امریکہ کے ایک مشہورٹاک شو کی مقبول عام سیاہ فام میزبان اور شوبزکی دنیا کی معروف ہستی اَوپرا وِنفری کے بارے میں ایک بار پھر ان کے پرستاروں کی طرف سے یہ مطالبہ زور پکڑگیاہے کہ انہیں سنہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینا چاہئے۔پچھلے دنوں سالانہ گولڈن گلوبز ایوارڈزکی تقریب میں ان کی تقریرکے حوالے سے ،جس میں انہوں نے امریکی عوام کودور افق پہ طلوع ہوتی ایک نئی صبح کی نوید دی،یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لئے موزوں ترین اور مضبوط ترین امیدوارثابت ہو سکتی ہیں۔
ادھر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سدابہارخوداعتمادی سے بھرپورآواز اورمخصوص انداز میں کہا کہ ہاں ہاں وہ بھی چاہتے ہیں کہ اوپرا ونفری ضرور صدارتی انتخاب لڑیں کیونکہ ان کے لئے اوپرا ونفری کو ہرانا بہت ہی آسان ہوگا !۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اوپراونفری ملک کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوباما اور پھرخاتون صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کی انتخابی مہمات میں ہر دو کا دامے درمے اور سخنے بھرپورساتھ دے چکی ہیں۔انہوں نے خود کبھی الیکشن لڑنے یا سیاست میں آنے کا شوق نہیں رکھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے صدرمنتخب ہو جانے پر ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ اب پتہ چلا ہے کہ امریکہ کا صدربننے کے لئے سیاست یا حکومت کاکوئی تجربہ رکھنا ضروری نہیں۔اس کے بعد سے وہ وقتاً فوقتاً الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کی بحثوں کا موضوع بنتی چلی آرہی ہیں۔
اوپرا ونفری،جن کو ’’ فالو‘‘کرنے والے صارفین ٹوئٹر کی تعداد 41 ملین سے بھی زیادہ ہے،اس لئے بھی موزوں ترین اور پسندیدہ ترین امیدوار ثابت ہو ں گی کہ وہ ایک دو دھاری تلوارکی حیثیت رکھتی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح بیباک ،پرجوش اورحاضرجواب تو ہیں ہی لیکن ایک طرف سیاہ فام تو دوسری طرف عورت ہونے کے ناطے وہ بیک وقت بارک اوباما اورہلری کلنٹن دونوں کا یکجا اور حسین امتزاجی متبادل ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی کو ان جیسے لیڈرکی اشد ضرورت ہے۔
گو بارک اوباما کی اہلیہ مشل بھی انہیں صفات کی حامل ہیں لیکن اوپرا ونفری سیاہ فام ،ٖغریب امریکیوں کے حق میں ہمیشہ زوردارتحریک چلاتی رہی ہیں۔اس کے علاوہ حقوق نسواں کے لئے بھی زور دار آوازبلند کرنے کی وجہ سے ان حلقوں میں مقبول ہیں لیکن سب سے بڑھ کران کی ذاتی زندگی کے نشیب وفراز اور کامیابیاں بہت سے لوگوں کے لئے امید،خوشی،ہمت اورکامرانی کا باعث بنتی رہی ہے۔
