علی احمد جان
اس کی لاش گاڑی کی پچھلی سیٹ پر کیوں پڑی ہوئی تھی، گاڑی اس کے گھر اور دفتر سے دور ساحل سمندر پر واقع ابراہیم حیدری میں کیوں کھڑی تھی اور اس کے جسم پر تشدد کے نشان تھے کہ نہیں جیسے سوالات کے جوابات اس لئے کھوجے جارہے ہیں کہ یہ پتہ چل سکے کہ اس کو کسی نے مار دیا یا مرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف نے خود کشی کی ہے۔
ظفر عارف ایک چھ فٹ لمبے قد کا ایک آدمی تھا جو اپنی وضع قطع سے دانشور یا فلسفی سے زیادہ ایک پہلوان نظر آتا تھا۔ کھلے گریبان کے ساتھ اس کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے کہ امریکہ اور برطانیہ میں اپنی علم و دانش کا لوہا منوانے والا ۷۲ سال کی عمر میں بھی کھلنڈرے پن سے سے باز نہیں آتا۔
کہتے ہیں کہ سکول میں ٹیبل ٹینس کا چمپئین بن گیا تھا لیکن شوق پڑھائی کی طرف تھا ورنہ زمانے کے حساب سے اس کے لئے سب سے بہتر یہ ہوتا کہ ٹیبل ٹینس کی میز پر ہی مات اور شہ مات دیتا۔آسٹریلیا جیسے کسی مردم شناس ملک میں آباد ہوتا ، گوری میم سے شادی کرتا اور اب اپنے پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں سے کھیلتا اور ان کو بھی کبھی کبھار پاکستان لے کر آجاتا اور بتاتا کہ اس کے باپ دادا نے یہ ملک بنایا تو تھا مگر اس میں اس کے لئے جگہ نہیں تھی اس لئے وہ کہیں اور آباد ہوا۔
اپنی کلاس اور کراچی میں قابل طلبأ میں شمار ہونے کے باوجود ڈاکٹری نہ پڑھنا یا انجنئیر نہ بننا بھی اس کا اپنا فیصلہ تھا ۔ فوج میں چلا جاتا تو اپنے چھ فٹ کے قد کے ساتھ ایسی ترقی کرتا کہ چار نہیں تو کم از کم تین ستاروں کے ساتھ ریٹائرڈ ہوکر اب کہیں گالف کھیل رہا ہوتا اور ٹی وی پر بیٹھ کر بھاشن دے رہا ہوتا ۔ ایوب ، یحییٰ ، ضیا ءاور مشرف کے مارشل لاؤں میں کسی صوبے کا گورنر نہیں تو کم از کم پی آئی اے ، سٹیل ملز، این ایل سی جیسے کسی ادارے کی دن دگنی رات چوگنی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے بعد اب کسی یورپی ملک میں سفارت کاری کے فرائض سر انجام دے رہا ہوتا۔
پڑھا بھی فلسفہ جس کے اس ملک میں نہ سمجھنے والے موجود ہیں اور نہ سمجھا نے والے۔ قسمت اچھی تھی جو اسکالر شپ مل گئی اور ولایت چلا گیا۔ بھلا لوگ ولایت واپس آنے کے لئے جاتے ہیں؟ کم از کم ٹیکسی چلاکر ہی اب تک اس نے کراچی کلفٹن میں ایک بڑا سا گھر بنا لیا ہوتا ۔ برطانیہ میں فلسفہ پڑھا کر ادھر رک جاتا اور کسی ہم وطن اور ہم مذہب سے شادی کرتا اور شہریت مل ہی جاتی۔ واپس آگیا اور کراچی یونیورسٹی میں ماسٹری شروع کی۔ایک اچھے استاد کی طرح امتحان میں پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات امتحان سے پہلے ہی بتانے کے بجائے شاگردوں کو سوال کرنا سکھا تا رہا ۔
زندگی نے ایک اور موقع دیا امریکہ چلا گیا لیکن ایک پوسٹ ڈاکٹریٹ کا کاغذ ہاتھ میں پکڑ کر واپس آگیا۔ اس ملک میں امریکہ کے ایک صرف اس کاغذ جس میں جارج واشنگٹن کی تصویر ہو اس کی قدر ہے باقی سارےکاغذ ردی ہیں ۔ واپس آکر بھی الجھ پڑا جہانداد خان سے جس کا نام سن کر اچھے اچھوں کو اپنا نام بھول جاتا تھا۔ گرفتار ہوا معافی نہیں مانگی دوسا ل تک جیل میں سڑتا رہا۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد جبکہ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے کئی ایک نے تو ستر کلفٹن والی سڑک سے گزرنے سے توبہ کرلی تھی اور ظفر عارف پہنچے بیگم نصرت بھٹو کے پاس اور درس جمہوریت دینے لگے۔ ایم آرڈی سےبے نظیر بھٹو کو واپس لانے کے لئے متحرک ہوا ۔ جمہوریت بحال ہوئی تو پرفیسر این ڈی خان، امیر حیدر کاظمی یا دوسرے اردو بولنے والوں کی طرح پارٹی کا ٹکٹ مانگنا اور نہ عہدہ لینا تو دور کی بات اپنی نوکری کے بقایا جات تک نہیں لئے ۔
