آصف جاوید
کم از کم بنیادی آمدنی یا یونیورسل بیسک انکم وہ رقم ہوتی ہے، جو کسی ریاست کی جانب سے بلا امتیاز امیر و غریب، ریاست کے ہر شہری کو بغیر کسی شرط کے ہفتہ وار یا ماہانہ بنیاد پراس کی بنیادی ضروریات کی کفالت کے لئے نقد ادا کی جاتی ہے۔ اِس کے لئے کام کاج کرنے یا نہ کرنے کوئی شرط شامل نہیں ہوتی ہے۔ یونیورسل بیسک انکم کی ادائیگی کے لئے ریاست کا شہری کی عمر، جنس، آمدنی، روزگار سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔فلاحی ریاستیں اپنے شہریوں کو یونیورسل بیسک انکم فراہم کرنے کے بارے میں منصوبہ سازی کرتی ہیں، اقدامات اٹھاتی ہیں۔ ۔
یونیورسل بیسک انکم کتنی ہونی چاہئے ، اس کا تعیّن ہر فلاحی ریاست اپنے شہریوں کے معیارِ زندگی، قومی آمدنی، کاسٹ آف لِوِنگ، انفلیشن (روپے کی قدر میں کمی) ، اور دیگر سماجی و معاشی انڈیکیٹرز کو ملحوظ رکھ کر طے کرتی ہے۔ مثال کے طور پر سوئٹزرلینڈ میں ہر شہری کو یونیورسل بیسک انکم فراہم کرنے کے لئے 2،600 ڈالر مہینہ کم از کم حد کا تخمینہ لگایا گیاہے۔ جبکہ امریکہ کے لئے اپنی آبادی کو یونیورسل بیسک انکم فراہم کرنے کے لئے دس ہزار ڈالر سالانہ فی شہری کے حساب سے تقریبا ” تین اعشاریہ دو ٹریلین ڈالر کی رقم کا تخمینہ لگا یا گیا ہے۔
یونیورسل بیسک انکم کی فراہمی کے لئے ریاست کے پاس فاضل ذرائع آمدنی کا ہونا لازمی ہے۔ اگر ریاست کے پاس سرپلس فنڈز، جیسے محصولات کی وافر آمدنی (ویلیوایڈیڈ ٹیکس، جی ایس ٹی، ایچ ایس ٹی)، چیرٹی فنڈز، قومی سرمایہ کاری سے حاصل شدہ منافع، دفاعی اخراجات میں نمایاں کٹوتی سے حاصل شدہ رقم، قدرتی وسائل کی فروخت سے حاصل شدہ آمدنی اور دیگر ذریعوں سے آمدنی کا راستہ نہیں ہوگا تو کوئی بھی فلاحی ریاست یونیورسل بیسک انکم فراہم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔
دنیا میں کچھ ممالک نے تجرباتی طور پر اپنی آبادی کے انتہائی محدود طبقات کے لئے یونیورسل بیسک انکم پروجیکٹس شروع کئے ہیں، جن میں سوئٹزرلینڈ، کینیا، ہالینڈ، انڈیا، فن لینڈ، اور فرانس کے نام شامل ہیں۔
میں کینیڈا میں رہتا ہوں، کینیڈا ایک فلاحی مملکت ہے، یہاں معیارِ زندگی کا ایک کم سے کم معیار مقرّر ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان کی فراہمی اگر چہ ریاست کی ذمّہ داری نہیں ہے، مگر پھر بھی کم آمدنی والے طبقات کے لئے شیلٹرزر ، افورڑ ایبل ہاؤسنگ، سب سی ڈائزڈ ہاؤسنگ کی سہولت موجود ہے، ہر ماں کو خاندان کی ماہانہ آمدنی کے مطابق ہر بچّے کی پرورش کے لئے ماہانہ رقم دی جاتی ہے۔ ہائی اسکول تک تعلیم فری ہے اور صحت کے اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔بے روزگار افراد کے لئے ایمپلائمنٹ انشورنس اور ویلفئر کی رقم سے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کی سہولت موجود ہے۔
فوڈ بنکس سے گروسری، اور چیریٹی فنڈز سے اضافی رقوم کی فراہمی کا انتظام موجود ہے، ریاست کے خرچ پر سکل ٹریڈ سیکھ کر ہنر مند افراد کی فہرست میں شامل ہوکر معاشرے کا کارآمد شہری بننے کے مواقع حاصل ہیں۔ یونیورسل بیسک انکم کا پہلا ٹیسٹ رَن کینیڈا میں سنہ 1970 میں آزمایا گیا تھا۔ میری معلومات کے مطابق کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کی حکومت نے تجرباتی طور پر آبادی کے محدود طبقات کے لئے ویلفیئر کے متبادل کے طور پر ہیملٹن، براڈفوڑ، برانٹ کاؤنٹی، لنڈسے اور تھنڈر بے میں بنیادی انکم کے کچھ پائلٹ پروجیکٹس بھی شروع کئے ہیں۔
یونیورسل بیسک انکم کے نظام کی سرپرستی و حمایت زیادہ تر اّن ریاستوں کی جانب سے سامنے آئی ہیں، ، جو اپنی معیشت کے لئے فری مارکیٹ اکانومی نظام کو رائج رکھنا چاہتی ہیں۔