اوپرا کا تعلق ایک کثیرالعیال غریب گھرانے سے تھا۔14برس کی تھیں جب اپنے ہی ایک ’’انکل‘‘ کے ہاتھوں عصمت دری کا نشانہ بنیں اور حاملہ ہو گئیں۔ریپ ، اور وہ بھی ایک انکل کے ہاتھوں اور پھر حمل،یہ سب کچھ اوپرا کے بچپن اور لڑکپن کو اس کے آغاز میں ہی ایک طوفان بن کر تباہ وبربادکرگیا۔اس پہ مستزاداسقاط کے اذیت ناک مراحل بھی اس نابالغ لڑکی کے لئے ایک قیامت سے کم نہ تھے ۔
اس افسوسناک حادثے اور صدمے کے ہولناک سائے آسیب بنے اب تک اوپرا کا پیچھاکررہے ہیں جن سے وہ اپنی جان چھڑانا بھی نہیں چاہتی کیونکہ انہی آسیب نے اس کے اندر کے باغی کو اتنی جرأت،طاقت،حوصلہ اورسہار دی کہ اس نے خود کشی کرنے یا تاریکی خاموشیوں میں زندہ درگور ہونے کی بجائے معاشرے کے چلن کوللکارنے کی ٹھان لی۔تاکہ وہ اپنے جیسی ہزاروں لاکھوں لڑکیوں کو عصمت دری،بدسلوکی اور جنسی استحصال سے بچا بھی سکے اور جو اس کی طرح کے صدمات سے دوچار ہو کر زندگی سے ہی مایوس ہو چکی ہیں،انہیں زندہ رہنے کی امنگ دے سکے۔
لیکن اس مقصدکے لیے ضروری تھا کہ وہ خودکو ایک مثال بن کرکے دکھائے۔چنانچہ اس نے محنت کرنا شروع کی۔پڑھائی کی،صحافت کی دنیا میں قدم رکھا،اپنے اندر کی ٹوٹی پھوٹی ،زخمی اورناتواں عورت کو اس کا اعتمادبحال کرکے دیا۔
شوبِز کی دنیا میں آئی،مکالمے اورمباحث پر مبنی ٹی وی پروگراموں میں حصہ لیا،بعد میں اپنا مشہورعالم ٹاک شوچلایا،ایک عالمی خیراتی تنظیم بنائی،اور اب اپنا ذاتی ٹی وی نیٹ ورک چلا رہی ہیں جس کی وہ مالک ہیں۔اس نیٹ ورک کی مالیت تقریباً تین بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
آپ طویل عرصہ سے نسلی اور صنفی امتیاز،جبر اور استحصال کے خلاف بھرپورجدوجہد کرتی چلی آئی ہیں۔اسی حوالے سے آپ نے پہلے بارک اوباما اور پھر ہلری کلنٹن کی انتخابی مہمات میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ امریکی معاشرے کے گہرے ، غیرمرئی لیکن ہمہ وقت چبھنے والے،کچوکے لگاتے تضادات کے ستائے ہوئے طبقات آپ کو ایک دیوی سمجھ کرپوجتے ہیں۔ان طبقات کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت خوشی نہیں بلکہ صدمے کا باعث بنی تھی کیونکہ ٹرمپ اپنے انتہائی دائیں بازو کے قدامت پسندانہ نظریات کے لئے جاناپہچانانام اور مقام رکھتے ہیں۔
یہاں تک تو ٹھیک لیکن کیااوپراونفری کی بیان کردہ’’ نئی صبح‘‘ انہیں صرف امریکی افق پہ ہی طلوع ہوتی دکھائی دے رہی ہے یا اس صبح کے اجالے سرمایہ دارانہ،سفیدفام،مغربی استعمار کے عالمی اندھیروں کے چھٹ جانے پہ بھی منتج ہوں گے؟۔
قارئین کرام اس کا سیدھا سیدھا جواب تو یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ ایساہو۔
اس سے قبل بارک اوباما کے انتخابی نعرے ’’ہاں ہم کر سکتے ہیں‘‘ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے تیسری دنیا(بالخصوص مسلم دنیا)کو اچھا خاصا سبق مل چکا ہے۔
’’کرسکتے ہیں‘‘ کوخوش فہمی میں مبتلا تیسری دنیا نے ’’کریں گے‘‘ کے مترادف سمجھ لیا تھا۔اس بات کا اعتراف خود اوباما نے بھی اپنی صدارت کے آخری ایام میں ایک تقریب میںیہ کہتے ہوئے کیا تھاکہ کرسکتے ضرور ہیں لیکن ضروری نہیں کہ کریں۔
