اسلم ملک
میں بارہ سال کا تھا اور ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا جب والد صاحب کا ایکسیڈنٹ ہوا ۔ وہ شہر میں چلنے والی ہائی ایس کے ڈرائیور تھے ۔ صبح منہ اندھیرے کام کے لیے گھر سے نکلتے تھے ۔ دو میل دور ایک احاطے میں کھڑی گاڑی تک پہنچنے کے لیے وہ پیدل جایا کرتے تھے ۔ پہلے وہ سائیکل پر جایا کرتے تھے پھر ایک دن کسی نشئی نے احاطے سے ان کی سائیکل چوری کر لی ۔ اس کے بعد وہ صبح سویرے پیدل ہی جایا کرتے تھے ۔ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دس بیس روپوں کی بچت کرنے کی خاطر ایسا کرتے تھے ۔
ایک دن ہم سکول جانے کی تیاری کر رہے تھے ۔ مجھ سے چھوٹا پانچویں میں پڑھتا تھا اور میں ساتویں میں ۔ پنڈی شہر کے نواح میں ہم ایک چھوٹے سے دو کمروں والے کرائے کے گھر میں رہتے تھے ۔ کہ اچانک دروازہ کھٹکھٹایا گیا امی نے باہر جا کر دیکھا تو ہمارے پڑوسی بابا بشیر تھے انہوں نے بتایا کہ ہمارے باپ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ۔ وہ ابھی احاطے میں پہنچے ہی نہیں تھے کہ ایک گاڑی نے انہیں ٹکر ماری اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ پاس کھڑے لوگوں نے انہیں مری روڈ پر واقع سول ہسپتال پہنچایا ۔
وہ زندہ تھے ۔ اس دن ہم سکول نہیں گئے ۔ چھوٹے کو اماں نے سکول بھیجا جو قریب ہی تھا ۔ دو سوزوکیاں بدل کر ہم صدر اور وہاں سے گاڑی میں بیٹھ کر ہم ہسپتال پہنچے ۔ بابا ہوش میں تھے انہوں نے ہمیں تسلی دی ۔ لیکن ڈاکٹر نے بتایا کہ کمر پر شدید چوٹ آئی ہے اس لیے کچھ دن ہسپتال میں رہنا پڑے گا ۔ پھر اماں ہر روز ہمیں سکول چھوڑ کر ہسپتال چلی جاتیں ۔ بیس دنوں بعد ڈاکٹروں نے کہا اب انہیں گھر لے جاؤ باقی کا علاج گھر میں ہی ہو گا ۔ بابا اس کے بعد پھر قدموں پر چل نہیں پائے ۔
اماں نے دو تین ماہ تو کسی نہ کسی طرح گزارے پھر ان کی ہمت جواب دے گئی ۔ گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی.۔ مگر وہ فاقے سارے کے سارے اماں نے اپنی جان پر جھیلے ہم تک نہیں پہنچنے دیے ۔ میں اب ساتویں جماعت سے آٹھویں میں آ چکا تھا ۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ اپنی کلاس میں مانیٹر تھا ۔ اماں گاؤں کی رہنے والی اور صرف پانچ جماعتیں پڑھی ہوئی تھیں۔ جب گھر کے یہ حالات ہو گئے تو انہوں نے محلے کی ایک عورت سے بات کی جو قریب کی ایک پوش آ بادی ہارلے سٹریٹ کی ایک کوٹھی میں کام کرتی تھی ۔ دو دن بعد وہ اماں کو بھی ساتھ لے گئی ۔ اماں کو ساتھ والی کوٹھی میں کام ملا تھا ۔