اسی جینز کی پیٹ پر کھلے گریبان کی قمیض پہن کر درس جمہوریت جاری رکھا۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان جب کراچی کی سڑکوں پر کھلی جنگ ہوئی ، جنگی قیدیوں کی طرح مغویوں کے تبادلے ہوئے اور نوجوانوں کی بوری بند لاشیں ملنے لگیں تو علیحدہ ہوکر لا تعلقی کا اظہار کیا ۔ ساتھی اسحٰق اس کے ساتھ جاکر بچ گیا ورنہ نجیب کی طرح اس کا بھی صرف ذکر ہی رہ جاتا۔
مرتضیٰ بھٹو واپس آگئے تو ان کے ساتھ شامل ہوئے اور حقیقی جمہوریت کی اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ مرتضیٰ مارے گئے اور پارٹی منتشر ہوئی تو وہ بھی وقت کے ساتھ پس منظر میں چلے گئے۔ جمہوریت، انسانی سماج میں مساوات، انسانی حقوق جیسے کاموں کو اپنا مشن بنالیا اور ہر حکومت ، ہر ادارے اور ہر طاقت کے سامنے کھڑے رہے۔ ہر طوفان کے سامنے سینہ سپر ہونا ظفر عارف کا شعوری فیصلہ ہوتا تھا کسی دباؤ یا مجبوری کے تحت نہیں۔
ایم کیو ایم کے لوگ جو آج پاک سر زمین پارٹی، متحدہ قومی موؤمنٹ پاکستان یا کسی بھی جماعت کا حصہ بن گئے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ الطاف حسین نے ایسے نعرے پہلی بار اس دن نہیں لگائے تھے جب کریک ڈاؤن ہوا تھا۔ ایسے نعرے بہت پہلے سے لگائے جاتے تھے جس کے جواب میں سب ’جی بھائی ‘کے علاوہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالتے تھے۔
ظفر عارف کراچی کے اردو بولنے والے ان چند دانشوروں میں سے تھے جو ایم کیو ایم کے ناقدین تھے۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی طرح ایم کیو ایم کے حلف یافتہ کارکن بھی پروفیسر صاحب کی گھات میں رہتے تھے۔ آج جو لوگ اپنی معصومیت، پارسائی ، ریاست اور ریاستی اداروں کی تابعداری کی قسمیں کھاتے ہیں وہ اس وقت ان کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیا کرتے تھے جب وہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو کراچی کے محنت کش طبقے کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کےذمہ دار سمجھتے تھے۔
جب ریاست نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر پابندیاں لگادیں، فاروق ستار کو جب ٹھاکر اپنے پنجوں میں ممولے کی طرح اٹھاکر لے گیا اور عامر لیاقت حسین ، عامر خان اور کئی دوسرے رال ٹپکاتے ہوئے ٹھاکر کے تلوئے چاٹ رہے تھے تو جینز کی پینٹ کے ساتھ کھلے گریبان کی قمیص والے پروفیسر ظفر عارف نے ہمیشہ سے اپنے ہدف تنقید الطاف حسین کو الطاف بھائی کہہ کر سب کوورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
محنت کش طبقے کی بین الاقوامیت کا پرچار کرنے والے ڈاکٹر ظفر عارف کی ایک لسانی تنظیم میں شمولیت اور اس کی ان حالات میں نمائندگی ان کے دوستوں، شاگردوں اور جاننے والوں کے لئے کوئی نئی بات اس لئے نہیں تھی کہ وہ جانتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب جس بات کو حق سمجھتے ہیں وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹتے اور جب ان کے سامنے کوئی بات غلط ہو تو اس کے ساتھ کھڑے نہیں رہتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ظفرعارف کی ہنگامہ خیز سیاسی زندگی کے آخری سفر کا مختصر دور بلآخر گاڑی میں ان کی لاش کے ملنے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوا۔ ان کو جنرل جہانداد کو خط لکھنے، جنرل ضیالحق کے پر اشوب دور میں نصرت بھٹو کا ساتھ دینے ، پیپلز پارٹی سے لسانی جھگڑوں میں ملوث ہونے پر اختلاف کرنے سے لیکر میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ شامل ہونےتک ہر فیصلے کا انجام معلوم تھا کہ کوئی بھی لمحہ ان کی زندگی کا آخری ہو سکتا ہے ۔
آسٹریلیا ، یورپ، امریکہ میں ایک آسودہ حال گمنام آدمی طرح زندہ رہنے پر اس نے اپنے ملک میں ہی متحرک رہنے کو ترجیح دی۔ آنے والے وقتوں میں ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ، پڑھا اور کہا جائیگا ۔شائد ان کی بھی یہی خوہش تھی کہ مرنے کے بعد بھی اس کو لوگ ایک الگ انداز میں یاد رکھیں اس لئے اس کا یہ انتخاب بھی ہمیشہ کی طرح مختلف رہا۔
♦