بھارت میں حج پر سبسڈی ختم کر دیے جانے کے اعلان پر ہندو قوم پرستوں کی طرف سے خاص طور پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب اسے مسلم دشمن پالیسی کا ایک حصہ بھی قرار دیا گیا ہے۔
بھارتی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کی جانب سے اس حکومتی اعلان کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ ہر سال حکومت کی جانب سے دی جانے والی حج سبسڈی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا حکومت کا یہ فیصلہ اقلیتوں کو خوش کرنے کی پالیسی کو اختیار کیے بغیر انہیں با اختیار بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق سبسڈی ختم کرنے سے حکومت کو سات سو کروڑ روپے کی بچت ہوگی اور یہ رقم اقلیتوں کی تعلیم خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کی جائے گی۔
گزشتہ روز بھارتی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اس اعلان کے بعد اپوزیشن کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے فیصلوں کی ایک کڑی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات کرتے ہوئے بھارت کے سابق پارلیمانی رکن اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ترجمان میم افضل کہتے ہیں، ’’یہ حکومتی فیصلہ نہیں ہے۔ 2012ء میں بھارتی سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی گئی تھی جس کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ سبسڈی کو بتدریج 2022ء تک یعنی دس سال کے عرصے میں ختم کر دیا جائے۔ اس پر عملدرآمد کا آغاز کیا جا چکا تھا۔ لیکن اس فیصلے کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے ابھی چار سال مزید باقی تھے۔ لیکن مودی سرکار نے اس کو اچانک ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سبسڈی دراصل مسلمانوں کو خوش کرنے یا راضی کرنے کی پالیسی تھی۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس سے تو موجودہ سرکار کا کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔ اس فیصلے پر تو عمل ہونا ہی تھا لیکن آہستہ آہستہ ‘‘۔
میم افضل مزید کہتے ہیں کہ مودی سرکار کی جانب سے یہ اقدام دراصل ایک پیغام ہے، ’’مودی سرکار اس حوالے سے بدنام ہے کہ یہ اقلیتوں کے خلاف باقاعدہ کام کر رہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی اپنا ووٹ بینک مزید بڑھانے کے لیے بتانا چاہتی ہے کہ مسلم اقلیتوں کو جہاں جہاں جو تھوڑی بہت حکومتی رعایت دی جاتی ہے، اس کو ختم کر دیا جائے‘‘۔
بھارت حکومت کی اقلیتی کمیٹی کے سابق چیئرمین اور آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کے ممبر کمال فاروقی نے اس اقدام کو سراہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سبسڈی کو مخالفین کی جانب سے مسلمانوں کے خوش کرنے کی پالیسی قرار دیا جاتا تھا، ’’حکومت کی جانب سے یہ سبسڈی بنیادی طور پر ایئر انڈیا کے ذریعے حج کے لیے جانے والوں کو کرایہ کی مد میں دی جاتی تھی۔ یہ مسلمانوں کو رقم کی صورت میں نہیں ملتی تھی بلکہ کرایہ میں استعمال کی جاتی تھی ‘‘۔
کمال فاروقی بتاتے ہیں کہ 2012ء میں جب عدالت نے یہ فیصلہ کیا تھا تو ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ہر پانچ سال کی پالیسی بننی چاہیے۔ پہلی پالیسی بنا دی گئی تھی اور اس کی مدت 2017 میں ختم ہو گئی تھی جبکہ دوسری پانچ سالہ پالیسی بنانے کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں وہ بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی نے جو اپنی سفارشات تیار کر کے حکومت کو دیں اس کے مطابق سبسڈی کو ختم کر دینا ہی مسلمانوں کے حق میں بہتر تھا۔
فاروقی کے مطابق، ’’مسلمانوں کو بنیادی طور پر اس سے فائدہ ہی ہو گا۔ کیونکہ یہ بات ہمارے خلاف استعمال کی جاتی تھی اور ہمیں بد نام کیا جاتا تھا کہ مسلمان اپنا مذہبی فریضہ تک خود ادا نہیں کر سکتے اور حکومتی رعایت پر حج کر رہے ہیں تو یہ بھی الزام اب ختم ہو گیا‘‘۔
حج کے علاوہ، حکومت دیگر مذہبی دوروں جیسے کیلاش مان سروور، کمبھ میلے اور ننکانہ صاحب گرودوارے کے لیے بھی سبسڈی فراہم کر رہی ہے۔ کمال فاروقی کہتے ہیں کہ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سبسڈی کو بھی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے اور مذہب کی بنیاد پر کسی کو بھی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ اگر مسلمانوں کے لیے یہ سبسڈی ختم کی گئی ہے تو اس سے اس کمیونٹی کی عزت میں اضافہ ہوگا۔
DW
One Comment