سارا دن انہیں وہاں کام کرنا پڑتا تھا ۔ بیگم صاحبہ نے چھ ہزار تنخواہ مقرر کی ۔ دوسرے دن اماں جب اپنے ساتھ گھر کا بچا ہوا کھانا لائیں تو گھر آ کر بہت روئیں۔ ہم خوشحال لوگ تو تھے نہیں مگر بابا اتنا کما لیتے تھے کہ ہمارا گزارا ہو جاتا ۔ اماں شام کو کام سے واپس آ کر آدھی رات تک بیڑیاں بنایا کرتیں جس سے وہ چند ہزار مزید کما لیتیں ۔ مگر اتنی مشقت کر کے بھی نہ بابا کی دوائیں پوری ہوتیں نہ گھر کا خرچہ چلتا ۔مجھے یاد ہے پہلی عید آئی تو چھوٹے نے نئے کپڑوں کی ضد کی میں سیانا تھا میں نے اماں سے کچھ نہیں مانگا ۔ اماں نے چھوٹے کو نئے کپڑے اور جوتے لا کر دیے ۔ جب دوسرے دن چھوٹا نئے کپڑے اور جوتے پہن کر اور میں پرانے کپڑوں اور جوتوں میں عید کی نماز پڑھنے گھر سے نکلے تو اماں بہت روئی تھی اور اسے دیکھ کر بابا بھی روپڑے تھے ۔
جوں توں کر کے میں نے اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کر لیا ۔ اب جس ملک میں سولا سولا جماعتیں پڑھے ہوے لوگ بے روزگار دھکے کھاتے ہوں وہاں مجھ غریب میٹرک پاس کو کوئی کیا پوچھتا ۔ اماں مجھے لے کر علاقے کے ایم پی اے کے پاس بھی کئی مرتبہ چکر لگا کر آئی ۔ درجہ چہارم کی نوکری کے لیے مگر مجھے نوکری نہ مل سکی ۔
بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہاں ہماری کوئی برادری اور ووٹ نہیں تھے ۔ چارپائی پر پڑھے ہوے معذور باپ اور لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی ماسی کے میٹرک پاس بیٹے کے لیے اس ریاست کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی ۔ چنانچہ پورا ایک سال بے کار دھکے کھانے کے بعد مجھے ایک ریسٹورنٹ پر نوکری مل گئی۔ یہاں سے مجھے دو وقت کی روٹی اور سات ہزار روپے ملنے شروع ہوئے ۔ گھروں میں ماسی کا کام کرنے والی میری پانچ جماعتیں پاس اور قرآن پڑھی ہوئی اماں کو چھ ہزار اور اس کے میٹرک پاس بیٹے کو سات ہزار ۔ ہم دونوں ماں بیٹے کی تنخواہوں اور بیڑیوں کی کمائی سے یہ ہوا کہ ہمارا گھر چل پڑا ۔ کھانا ہم اب بھی لوگوں کا بچا ہوا ہی کھاتے تھے ۔ اماں کوٹھی سے لے آتیں اور میں ریسٹورنٹ سے ۔
میں تھا تو میٹرک پاس مگر مجھے پڑھنے کا شوق تھا ۔ ریسٹورنٹ سے دن کا اخبار اٹھا کر گھر لے آتا تھا اور رات کو پڑھتا تھا آگے کالج میں پڑھنے کا میرا خواب تو ٹوٹ چکا تھا اب چھوٹے کو کالج میں پڑھانے کا ہمارا خواب تھا ۔ جو اب میٹرک میں تھا ۔ باقاعدگی سے اخبار پڑھنے کی وجہ سے میں سیاست کو سمجھنے لگا تھا ۔ ترقی پسند اور رجعت پسند اخبار نویسوں کی پہچان بھی ہونے لگی تھی ۔ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا مجھے زیادہ علم تو نہیں تھا مگر اتنا جان گیا تھا کہ دائیں بازو کے کالم نگار چاہتے تھے کہ سٹیٹس کو کا نظام چلتا رہے ۔
