بیرسٹر حمید باشانی خان
تعریفیں ہیں۔ الگ الگ تناظر ہیں۔ ایک دانشور نے اس لفظ کی بڑی مختلف اور جامع تعریف یہ کی ہے کہ تہذیب اس فاصلے کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی پیدا کردہ گندگی کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس دانشور نے تہذیب کو صفائی و پاکیزگی کے ساتھ جوڑ دیا ۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے تہذیب یافتہ ہونے کا اندازہ اس کے ارد گرد کے ماحول، اس کے رہن سہن اور صفائی سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ تہذیب کو پرکھنے کی تھوڑی سی الگ کسوٹی ہے۔ اگر ہماری تہذیب یافتگی کو اس کسوٹی پر رکھ کر پرکھا جائے تو نتائج بڑے مایوس کن ہوں گے۔ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم لوگ برسوں پہلے آج سے کئی زیادہ تہذیب یافتہ تھے۔ ہم نے اپنی فضاؤں اورہواؤں کو آلود ہ کر دیا ہے۔ اپنے پانیوں میں زہر گھول دیا۔ اپنی گلیوں اور محلوں میں غلاظت اور کوڑے کے ڈھیر لگا دئیے۔
یہ زہریلی ہوائیں جن میں ہم سانس لیتے ہیں فطرت کی پیداوار نہیں۔ یہ ہمارے بے رحم اور نادان رویوں کی پیداوار ہیں۔ جس بے رحمی سے ہم نے ماحول تباہ کیا ہے، اسی بے رحمی سے ماحول ہمیں تباہ کر رہا ہے۔ اس ماحول پر ہم نے آبادی کا خوفناک بم پھینکا ہے۔ یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اس کو بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ مارلی ماٹلین نے کہا تھا ، یہ زمین ہماری ملکیت نہیں، ہم اس زمین کی ملکیت ہیں۔ ہمارے غلط استعمال کی وجہ سے ایک دن یہ سیارہ رہنے کے قابل جگہ نہیں رہے گا۔ جس طریقے سے ہم اس کی ہواوں اور فضاوں کو آلودہ کر رہے ہیں اس کی جھلکیاں ہمیں اپنے ارد گرد دیکھائی دیتی ہیں۔
ہماری فضاؤں میں ہر سال آلودگی سے بنی دھند کی چادر پھیلتی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاں دھند کی وجہ سے سالانہ ساٹھ سے ستر ہزار آدمی مر جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو براہ راست دھند کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن دھند کی وجہ سے دوسری بیماریوں کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جانے والوں کی تعداد نا معلوم ہے۔ اس مسئلے کی شدت کا اندازہ گزشتہ سال موسم خزاں میں بڑے شہروں اور شاہراؤں پر تنی ہوئی دھندکی چادر سے ہوتاتھا۔ لیکن جن چھوٹے شہروں میں دھند نہیں ہوتی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں فضا ئی آلودگی نہیں ہے۔ مختلف اندازوں کے مطابق ان چھوٹے شہروں میں بھی فضائی آلودگی کا گراف خطرے کے نقطے سے اوپر پہنچ چکاہے۔
اب ان بیشتر شہروں میں سانس لینا پھیپھڑوں میں زہر بھرنے کے مترادف ہے۔ خطرے کے نشانات کو چھوتی ہوئی آلودگی میں سانس لینے سے انسانی صحت کو لاحق خطرات اور بیماریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس فہرست سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں کتنی تعداد میں لوگ ہر سال اس فضائی آلودگی کا شکار ہوتے ہیں۔ کتنے لوگ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اپنے علاج پر خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اور ریاست ہر سال کتنے بڑے وسائل آلودگی کے شکار لوگوں کے علاج معالجے پر خرچ کرتی ہے۔ یہ خود کشی ہے۔ اپنے ہاتھوں خود اپنی تباہی کا شیطانی چکر ہے۔ اس شیطانی چکر سے نکلنے کے لیے سنجیدہ اور تیز رفتار اقدات کی ضرورت ہے۔ ماحول اور ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے اور اس پر عوام کو بنیادی نوعیت کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں آج تک کسی حکومت نے ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ عام طور پرکہا یہ جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی ترقی کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ ترقی کرنی ہے تو کارخانے اور ملیں تو لگانی ہوں گی۔ سڑکیں تو بنانی ہوں گی۔ سڑکوں پر ٹریفک بھی ہو گی۔ مگر ماحول کا احساس کیے بغیر یہ راستہ ترقی کی طرف کم اور تباہی کی طرف زیادہ جاتا ہے۔ اگر ماحول کا احساس ہو تو اپنی ہواوں اور پانی میں زہر بھرے بغیر بھی ترقی کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک اس صورتحال سے گزرے ہیں۔ جب انہیں ماحول کے ساتھ اپنے غلط سلوک کا احساس ہوا تو ان میں سے بعض نے تیز رفتاری سے ایسے اقدامات کیے جس کی وجہ سے فضائی آلودگی بھی قابو میں آگئی اور ترقی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
