ارشد بٹ
تعلیمی اداروں میں ہنگامہ آرائی یا توڑ پھوڑ ھو، اسلحہ کی نمائش ہو، طلبہ اور طالبات پر تشدد کے واقعات ہوں، طالبات اور اساتذہ کی بے حرمتی کی جائے یا کسی نہتے طالب علم کا خون ناحق بہایا جائے تو اسلامی جمیعت طلبہ کا نام ہی ذہن میں کیوں آتا ہے۔ جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیم ھونے کے ناطے اسلامی جمیعت طلبہ اپنے تیئں پاکستان میں اسلامی نطام نافذ کرنے کی داعی ہے۔ اس لئے تخریب کاری، مجرمانہ اور طلبہ دشمن سرگرمیوں سے اسکا ناطہ جوڑنا عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نیہں۔ پاکستان کی تاریخ پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو یہ عقدہ حل کرنا آسان ھو جاتا ہے۔
جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کے بعد 1948 میں اسلامی جمیعت طلبہ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جس کا بنیادی کام طلبہ کو سیاست سے باز رکھنا اور طلبہ میں اسلامی تعلیمات سے متلعق آگاہی پیدا کرنا تھا۔ ایوبی مارشل لا کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی کردار نظر نہیں آتا، ما سوائے اس دور کے اختتام پر آخری چند ماہ کے دوران۔ 1968 میں ایوبی آمریت کے خلاف طلبہ اور عوام کی عظیم جمہوری تحریک کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی۔ جمیعت نے راتوں رات روپ بدلہ اور سیاسی بن گئی۔
جمیعت نے طلبہ سیاست میں قدم رکھتے ہی طلبہ تحریک کو نام نہاد نظریاتی تقسیم کا شکار کرنا شروع کر دیا۔ آمریت کے خلاف بر سر پیکار سیاسی اور طلبہ راہنماوں کے خلاف اسلام دشمنی کے فتووں کی گونج سنائی دینے لگی۔ جماعت اسلامی اور اسکی بغل بچہ اسلامی جمیعت طلبہ نے مذہب کا سیاست میں استعمال کر کے عوامی جمہوری تحریک کو زک پہنچانے کے لئے حتی المقدور کوشش کی۔
تعلیمی اداروں میں جمیعت کا موثر عمل دخل جنرل یحییٰ کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی سر پرستی میں شروع ہوا۔ اسے ریاستی اداروں کی جانب سے مذہبی سیاسی تحریکوں کی پشت پناہی کا آغاز کہنا غلط نہ ھو گا۔ یہ یاد رہے کہ اس وقت جماعت اسلامی کے امیر میاں محمد طفیل مرحوم نے یحییٰ مارشل لا کو اسلام دوست حکومت کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کر دیا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی جمیعت طلبہ نے کراچی اور پنجاب کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دئے۔ پر امن تعلیمی ماحول پراگندہ ہونے لگا۔ چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے ڈنڈہ بردار جتھے دندناتے نظر آنے لگے، چاقو اور پستول کا کلچر پرورش پانے لگا۔ نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی یا یوں کہیے طالبانی اسلام کے بیج بوئے جانے کا آغاز ہوچکا تھا۔ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش، اندرون سندھ، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بوجوہ جمیعت کے قدم نہ جمنے پائے۔ ایک تو وہاں جماعت اسلامی کا سیاسی اور نظریاتی اثر نہ ہونے کے برابر تھا، دوسرا بنگالی، سندھی، پختون اور بلوچ قوم پرست تحریکوں کے ابھار نے اسلامی نظام کی نعرہ بازی کو پسپا کر دیا تھا۔
جنرل ضیا کا مارشل لا، جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلبہ کے لئے سونے پہ سہاگہ ثابت ہوا۔ بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے کے لئے جماعت اسلامی اور جمیعت طلبہ نے فوجی آمر ضیا کابڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے ساتھ دیا۔ یاد رہے جماعت اسلامی فوجی آمر ضیا کی حکومت کا حصہ بھی رہی۔ جنرل ضیا نے سیاسی اور طلبہ سرگرمیوں اور منتخب طلبہ یونینوں پر پابندیاں لگا دیں۔ مگر اسلامی جمیعت طلبہ نے ضیا مارشل لا کی سر پرستی میں آزادی سے تعلیمی اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا کام جاری رکھا۔ اس کے بر عکس ترقی پسند طلبہ تنظیموں پر نہ صرف پابندی لگائی گئی بلکہ ان کے راہنماوں کو گرفتار کر کے ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قید کی سزاوں کا حق دار ٹھہرایا گیا۔
افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے خلاف امریکی سرپرستی میں نام نہاد جہاد سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمیعت طلبہ کے وارے نیارے ہو گئے۔ کارکنوں کو مسلح جنگ کی تربیت، ڈالروں اور اسلحہ کی ریل پیل نے جماعت اسلامی اور جمیعت طلبہ کو طاقت کے نشے میں مخمور کر دیا۔ کس کی مجال تھی انکے آگے پر مار سکے۔ طالب علم، اساتذہ اور ا نتظامیہ جمیعت کی طاقت کے سامنے بھیگی بلی بنے نظر آتے تھے۔ تعلیمی اداروں خصوصا پنجاب یونیورسٹی کے ھاسٹلز نام نہاد جہادیوں کی پناہ گاہیں بن چکی تھیں۔
قصہ مختصر سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد جہادی گروہوں کی اہمیت ختم ہو گئی اور جہادیوں اور انکے حامیوں کو ڈالروں کی تھیلیاں ملنی بند ہو گئیں۔
نام نہاد جہاد کے منطقی نتیجے میں دہشت گرد افغانستان کی سرحدوں کو عبور کرکے پاکستان کے کونے کونے میں تباہی پھیلانے لگے۔ مذہب کے نام پر خودکش اور دہشت گرد حملوں میں ہزاروں معصوم پاکستانی عوام کو زندگیوں سے محروم ہونا پڑا۔ بلآخر پاکستانی عوام کے سامنے نام نہاد جہاد کا دہشت گرد چہرہ بے نقاب ہونے لگا۔ خودکش اور دہشت گرد حملوں کی گونج امریکہ اور یورپی شہروں میں بھی سنائی دینے لگی۔ اب دہشت گرد عفریت اتنا طاقتور ھو چکا تھا کہ اس نے اپنے خالق امریکہ اور پاکستان کو بھی للکارنا شروع کر دیا تھا۔
پاکستان میں حالات نے نیا موڑ لیا اور نام نہاد جہاد کی کھلی حمایت کرنا مشکل نطر آنے لگا۔ بن لادن کے علاوہ القاعدہ اور طالبان کے کئی سر کردہ دہشت گرد راہ ملک عدم ھوئے۔تین دھائیوں سے زیادہ عرصہ نام نہاد جہاد کے نام پر دہشت گردی کی مدد گار اور مدافعت کرنے والی جماعت اسلامی اور اسکی بغل بچہ اسلامی جمیعت طلبہ کا اصل چہرہ اب عوام میں بے نقاب ھو نے لگا تھا۔
اب اسلامی جمیعت طلبہ کو اپنی آخری پناہ گاہ پنجاب یونیورسٹی پر قبضہ بر قرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ جمیعت کی روایتی حریف ترقی پسند طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن تو منظر سے اوجھل ہو چکی ہے۔ مگر گذشتہ تین سال سے پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کو پختون اور بلوچ قوم پرست طلبہ کی شدید مزاحمت اور چیلنج کا سامنا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں قائم سندھی طلبہ کونسل، گلگت بلتستان طلبہ محاذ اور پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس نے بھی پختون اور بلوچ قوم پرست طلبہ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جمیعت کو پہلی بار پنجاب یونیورسٹی پر اپنا ناجائز قبضہ بر قرار رکھنے کے لئے سنجیدہ مزاحمت کا سامنا ہے۔
تقریبا چار دہایئوں کی نام نہاد جہادی سیاست کے بعد جماعت اسلامی عوام میں رہی سہی ساکھ بھی کھو چکی ہے۔ اسلامی جمیعت طلبہ سمٹ کر پنجاب یونیورسٹی تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ مگر جہاد کا ہینگ اوور ابھی تک نہیں اترا۔ پختون اور بلوچ طلبہ کی ثقافتی سرگرمیوں کو بزور طاقت روکنے پر جمیعت کو پہلی بار جوابی تشدد کا سامنا پرنا پڑا۔ قوم پرست طلبہ پر تشدد جہاں بین القومیتی نفرت بڑھانے کا سبب بنے گا وہاں جماعت اسلامی اور جمیعت طلبہ کو خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں اسکے نتائج بھی بھگتنا ہوں گے۔
اب حالات نیا موڑ اختیار کر چکے ہیں۔ ماضی کے بر عکس جماعت اور جمیعت کو بلوچ اور پختون طلبہ پر تشدد کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ جماعت اسلامی اور جمیعت کو یہ اعتراف کر لینا چاہے کہ وہ اب ریاستی اداروں کا واحد انتخاب نہیں رہے۔ اب مختلف نوع اقسام کے مذہبی اور غیر مذہبی اثاثے اور کٹھ پتلیاں معرض وجود میں آچکی ہیں جو ریاستی اداروں کے ایک اشارے پر ہر قسم کا ناچ ناچنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
♥