اسی اصول کا اطلاق ہمیں اوپراونفری کے صدارتی عزائم(اگر وہ واقعی اس قسم کے عزائم رکھتی ہیں)اور ان کے تجزیوں اور تبصروں پر بھی کرناپڑے گا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اوپرا مسلمانوں کے حق میں بہترثابت ہوگی کیونکہ نائن الیون واقعہ کے بعداس نے کچھ جرأت مندانہ پروگرام کئے تھے جس میں کچھ تو اسلام اور عالم اسلام کے بارہ میں تھے اورکچھ اس موضوع پر تھے کہ کیا مسلح جنگ کے سواہمارے پاس اور کوئی آپشن نہیں؟۔یہ وہی زمانہ تھا جب امریکی اور نیٹو افواج صدام حسین کے عراق پر حملہ آورہونے کے پر تول چکی تھیں۔
اسی طرح اس مشہور لیکن متنازعہ سیریز کا ایک پروگرام اس موضوع پر تھا کہ دنیا ہم (یعنی امریکہ)سے نفرت کیوں کرتی ہے؟۔
کہا جاتا ہے کہ جس وقت یہ پروگرام آن ائر گیا تو کچھ ہی دیر بعد صدر بش اور کولن پاؤل ایک پریس کانفرنس کرنے بیٹھ گئے جسے اوپرا کا مذکورہ پروگرام روک کرتمام چینلز پرلائیودکھایا جانے لگا۔اس پریس کانفرنس میں بش اور پاؤل نے تفصیل بتانا شروع کردی کہ عراق پر حملے کرکے ہمیں کیا کیا فوائدحاصل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
قریباً سبھی امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس پریس کانفرنس کی ٹائمنگ اس طرح سے رکھنے کا واحد مقصدیہی تھا کہ ا وپرا ونفری کے اس پروگرام میں رخنہ انداز ہوکر یا تعطل پیدا کرکے ا مریکیوں کے ذہنوں پراس پروگرام کے ممکنہ منفی اثرات کوزائل کرنا تھا۔اور بڑی حد تک یہ اثر زائل ہوا بھی۔اوپراؔ بتاتی ہیں کہ عراق پر حملے کے خلاف پروگرام کرنے پر انہیں بے شمار دھمکی آمیزپیغامات ملے جن میں ایک پیغام یہ تھا کہ ’’گو بیک ٹو افریقہ‘‘(یعنی افریقہ واپس چلی جاؤ)۔
بہرحال ان سارے واقعات کے نتیجے میں اوپراونفری دنیا بھر میں امن اور مساوات کی ایک عالمی چیمپئین تو بن کر ابھری ہیں لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا،تیسری دنیا بالعموم اور مسلمان بالخصوص باربار خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرناچھوڑدیں اور اپنے حقیقی خدا سے رجوع کرنا سیکھ لیں تو ان کے لئے کہیں بہتر ہوگا۔کیونکہ اسلام کاپیش کردہ خدامسلمانوں کو کاہلی،بھیک،دھوکہ،چوری،عہدشکنی،خیانت،ظلم،فسق وفجور،تفرقہ اور سب سے بڑھ کر فتنہ وفساد سے منع فرماتا ہے، جبکہ ان کی اکثریت عملاً انہی عادات واطوارسے چمٹی ہوئی ہے۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ٹائمزآف اسرائیل کے ایک یہودی تجزیہ نگارنے نازی جرمنی کی ’’ ہولوکوسٹ ‘‘سے بچ جانے والے ایک یہودی کی تنظیم میں اوپرا ونفری کی نمایاں دلچسپی کی بنا پر ایک’’ محتاط ‘‘ رائے دیتے ہوئے لکھاہے کہ اگر اوپراؔ صدر منتخب ہو جاتی ہیں تو اس کا فائدہ بھی اسرائیل کو ہی ہوگا۔
♦
One Comment