ترقی یافتہ مغربی دنیا میں اب اس بات پر تقریبا اتفاق پایا جاتا ہے کہ ماحولیات پر سمجھوتہ کیے بغیر بھی ترقی کی جا سکتی ہے۔ بان کی مون نے اس کو بڑے خوبصورت الفاط میں پیش کرتے ہوئے کہاتھا کہ اپنے سیارے کو تباہی سے بچانا، لوگوں کو غربت سے باہر نکالنا اور معاشی ترقی ایک ہی جنگ کے مختلف نام ہیں ۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی، پانی کی کمی ، توانائی کی ضروریات، عالی سطح پر خوراک ، صحت اور عورتوں کے حقوق جیسے مسائل کو آپس میں جوڑ کر دیکھنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب بظاہر الگ الگ مسائل ہیں، لیکن سب ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔
ان مسائل کو سمجھنے کے لیے مختلف سیاسی، معاشی اور طبقاتی مفادات کو دیکھنا ضروری ہے۔ اگر اس دھرتی کو صرف مراعات یافتہ طبقے کے استعمال اور پسند پر ہی چھوڑ دیا جائے تو اس سے ماحولیاتی بگاڑ تو پیدا ہو گا۔ اس میں جو کم مراعات یافتہ طبقات ہیں ان کی شمولیت بھی ضروری ہے۔ مل مالکان اور کارخانہ دار بے تحاشا منافع کمانے کی دوڑ میں بسا اوقات ماحولیاتی مسائل نظر انداز کر لیتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے اپنے منافع کا کچھ حصہ صرف کرنا چاہیے۔ اپنی مشینوں کو ماحول دوست بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔
ماحولیاتی مسائل کو دوسرے عالمی انسانی مسائل کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ زمین پر موجود وسائل کی قدرے منصفانہ تقسیم ہو۔ اس منصفانہ تقسیم میں کم خوش نصیب اور محروم طبقات کا مناسب حصہ یقینی ہو۔ یہ ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ ظاہر ہے یہ اقدامات صرف ریاستی سطح پر ہی کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے بہت ہی بنیادی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی ایک مروجہ قوانین میں تبدیلی بھی لازمی ہے۔
ماحول سے جڑے ہوئے ان پچیدہ مسائل کے حل کیلیے عوام کا م تعاون ضروری ہے۔ یہ تعاون ماحولیاتی مسائل پر عوام کو مناسب تعلیم و تربیت دیکر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان انفرادی سطح پر اور عوام اجتماعی طور پر ماحول پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس میں ایک رکشہ والے سے لیکر ایک کھیت میں گھاس بھوس جلانے والے کسان تک کا اپنی اپنی سطح پر ایک کردار ہے۔ یہ لوگ اپنی روز مرہ کی عادات و اطوار یا انتخاب کے حوالے سے ماحول پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
رکشے والے کو کب ماحول کی خاطر اپنے رکشے کا انجن بند کر دینا چاہیے، کسان کو کب اور کیسے اپنے فالتو مواد سے چھٹکارہ پانا چاہیے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہ بنے۔ کارخانے دار کو اپنے کارخانے میں کیسی مشینیں استعمال کرنی چاہیے، یہ سب ایسے سوال ہیں جن کے جوابات عوامی سطح پر تعلیم کے ذریعے فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اور اس طرح کی تعلیم کے ذریعے ہی ریاستی سطح پر عوام کو ماحول سدھارنے کے عمل میں شراکت دی جا سکتی ہے۔
گلی محلوں میں جو گندگی کے ڈھیر ہم نے لگا رکھے ہیں اس کا ماحولیات سے بے شک تھوڑا سا تعلق ہی ہو، لیکن اس تلخ حقیقت سے بہت گہرا تعلق ہے کہ ہم تہذیب سے کتنے دور اورگندگی کے کتنے قریب ہیں۔ ہمارے ہاں گھر کے باہر گندگی پھینکنے ، گلی محلے میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگانے اور کھلی اور بہتی نالیوں کا کلچر یکسر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نا صرف ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی بلکہ وہ خوفناک فرق بھی کم ہو گا جو ہمیں ہر شہر میں امیروں کے شہر اور غریبوں کے شہرمیں دکھائی دیتا ہے۔
♦