ہم لوگ مذہب پرست تھے میں سخت کام کے باوجود جمعہ پڑھنے جایا کرتا تھا ۔ قرآن ختم کر چکا تھا ۔ مگر سوچا کرتا کہ ان اخبار نویسوں اور مسجد کے مولوی جی کی تقریروں میں ایک جیسا بتایا جاتا ہے ۔ میں سوچا کرتا کہ میرا باپ اچھا علاج نہ ہونے کی وجہ سے مستقل معذور ہو گیا ۔ میری گھر سے بہت کم باہر نکلنے والی اماں اب ہر روز دوسروں کے گھروں کے برتن مانجھتی ہے ۔ میں اچھا خاصا قابل لڑکا میٹرک سے آگے پڑھ نہیں سکا ۔ اس میں خدا کی کیا مصلحت ہو سکتی ہے ؟۔ ہم جیسے سیدھے سادے لوگ روٹی کے دو نوالوں کو ترس رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جتنا ہم سارے مہینے شدید مشقت کر کے کماتے ہیں اتنا وہ ایک دن میں اڑا دیتے ہیں ۔ جتنی میرے مہینے کی تنخواہ ہے اتنا ہمارے ریسٹورنٹ میں آٹھ دس آدمی ایک وقت کا کھانا کھا کر بل میں دے دیتے ہیں ۔
ایسے نظام کو یقیناََ میرا سچا رب نہیں چلا رہا اسے میرے ریستوران کے مالک جیسے گھٹیا لوگ چلا رہے ہیں جو ہم سے گدھے کی طرح مشقت کرواتا ہے اور تنخواہ بڑھانے پر کہتا ہے اگر یہ منظور نہیں تو کام چھوڑ جاؤ تم میں سے ایک جائے گا تو ان پیسوں سے بھی کم میں راضی ہوکر دس دوسرے آ جائیں گے ۔ میں اخبار پڑھ پڑھ کر اتنا جان گیا ہوں کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں جمہوری نظام کامیابی سے چل رہا ہے جہاں میٹرک تک تعلیم مفت ہے ۔ علاج بھی تقریباً مفت ہے ۔ ایک دن کی مزدوری سے ہمارے خاندان جیسا خاندان ایک ہفتے کی روٹی کا انتظام کر لیتا ہے ۔ وہاں کوئی کسی کی بچی ہوئی روٹی نہیں کھاتا ۔ کوئی بچہ عید والے دن پرانے جوتے اور کپڑے پہن کر مسجد نہیں جاتا ۔
پھر ہم نے ایسا کونسا گناہ کر لیا ہے کہ زندگی ہم پر بوجھ بن چکی ہے ۔ میں ایک معمولی سا مزدور ہوں مگر اتنا جان چکا ہوں کہ مولوی صاحب جو پچھلے جمعہ کو واعظ کر رہے تھے کہ ہم اس لیے دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ ہم نے مذہب پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، یہ سچ نہیں ہے ۔ جتنا ہم پاکستانی مذہب پرست ہیں دنیا میں شاید ہی کوئی دوسرا ہو پھر بھی ہم دنیا میں سب سے پیچھے ہیں تو یہ میرے سچے مذہب کا قصور نہیں اس دنیا کے نظام کو چلانے والے حکمرانوں کا قصور ہے ۔ ہم کچھ نہیں چاہتے مگر اتنا کہ ہم بیمار ہوں تو ہمیں دوا مل جائے روز گار اور معاوضہ کم از کم اتنا کہ عید والے دن ہمارے بچوں کو پرانے جوتے اور کپڑے پہن کر عید نہ پڑھنا پڑھے۔
ہمارے بچے چھوٹے چھوٹے کھلونوں کو نہ ترسا کریں جیسے میں اور چھوٹا ترساکرتے تھے ۔ ہمارے ساتھ کوئی حادثہ کوئی ظلم ہو جاے تو ریاست ہمیں اپنے ارد گرد محسوس ہو ۔ ہم صرف جمہوریت چاہتے ہیں کسی بڑی کرسی والے صاحب کسی جج صاحب کسی جنرل صاحب کا ہم نے کیا بگاڑا ہے ۔ کم از کم ہمیں اتنا حق تو دیں کہ ہم اپنی مرضی سے وہ لوگ منتخب کر سکیں جنہیں ہمارے دکھوں دردوں کا علم ہو ۔ صاحب ان کروڑ پتی اور ارب پتی لوگوں کو کیا علم کہ ایک مزدور کے اوقات کتنے تلخ ہیں ۔
♦