ماہرین عمرانیات کے مطابق ’’قانون کے ذریعے معاشرنی ضبط قائم کیا جاتا ہے ،تاکہ افراد کے روئیے اور برتاؤ میں یکسانیت پیدا کی جا سکے ۔قانون کی بدولت ایسے عوامل سامنے آتے ہیں جو منظم ہو کر معاشرتی زندگی کی تشکیل نو کر تے ہیں ،قانون معاشرے میں فرد کو تحفظ فراہم کر تا ہے ۔اور اس طریقے سے افراد معاشرے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔‘‘۔بد قسمتی سے پاکستان میں قانون کی بالاتری کبھی بھی یقینی نہیں بنائی جا سکی ۔اس ملک میں قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اُڑاتے پائے گئے ہیں ۔پاکستان میں ایک عرصہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قانون کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں پولیس کا ادارہ ہمیشہ الزامات کی زد میں رہا ہے ۔
قانونی طور پر کوئی تحقیقاتی ادارہ بذات خود سزا نہیں دے سکتا ۔اگر کوئی ادارہ ماروائے عدالت کسی کو قتل کر نا ہے ،تو یہ قانون کی خلاف ورزی کہلانے کے ساتھ ساتھ ظلمِ عظیم بھی کہلائے گا ۔ پاکستان میں قانون کے نفاذ کا کلاسیکی ادارہ ’پولیس ‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔یہ ادارہ ریاستی سطح پر قانون کی عملداری اور ریاستی بالاستی کے ساتھ ساتھ مظلوم کی حق رسی کے لیے بنایا گیا تھا ۔لیکن پاکستان میں پولیس واحد ریاستی ادارہ ہے جو امکانی حد سے بھی زیادہ ’’بدنام ‘‘ ہے ۔پاکستان میں ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں ’’مختارِ کل‘‘ ہے اور ایسے حالات میں پولیس کا کر دار اور رویہ بے انتہا بربریت خیز اور وحشی ہو گیا ہے ۔
ا کیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں پاکستان کی پولیس عام شہری اور سیاسی کارکنوں کو جعلی مقابلے میں قتل کر کے فخر محسو س کر تی ہے ۔پولیس کے متعلق یہ بات زبان زد عام ہے کہ اسے بے انتہا اختیارات حاصل ہیں ۔یہ قانون کے رکھوالے بندوقوں کے زور پر چادر اور چار دیواری کی پرواہ کیے بغیر عورتوں اور بچوں پر تشدد کر سکتے ہیں ۔ان ’ریاستی غنڈوں‘ کو نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کو ئی روکنے والا ہے ۔اس کی تازہ مثال کراچی کی پولیس کی تازہ ’فتح مندی ‘ ہے ۔ابھی کچھ دن قبل کراچی جیسے تجارتی شہر میں ایک معصوم شہری اور نوجوان نقیب اللہ محسود کو ’دہشت گرد ‘ قرار دے کر شہید کر دیا گیا پاکستان کے تمام باشعور طبقات نے اس ماروائے عدالت قتل کی مذمت کی ہے ۔
کراچی میں ’مافیا‘ کا سرغنہ راؤ انوار اس نقیب اللہ محسود کے قتل سے قبل بھی کئی بے گناہ شہریوں اور سیاسی کارکنوں کو قتل کر چکا ہے ۔یہ شخص چند دن کے لیے معطل ہو تا ہے اور پھر بحال ہو جاتا ہے۔ چند دن کی معطلی جیسی نرم سزا کے بعد بحالی نے اس کے حوصلے کو مزید بلند کر دیا۔یہ بحال ہونے کے بعد حسب سابق قتل عام شروع کر دیتا ہے ۔سندھ کی حکومت اس درندے کا ساتھ دے کر جہاں عوام پر ظلم کر رہی ہے وہی اخلاقی بد تہذیبی کی مرتکب بھی ہو رہی ہے ۔ پاکستان میں اس وقت تک امن نہیں ہو سکتا جب تک ریاستی ادارے اپنی حدود متعین نہیں کرتے ۔اس وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ اگر نقیب اللہ محسود نے کوئی جرم کیا تھا تو اسے عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا گیا ۔
