیں لیکن کیا کریں وسائل نہیں ہیں‘‘اور پھر اسی شخصیت کو اپنے ’’ائیر کنڈیشنڈ‘‘دفتر میں بٹھا کر بکرے کی روسٹڈ رانیں اس کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔یہ علماء کی صفوں میں موجود ابوالفضل فیضی کے روحانی فرزند ہیں جو خدا کے دین کے نام لے کر اپنی توند کا حجم اور بنگلوں کے رقبوں میں اضافے کی فکر میں رہتے ہیں‘‘۔
٭ریال،عمرہ اور پگڑی بند ملاں
’’آج یہ گروہ امریکی فوج کے سعودی عرب میں موجودگی پر اور سعودی حکومت کی یہود ونصاریٰ کو خوش آمدید کہنے پر اس لیے چپ رہتے ہیں کہ ان کے عمرے کا ویزہ بند ہوجائے گا۔ جو ریالوں کا دروازہ ہے تو میں بڑے اعتماد سے کہتا ہوں کہ بیت اللہ پر امریکی قبضے کے باوجود زبان بند رکھ کر مکہ کی گلیوں میں جمع کردہ ریالوں سے جو مسجد تعمیر ہوگی وہ بیت اللہ کی بیٹی نہیں ہوسکتی اصحاب الصفہ کا مدرس یرغمال ہو اور مولوی اس پراپنے چندے کی بندش کے خوف سے چپ ہوتو اس چندے سے بننے والا مدرسہ کسی آشرم کا رشتہ دار تو ہوسکتا ہے صفہ کے مدرسے کا نہیں۔اور مسجد نبوی اور روضہ انور سے یہودی چند منٹ کی مسافت پر بیٹھے ہوں اور مولوی پگڑی باندھ کر مدینہ کی گلیوں میں چندہ مانگ رہا ہوتو ایسا مولوی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے طبقے سے نہیں پاپائے روم پوپ جان پال کے حلقے سے ہوسکتا ہے اور یہی وہ علماء ہیں جن کے لیے رسول اللہ نے فرمایا’’اور ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے‘‘۔ (روزنامہ پاکستان اسلام آباد جمعہ29محرم الحرام6جون 1997 )
سعودی حکمران یہود و نصاریٰ کو ویلکم کہنے والے۔علماء کی عمرے میں دلچسپی سعودی عرب میں چندہ مانگنے کے لیے ہے ۔ان پاکستانی علماءو مشایخ کے جبوں اور قبوں کی شان سعودی ریالوں کے چندے سے ہے۔یہ علماء کی صفوں کے ابوالفضل فیضی کے روحانی فرزند ہیں۔یہ خدا کے نام پر اپنی توند اور بنگلوں کا حجم بڑھانے والے ہیں۔سعودی ریالوں سے تعمیر مسجد بیت اللہ نہیں کسی ہندو کاآشرم ہو سکتی ہے۔ مسجد نبوی سے چند منٹ کی مسافت پر یہودی بیٹھے ہیں مگر مولوی پگڑی باندھ کر مدینہ کی گلیوں میں چندہ مانگ رہے ہیں۔ یہ مولوی شاہ ولی اللہ کے طبقے سے نہیں بلکہ پوپ جان پال کے حلقے سے ہیں اور بد ترین مخلوق ہیں۔ یہ بڑے بڑے الفاظ تو میں یقینا نہیں کہہ سکتا لیکن مولوی رعایت اللہ فاروقی صاحب اُن کو کون روک سکتا ہے۔ایک تو وہ سکہ بند مسلمان ہیں اور پھرمولوی ہیں اوپر سے تحفظ ختم نبوت کے ممتاز عالم دین ہیں ۔ اس لئے وہ بڑے آدمی ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ۔
مگر مجھے صرف جناب حامد میر صاحب سے دست بستہ عرض کرنی ہے کہ کل آپ 1973 کی اسمبلی کی پرانی فائلوں سے ایک فقر ہ نکال کر لائے تھے کہ امام جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے کہ ہمارے اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں اور اس پر ناراض بھی ہو رہے تھے اور انکے دشمن وطن یا دشمن اسلام ہونے کے لئے یہ فقرہ ہی کافی قرار دے رہے تھے جو کہ تھا بھی جھوٹ مگر پھر بھی تھا تو ایک فقرہ مگر اب آپ کیا فرماتے ہیں ۔ صرف ایک فقرہ ہی نہیں ایمبیسی بھی ہے تجارت بھی ہے اور دباؤبھی ۔چھپاہوا بھی نہیں ڈنکے کی چوٹ پر ہے اب کی بار بھی بولیں گے اور سعودی عرب کو بھی کسی نصیحت سے نوازیں گے ۔ یا اب کی بار ریال کا چندہ آپ کی کوٹھی تک بھی پہنچ گیا ہے ؟؟
♦
One Comment