آصف جیلانی
عجیب اتفاق ہے کہ جب سے سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان عبد العزیز کے ۳۲ سالہ صاحب زادے محمد بن سلمان عبد العزیز جون 2017 میں اپنے چچا زاد بھائی کی برطرفی کے بعد ولی عہد مقرر ہوئے ہیں ، جب سے ملک میں سیاسی جوار بھاٹا اٹھا ہے اور سیاسی بے چینی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اول نایب وزیر اعظم ،وزیر دفاع، اور اقتصادی اور ترقیاتی امور کی کاونسل کے صدر بھی ہیں۔
ولی عہد نے ملک سے شدت پسندی کے خاتمے ، اعتدال پسندی کو فروغ دینے اور معاشرتی اصلاحات کا پروگرام پیش کیا تھا لیکن انہوں نے ان شہزادوں کو جنہیں وہ اپنے اقتدار کی راہ میں خطرہ سمجھتے تھے ، میدان سے ہٹانے اور اپنے سیاسی مخالفیں کے خلاف جو سخت اقدامات کئے ہیں ان کی وجہ سے ان کی اصلاحات کا پروگرام گہنا سا گیا ہے۔
اس مہینے کی ۶ تاریخ کو ریاض کے محل میں ان گیارہ شہزادوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو حکومت کے بچت کے پروگرام اور اس کے تحت مالی مراعات کے خاتمہ کے خلاف احتجاج کے لئے جمع ہوئے تھے۔ سعودی شہزادوں کا یہ نہایت غیر معمولی اقدام تھا۔ سعودی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے بجٹ میں 52 ارب ڈالر کے خسارہ کے معیشت پر تباہ کن اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پچھلے دنوں بیشتر زر اعانت ( سبسیڈیز) ختم کی ہیں ، پیٹرول کے محصول میں اضافہ کیا ہے ، پہلی بارپانچ فی صد VATنافذ کیا ہے اور شاہی خاندان کے افراد کے مالی الاونس اور ان کی مراعات میں تخفیف کی ہے ۔
حکومت کے ان فیصلوں کے خلاف گیارہ شہزادے تاریخی محل ، قصر حکم میں جمع ہوئے اور مطالبہ کیا کہ ان کی مراعات کے خاتمہ کا فیصلہ منسوخ کیا جائے۔ جب ان شہزادوں کو بتایا گیا کہ ان کے مطالبات نا جائز ہیں اور وہ قصر حکم سے چلے جائیں تو ان شہزادوں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا ، جس کے بعد شاہی گارڈز نے کاروائی کی اور ان شہزادوں کو حراست میں لے کر انہیں الحیر کے جیل میں قید کردیا۔ اس اقدام کے نتیجہ میں شاہی خاندان میں سخت کشیدگی پھیل گئی ہے ۔
گذشتہ سال ، کرپشن کے خلاف مہم کے سلسلہ میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر دو سو شہزادوں اور ممتاز شخصیتوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں جیل بھیجنے کے بجائے ریاض کےُ پر تعیش فایؤ اسٹار ہوٹل رٹز کارلٹن میں رکھا گیا ہے ۔ ان شہزادوں سے پوچھ گجھ ہورہی ہے لیکن ابھی کسی کے خلاف مقدمہ نہیں چلایاگیا ہے البتہ چند قیدیوں کو بھاری رقومات کی ادائیگی کے بعد رہا کر دیا گیا ہے ۔ ان میں سابق بادشاہ عبداللہ کے صاحب زادے شہزادہ متعب بن عبداللہ نمایاں ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی رہائی کے لئے ایک ارب ڈالر اد کئے ہیں۔ البتہ ابھی تک سعودی عرب کے امیر ترین کھرب پتی ولید بن طلال کے ساتھ کوئی سودا نہیں طے پا سکا ہے۔ ان کے والد پچھلے ایک ماہ سے اپنے گھر میں بھوک ہڑتال پر ہیں۔
رٹز کارلٹن ہوٹل میں قیدیوں سے پوچھ گچھ کے دوران ایک بریگیڈیر ،علی بن عبداللہ الجراش القطانی کی پر اسرار موت ہوئی ہے ۔ بریگیڈیر سابق سعودی شاہ عبداللہ کے صاحب زادے شہزادہ ترکی بن عبداللہ کے بزنس ساتھی تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب انہیں شہزادہ ترکی کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا تو یہ تندرست و تواناتھے لیکن دسمبر کی 26کو یہ اچانک دل کے دورہ کے بعد چل بسے۔ عام طور پر یہی کہا جارہا ہے کہ انہیں رٹز کارلٹن میں بری طرح زدو کوب کیا گیا جس کی وجہ سے یہ انتقال کر گئے۔
درایں اثناء ہیومن رایٹس واچ نے انکشاف کیا ہے کہ ممتاز سعودی شیخ سلمان العودہ پچھلے چار مہینوں سے کسی الزام کے بغیر جیل میں قید ہیں ۔ گرفتاری سے قبل انہوں نے قطر کے خلاف سعودی ناکہ بندی کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہیومن رایٹس واچ کا کہنا ہے کہ حکام نے شیخ سلمان العودہ کے خاندان کے 17افراد کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ شیخ سلمان العودہ کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا ہے کہ شیخ ، گرفتاری کے بعد سے متواتر قید تنہائی میں ہیں ۔
شیخ سلمان العودہ ممتاز اسکالر ہیں اور مسلم اسکالرز کی بین الاقوامی یونین کے رکن ہیں ۔ اسلام ٹو ڈے کے نام سے ان کی بے حد مقبول ویب سائٹ ہے۔ شیخ العودہ نے 1990میں خلیج کے بحران کے دوران ، سعودی مفتی اعظم عبد العزیز الباز کے اس فتوی کی مخالفت کی تھی جس میں انہوں نے سعودی عرب کے دفاع کے لئے امریکاکی فوجوں کو دعوت دینے کی حمایت کی تھی۔ شیخ العودہ نے سوال کیا تھا کہ بے تحاشہ امریکی اسلحہ خریدنے اور سعودی افواج کو مسلح کرنے کے باوجود سعودی افواج ملک کا دفاع کرنے کی اہل کیوں نہیں ہیں اور امریکی فوجوں کی کیوں مدد لی جارہی ہے۔ اس کے بعد شیخ العودہ نے ایک سو علماء کے اس محضر نامہ پر دستخط کئے تھے جس میں سعودی نظام حکومت میں اصلاح کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
گذشتہ ستمبر میں شیخ سلمان العودہ کے ساتھ 60ممتاز دانشوروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں مشہور ماہر معاشیات البسام الزمیل ، ممتاز دانشور مصطفی الحسن اور مشہور ادیب عبد اللہ الملکی نمایاں ہیں ۔ 2011 سے اب تک سعودی عدالتوں نے 25ممتاز دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو حکومت کی مخالفت کی بناء پر دس سے پندرہ سال تک قید کی سخت سزائیں دی ہیں ۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے حکومت کے مخالفین کے خلاف سخت اقدامات پر تشویش ظاہر کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ملک میں آزادی تقریر و تحریر پر سخت پابندیوں کی وجہ سے ایک عام گھٹن ہے اور جس طرح اقتصادی حالات سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں ان کے پیش نظر عوام کے بے قابو ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صدر ٹرمپ کے یروشلم کے بارے میں اعلان کے خلاف ، سعودی عرب میں کسی کو احتجاج کرنے کی جرات نہیں ہوئی ہے ، مظاہرہ کا تو سوال ہی نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب میں سیاسی مظاہروں پر سخت پابندی ہے ۔
♥
One Comment