پاکستان کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے، اقوامِ متّحدہ کے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس پر پاکستان کا نمبر 147 واں ہے۔ یعنی انسانی ترقی کے شعبے میں پاکستان بہت پیچھے یعنی 147 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے، یعنی چالیس فیصد آبادی کو زندگی گذارنے کے لئے بنیادی ضروریات زندگی ہی میسّر نہیں ہیں۔ مالیاتی اصطلاح میں ماہانہ ساڑھے چار ہزار روپے سے کم کمانے والا ہر بالغ شخص خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کے لئے موجود ہے۔ جبکہ پاکستان میں تو چار سے چھ افراد پر مشتمل ایسے ایک کروڑ سے زائد کنبے موجود ہ ہیں جن کی ماہانہ آمدنی اوسطا” چھ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ میں زندگی گزارتی ہے ۔
پاکستان میں مزدور طبقہ ازلی استحصال کا شکار ہے ۔ اور اپنی محنت سے پیدا کی ہوئی قومی دولت میں اپنے جائز حق سے بھی محروم ہے۔ پاکستان کی ایک تہائی آبادی کا ذریعہ معاش مزدوری ہے۔ پاکستان میں مزدور طبقے کی تعداد چھ کروڑ سے بھی زیادہ ہے ۔ ان چھ کروڑ افراد کی اکثریت، ناخواندہ، نیم خواندہ، غیر تربیت یافتہ، غیر ہنر مند ، نیم ہنر مند افراد پر مشتمل ہے۔ یہ چھ کروڑ زندہ انسان زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محرومی کے ساتھ ساتھ ، انتہائی کم اجرت اور نامناسب حالات میں اپنی روزی کمانے پر مجبور ہے۔ اِس ایک تہائی آبادی پر لیبر قوانین کا اطلاق ہی نہیں ہو تاہے۔
بنیادی انسانی حقوق سے محروم یہ مزدور طبقہ محرومی، استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے ۔مزدوروں کے معاملے میں ریاست اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہے مزدوروں کو ملازمتوں کو کوئی تحفّظ حاصل نہیں ہوتا، ،مزدور طبقہ بنیادی حقوق سے محروم ،انتہائی پسماندہ حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ مستقل ملازمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کھیت مزدوروں، بھٹّہ مزدورں کی حالت تو انتہائی بدتر ہے، صنعتی کارکنوں کی اکثریت عارضی، سیزنل اور کنٹریکٹ ورکرز کی ہے جنہیں ملازمت کا تحفظ، سوشل سیکورٹی اور تنظیم سازی کے حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے ہیں۔
ریاست مزدوروں کے معاملات، قاعدے قانون، اور نگرانی و معائنے کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتی ہے۔بے ضابطہ معیشت کا چلن عام ہے۔ حکومت کی جانب سے مزدوروں کے لئےکام کا دورانیہ 8 گھنٹے مقرر ہے، جبکہ مزدور کی کم از کم اجرت آٹھ گھنٹے کام کے لئے 15000روپے ماہانہ مقرّر کی گئی ہے۔ مگر اس پر بہت کم عمل ہوتا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں مزدوروں کو آٹھ سے دس گھنٹہ کام کرنے کا معاوضہ چھ سے دس ہزار روپے تک ملتا ہے۔ فیکٹری کا مالک کسی درمیانی واسطے سے جسے ٹھیکے دار کہا جاتا ہے ،باقاعدہ طور پر خدمات کا معاہدہ طے کر لیتا ہے، ٹھیکے دار بے ضابطہ طور پر محنت کش بھرتی کرتا ہے، فیکٹری مالک ٹھیکے دار کو فی محنت کش ایک مقررہ قیمت ادا کرتا ہے۔
اس انتظام کا مقصد فیکٹری مالک کو مزدور قوانین کے تحت قانونی ذمہ داری سے بچانا ہوتا ہے ۔ ٹھیکیداروں کے پاس باقاعدہ کنٹریکٹ یا ملازمت کا تحفظ نہیں ہوتا چنانچہ وہ سوشل سیکورٹی کے حقدار بھی نہیں ہوتے جو فیکٹری کارکنوں کو ملنی چاہئے، اس طریقے سے فیکٹری مالکان مزدوروں کو قانون کے مطابق حاصل سہولتیں فراہم کرنے سے بچ جاتے ہیں۔
یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ترقّی یافتہ اقوام تو اپنی عوام کو بلاامتیاز کوئی کام کاج کئے بغیر یونیورسل بیسک انکم فراہم کرنے کی منصوبہ بندیاں کررہی ہیں اور پاکستان میں مزدور کو جان توڑ محنت کے بعد کم سے کم بنیادی اجرت بھی ادا نہیں کی جاتی ۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا؟؟؟
♦