عزیز از جان عمی بیٹا
بیٹا یہ خط کسی خاموش سی جگہ اکیلے بیٹھ کر غور سے پڑھنا لیکن خبردار اب اس کے لئے کسی مزار یا دربار میں نہ گھس جانا۔ تمہارے آغاجان نے تاکید کی ہے کہ خط پڑھ کر اس پر پوری طرح عمل کرو، ہمیں تمہاری بہت فکر ہو رہی ہے۔ تمہیں تو اپنے آغاجان کی طبیعت کا پتہ ہے وہ کتنی جلدی غصہ ہوجاتے ہیں۔ تمہارے باب میں تو وہ ویسے بھی بہت سخت گیر ثابت ہوئے ہیں۔ تمہارے اکثر فیصلوں کی تمہارے آغاجان نے مخالفت کی لیکن بسا اوقات تمہارا لگن دیکھ کر پدرانہ شفقت ان پر غالب آئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی تمہیں اجازت دی، لیکن صرف اجازت نہیں دی ہمیشہ تمہیں مشورہ بھی ساتھ دیا اور نصیحت بھی کی۔
تم نے جب میرے نام پر کینسر ہسپتال بنانے کا فیصلہ کیا تو مجھے دلی مسرت ہوئی کہ جس تکلیف سے میں گزری اور جس لاچارگی کے احساس کا تم شکار ہوئے، اور لوگوں کو اللہ اس سے محفوظ رکھے۔ دنیا کو پتہ ہو یا نہ ہو، تمہیں تو معلوم ہے کہ تمہارے آغاجان نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس لئے نہیں کہ انہیں کینسر کے مریضوں کی تکلیف کا احساس نہیں تھا بلکہ اس لئے کہ وہ بدنامی سے بہت ڈرتے ہیں۔ تب ہی تو ہسپتال کے سارے مالی معاملات تمہارے آغاجان نے اپنے ہاتھ میں لئے اور اس خوش اسلوبی سے سرانجام دئے کہ ایک پائی بھی ادھر سے ادھر نہ ہوئی۔
تمہارا سیاست میں آنا بھی تیرے انہیں اچھا نہیں لگا۔ سچ پوچھو تو کہوں کہ اس معاملے میں، میں بھی تمہارے آغاجان کے ساتھ متفق تھی۔ تیری خوشی کے لئے ہم دونوں نے یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لیا ورنہ اگر میری مرضی ہوتی تو تم سے کہتی، ‘بیٹا سیاست ویاست چھوڑو، ایسا کرو اس ملک کے بچوں کو تعلیم دو ، ان میں شعور و آگہی پیدا کرو، یہ لوگ خود ہی ڈھنگ کے حکمران تلاش کر لیں گے۔
جانِ مادر و پدر! مجھے معلوم ہے تم ہم سے کتنی محبت کرتے ہو، اللہ تعالی سے صبح و شام ہماری دعا ہے کہ ہر ماں باپ کو تیرے جیسا بیٹا عطا ہو۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب تمہیں اکیلا دیکھتی ہوں۔تمہاری عائلی زندگی کا سوچتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ تمہارے آغاجان نے بتایا کہ جمائما بہت اچھی عورت ہے۔ اس نے تمہارا بہت ساتھ دیا لیکن افسوس کہ تم دونوں کو علیحدہ ہونا پڑا۔ کاش کہ تم دونوں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالتے۔ اب دیکھو نا بچے بھی تم سے دور ہیں، ان کی موجودگی سے بہت فرق پڑتا ہے۔
تمہاری دوسری شادی کا فیصلہ تو بالکل غلط تھا۔ بغیر سوچے سمجھے بڑے سے بڑا قدم اٹھانے کی تیری عادت ویسی کی ویسی ہے۔ پتہ نہیں تم کب سدھرو گے۔ اللہ کرے کہ تمہارے وزیراعظم بننے کی تمنا پوری ہو لیکن ہمیں پریشانی لاحق رہتی ہے کہ وزیراعظم بن کر جلد بازی میں کوئی غلط اقدام نہ اٹھاو۔ اب یہ جو تم نے تیسری شادی رچائی ہے اللہ کرے بہتر ہو، لیکن ذرا سنبھل کر آگے بڑھو۔ بیوی کی بات سننا اچھی بات ہے لیکن جورو کا غلام مت بن کر رہ جانا۔ تمہیں یاد نہیں کہ تمہارے آغاجان میرا کتنا خیال رکھتے تھے لیکن کتنی دفعہ انہوں نے میری رائے سے اختلاف کیا اور خود فیصلے لئے جو بیشتر اوقات درست ثابت ہوئے۔
پتہ نہیں تمہیں کیا ہوگیا ہے میرے لعل۔ آنکھیں بند کرکے ہر ایک بات مانے جا رہے ہو۔ مانا کہ اولیاء کرام لائقِ تعظیم و تکریم ہیں لیکن ان کے در پر حاضری کے کچھ آداب اور قرینے ہوتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ تم نے تو اقبال کا مطالعہ کیا ہے، تم کیسے بھول سکتے ہو، حقیقی تصوف اور پیر پرستی میں فرق۔ میں تمہیں یاد دلاتی ہوں کہ اقبال نے کیا کہا تھا
یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
بیٹا اپنی خودی کی حفاظت کرو۔ مجھے معلوم ہے تم دل کے بہت اچھے ہو، ہر بات مان لیتے ہو لیکن اب تم ایک فرد نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کے امیدوں کا مرکز ہو۔ لوگ تمہیں دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں۔ نوجوانوں نے تو قسم کھائی ہے کہ تمہارے ہر غلط اور درست کام کا دفاع کریں گے۔ ایسا نہیں ہونا چائیے، ان کی تربیت تمہاری ذمہ داری ہے۔ اپنے آپ میں تنقید برداشت کرے کا مادہ پیدا کرو۔ احترام دل میں ہوتا ہے اس کے لئے کسی کی چوکھٹ پر جھکنا یا بوسہ دینا ہر گز ضروری نہیں۔
میں اور تیرے بابا یہاں خواجہ فرید کی خدمت میں حاضری دیتے رہتے ہیں۔ پرسوں ہم لوگ گئے تو میاں شریف سے بھی ادھر ملاقات ہوئی۔ وہ کلثوم نواز کے لئے دعا کی درخواست کر رہے تھے۔کلثوم سے یاد آیا کہ مجھے پتہ چلا ہے تم نے کلثوم نواز کے لئے پھول بھیجے ہیں، یہ تم نے بہت اچھا کام کیا ہے، شاباش میرا بیٹا۔ بابا فرید کی تعلیمات بھی یہ چوکھٹ پر بوسوں وغیرہ کے حق میں نہیں۔ آئندہ بہت احتیاط سے کام لو۔
تم نے اچھا کیا کہ وضاحت کردی، اچھا ہوگا کہ ایک دفعہ پھر صاف صاف بتا دو کہ سجدہ صرف اللہ کے سامنے کیا جاتا ہے، چاہے چوکھٹ کسی کی بھی ہو۔ تم نے تو صرف عقیدت کے اظہار کے لئے چوکھٹ پر بوسہ دیا ہے خدا نخواستہ کسی اور کو سجدے کا تو میرا بیٹا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھر بھی اگر لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو معافی مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ جو تمہاری نئی بیوی آئی ہے اس کو پروفیسر احمد رفیق اختر کے پاس لے جاؤ، پروفیسر صاحب کی تاثیر بھری گفتگو سنے گی تو سمجھ جائے گی کہ تصوف درحقیقت ہے کیا چیز ۔ تمہاری بہنیں تو اللہ سلامت رکھیں، تیرے ساتھ ہیں لیکن تم کہاں کسی کی سنتے ہو؟ بیٹا اپنی بہنوں سے مشورہ لیا کرو وہ تمہیں ہمیشہ اچھا مشورہ دیں گی۔ صحافت کے میدان میں تمہارے خیرخواہوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سارا پاکستان چاہتا ہے کہ تم اپنے وعدے پورے کرو اور پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر حقیقی جمہوری اور فلاحی ریاست بناو۔ صحافیوں کی تنقید کو مثبت لیا کرو۔
اپنے ورکرز کو بھی سمجھاو کہ خوامخواہ تمہیں تنہائی کا شکار نہ کریں۔ رؤف کلاسرا نے تمہیں کتنا سپورٹ کیا لیکن چند حق اور سچ پر مبنی جملوں سے تمہارے کارکن اتنے مشتعل ہوئے کہ بدتمیزی اور بدتہذیبی کا طوفان برپا کردیا۔ یہ شور عالم بالا تک بھی پہنچا اور یہاں کے مکینوں کو بھی گراں گزرا۔ تمہارے لئے ہمیشہ ڈٹ جانے والے تمہارے دیرینہ دوست ہارون رشید کو بھی تم سے گلہ ہے۔ یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ دوست اور دشمن کا فرق نہیں کرسکتے۔ ہارون سے مشورہ کیا کرو، حسن نثار اور دوسروں سے بھی اور مانا بھی کرو۔
میرے چندا ! یہ تم جو الیکٹیبلز کے چکر میں پڑے ہو یہ تمہیں بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان الیکٹیبلز میں سے بیشتر کا حال اِدھر بہت برا ہے۔ یہ تمہیں بھی کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ اب جو ہوا سو ہوا لیکن جتنا ممکن ہے مداوا کرو۔ باتیں اور بھی بہت ہیں لیکن مجھے تمہاری مصروفیت کا پتہ ہے اس لئے فی الحال مزید کچھ نہیں لکھنا چاہتی۔ الیکشن مہم پورے زور سے شروع کرو۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔
تمہاری ماں
از عامر گمریانی