اسی طرح حساس ریاستی اداروں کی ماروائے عدالت قتل و غارت کی فہرست بہت طویل ہے ،پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا پولیس کے ہاتھوں قتل پر تو ایکشن لیتا ہے تاہم انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں ہونے والے ’ظلم و تشدد‘‘ پر میڈیا ہمیشہ خاموش رہتا ہے ۔خاص طور پر بلوچستان اور کراچی میں ہونے والی جبری اغوا اور بعد میں قتل ہونے پر کبھی کوئی خبر سننے کو نہیں ملی ہے ۔ اس کی واضح مثال سلیم شہزاد ہیں ،جن کے قتل پر میڈیا نے وقتی طور خبر دی تھی اور اس معاملے میں مرکزی کر دار ادا کر تے ہوئے قاتلوں کا پیچھا نہیں کیا تھا ۔سلیم شہزاد ممتاز پاکستانی تحقیقاتی صحافی تھے ،وہ ایک غیر ملکی اخبار کے ساتھ منسلک تھے ۔اُن کے پاکستانی ریاستی اداروں کے ساتھ ’اختلافات‘ پیدا ہو گئے تھے ،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلیم شہزاد کو جان سے ہاتھ دھونے پڑ گئے ۔
ذرائع کے مطابق سلیم شہزاد کی حساس اداروں کے افسروں کے ساتھ آخری ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی تھی ، اور فریقین نے ایک دوسرے کو سمجھنے اور سُننے کا عہد کیا تھا ،لیکن اس باوجود کچھ دنوں بعد سلیم کو ’اغواہ ‘ کر لیا گیا اور اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر کے جہلم لنک کنال میں پھینک دیا گیا ۔سلیم شہزاد کی لاش منڈی بہاول الدین کے قریب سے ملی تھی ۔سرکاری موقف کے مطابق سلیم کو ’مافیا‘ کے بندوں نے قتل کیا تھا لیکن پاکستان کے صحافتی حلقے اس قتل کو حساس اداروں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دیگر حساس ’معاملات‘ کی طرح اس قتل کی تحقیقات کا معاملہ بھی اَبھی تک فائلوں میں دبا ہوا ہے ۔اس قتل کی تحقیقات میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے ۔اسی طرح کا ایک واقعہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں پیش آیا،اس کیس میں ’وکٹم ‘ کو قتل تو نہیں کیا گیا تاہم سنگینی کے اعتبار سے یہ واقعہ بھی سلیم شہزاد کے معاملے سے کم نہیں ہے ۔ضلع اوکاڑہ پنجاب کا ایک حساس ضلع ہے اس شہر میں پاکستانی فوج کی ایک قدیم چھاونی ہے ۔اس فوجی چھاونی کے ساتھ منسلک ’زرعی زمین‘ کے مالکانہ حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ مطلب اس علاقے میں بسنے والے غیرب کاشتار اپنی زمین نہ بیچ سکتے ہیں اور نہ ہی لیز پر دے سکتے ہیں ۔بعض کاشتکاروں کی زمین پر ریاستی اداروں کا قبضہ ہے ۔
اس علاقے کے کسانوں نے اس معاملے کو سیاسی و سماجی سطع پر اٹھانے کے ساتھ ساتھ قانونی سطح پر بھی اٹھایا اور قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ان لوگوں کو جبری طور پر خاموش کروانے کے لیے ان غریب کسانوں کی قیادت کرنے والے ایک شخص ’مہر عبد الستار ‘ کو پاکستانی حساس اداروں نے حراست میں لے کر نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا ۔مہر عبد الستار بہت عرصہ منظر عام سے غائب رہا اور اس کے متعلق کسی کے پاس کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں ہے اور کس حالت میں ہے ۔کچھ عرصہ پہلے عوامی دباؤ پر اس کو جیل منتقل کیا گیا ہے ۔ دورانِ حراست انتہائی زیادہ تشدد کی وجہ سے عبد الستار مہر کی صحت متاثر ہوئی ہے ۔ عبد الستار مہر ابھی تک جیل میں ہے۔ اَور اُس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے ۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ اس وقت پاکستان میں ’جمہوری حکومت‘ قائم ہے لیکن حکم ’ٹوپی ‘اور’ وردی‘ کا چل رہا ہے ۔کچھ دن قبل بلوچستان میں نواب ثنا اللہ ظاہری کی تنزلی اس کی واضح مثال ہے ۔جب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بلوچستان اسمبلی کے ارکان سے اس ’تبدیلی ‘ کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے انتہائی معصومیت سے کہا کہ’ ’ہم انٹیلی جنس اداروں کے ایماء اور دباؤ پر ثنا اللہ ظاہری کی حکومت کے خلاف ہو گئے ہیں‘‘۔ اس طرح کی صورتحال میں نواز شریف صاحب بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ’’بلوچستان کو راتوں رات محلاتی سازشوں کی نذر کیا گیا ۔ہم ان سازشوں کا مقابلہ کریں گئے۔ووٹ کا تقدس بار بار مجروح ہو رہا ہے ۔چند لوگوں کے فیصلوں کو عوام پر مسلط نہ کیا جائے ‘‘۔
میاں صاحب کے ان الفاظ میں جن خفیہ طاقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ وہی طاقتیں ہیں جنھیں عرفِ عام میں ریاستی ادارے کہہ کا’ ’ تقدیسی جامہ ‘‘ پہنایا جاتا ہے ۔ پاکستان کے ریاستی ادارے صحافیوں کو اپنے موقف کے ہمنوا کر نے کے لیے سالانہ کروڑوں روپے خرچ کر تے ہیں ۔غیر ملکی دورے اور عمرے کے ٹکٹ اس سلسلے کے اہم ’لوازمات ‘ ہیں ۔جو آزاد منش صحافی اس طرح کی ریاستی پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھاتے ان پر حملے کیے جاتے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا میں ان کے لیے مشکلات پیدا کی جاتیں ہیں ۔
حامد میر پر قاتلانہ حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا ۔حامد میر ’بلوچستان ‘ میں جاری سرکشی کو قومی آزادی کی جنگ قرار دے رہا تھا جبکہ پاکستان کے ریاستی ادارے اس کے موقف سے متفق نہیں تھے ۔اس طرح پانامہ کیس میں پاکستانی ریاست نے نواز شریف کو ایونِ اقتدار سے معزول کر دیا ۔اب جو بھی معتبرصحافی میاں صاحب کے حق میں لکھنے کی کوشش کر تا ے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں احمد نورانی پر حملہ کیا گیا ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک حساس علاقے میں چند افراد ایک صحافی کو کار سے نکال کر کیسے تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں ؟؟۔جبکہ اس علاقے کو ’’ریڈ زون ‘‘ کا نام دے کر ’ممنوع‘‘ علاقہ بھی بنایا گیا ہے ۔
یہ چیز اس بات کو سوچنے پر مجبور کر تی ہے کہ یہ کام یقیناًکسی ریاستی ادارے کا تھا ۔پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ ریاستی اداروں آئینی طور متعین کردہ دائرے میں رہیں ۔ریاستی ادارے جب ’قاتل‘ بن جائیں گئے تو اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر نفرت اور بغاوت کے جذبات پید ہو گئیں ۔جس کا یہ نتیجہ بھی ہو سکتا ہے کہ عوام بغاوت کر دیں اور ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے ۔
♦