فرحت قاضی
دہشت گردی کے خلاف کاروائی پر خرچ کی جانے والی رقم قبائلی علاقہ جات پر لگانے سے حسب ذیل دو مقاصد حاصل ہوسکتے تھے
دہشت گردی کا سدباب
اور علاقے کی تعمیر و ترقی
بے وقوف قتل
اور ہوشیار کام لیتا ہے
ایک لڑکا چوری کی نیت سے قدم بڑھاتا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے رفتہ رفتہ عادت پڑجاتی ہے وقت گزرنے پر تین ساتھی بنالیتا ہے چاروں ساتھ بیٹھ کر واردات کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں دو چار وارداتوں میں یہ اپنی اہلیت ثابت کرتا ہے تو تینوں اسے اپنا لیڈر تسلیم کرلیتے ہیں چوریوں کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو تمام ساتھی اس کی ذہانت اور منصوبہ سازی کے قائل ہوجاتے ہیں چنانچہ اب وہ منصوبہ بناتا ہے اور سب ملکر اس پر عمل در آمد کرتے ہیں
اسی طرح اپنی تعلیم مکمل کرنے پر ایک نوجوان کو کارخانے میں ملازمت مل جاتی ہے اپنی دو چار برس کی ملازمت کے دوران مالک اور افسران کو اس کی قابلیت کا احساس ہوجاتا ہے اس کی ترقی ہوتی ہے اور ماہانہ اجرت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اسی کارخانے کی کالونی میں مکان بھی الاٹ ہو جاتا ہے جوں جوں وقت گزرتا ہے اس کی قابلیت اور ذہانت کے قائل افراد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے
ان دونوں نوجوانوں نے اپنے اپنے شعبے میں اپنی ذہانت کا اظہار کیا انہوں نے لوگوں پر ثابت کردیا کہ وہ بہترین منصوبہ ساز اور قیادت کے اہل ہیں البتہ اولالذکر نے جو راستہ اپنایا اسے ملک کے قانون اور مروجہ مذہب کی رو سے غلط گردانا جاتا ہے چوروں کے سرغنہ کا اپنا طبقہ، معاشی اور سماجی حالات تھے اس نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا سکول کا رخ نہیں کیا اسے ایک پلیٹ فارم ملا تو اپنی ذہانت کا لوہا منوالیا
جن ملکوں میں آئے روز روزگار کے نت نئے ذرائع پیدا کئے جاتے ہیں وہاں پر زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اپنے شعبے میں اپنی ذہانت کے اظہار کے مواقع ہاتھ آتے ہیں جس کا ان کے خاندان اور ملک کو بھی فائدہ پہنچتا ہے مگر تیسری دنیا کے ممالک میں صورت حال اس سے قدرے مختلف ہے اور جہاں پر روزگار کے مواقع سکڑ چکے یا کم ہورہے ہیں وہاں کے نوجوان غیرقانونی کاروبار اور جرائم کی جانب راغب ہورہے ہیں
پاکستان کا شمار ان ریاستوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں ریاستی ادارے مفلوج اور کرپٹ ہوچکے ہیں غربت اور وسائل کے فقدان کے باعث کئی ایک خاندان اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں کی بجائے کسی روزگار پر لگا دیتے ہیں حالات ان کو رفتہ رفتہ سماجی برائیوں کی جانب کھینچ رہے ہیں ان میں تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہوتے جارہے ہیں
حکومت، پولیس ،مذہبی پیشوا اور عام شہری ان کو براانسان خیال کرتے ہیں پولیس اور اس نوعیت کے دیگر اداروں کے افسران اور اہلکار ان کی تلاش اور جستجو میں رہتے ہیں اور ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو میڈیا پر تصاویر کے ساتھ خبر چھپ جاتی ہے گرفتار کرنے والوں کو تعریفی اسناد اور نقد رقوم سے نوازا جاتا ہے یہ اہلکار حکومت اور عام شہری کی نگاہوں میں ہیرو بن جاتے ہیں اورمجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے *
پاکستان میں جوں جوں وقت آگے اور آگے کی طرف سرک رہا ہے جرائم کی شرح میں اسی رفتار سے اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے اور پولیس کی طلب بھی بڑھ گئی ہے چنانچہ جیل خانہ جات اور جدید سہولیات سے آراستہ تھانہ جات کی مانگ میں بھی بڑھوتری وقت کا تقاضہ بنتا جارہا ہے جیلوں میں زیادہ سے زیادہ قیدیوں کو کھپانے کے خلاف شکایات بھی عام ہیں
جب ایک ملک ترقی معکوس پر عمل پیرا ہو کسی شعبہ حیات میں پیش رفت نہیں ہورہی ہو توبے روزگاروں کی کھیپ میں اضافہ فطری عمل بن جاتا ہے اور ان بے روزگاروں میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہونے لگتے ہیں تو صورت حال مزید گھمبیر ہوجاتی ہے اس کے ساتھ ہی جن افراد کو سماج میں ابھی تک برا سمجھا جاتا تھا ان کے حوالے سے خیالات میں تبدیلی آجاتی ہے اور تعلیم یافتہ افراد تو اس صورت حال کے لئے حکومت اور ارباب اختیار کو ذمہ دار ٹھہراتے ہی ہیں مگر اب ناخواندہ افراد بھی روزگار کے فقدان اور پالیسیوں پر تنقید کرنے لگتے ہیں چنانچہ برا اور برائی کے حوالے سے قدیم تصورات میں دراڑ پڑجاتی ہے
ماہرین معاشیات،پروفیسر،دانشور،سیاستدان اور صحافی نئے نئے تھانوں کی تعمیراور جیل خانہ جات، پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کی جدید خطوط پر تربیت پر پہلے جیسا زور نہیں دیتے ہیں بلکہ ترقی اور روزگار کے نئے اور زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کا مشورہ دینے لگتے ہیں چنانچہ برے تو پھر بھی برے ہی رہتے ہیں مگر کڑی اور عبرت ناک سزاؤں کی وکالت کرنے والوں کی تعداد گھٹ جاتی ہے ترقی یافتہ ممالک میں اسی لئے سخت سزاؤں کا تصور ماند پڑ گیا ہے اور وہاں اب کہا جاتا ہے کہ ایک بے گناہ کو سزا سے بچانے کے لئے دس قصور واروں کو معاف کردینا چاہئے
انسانوں کو براور اچھا میں تقسیم کرنے کا تصور ہمیں قدیم معاشرے سے وراثت میں ملا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب ریاستی اداروں کا کردار زیادہ واضح نہیں تھا انسان ٹکڑیوں میں بٹا ہوا تھا چھوٹی اور مختصر آبادیاں ہوا کرتی تھیں لہٰذا اس زمانے میں کڑی اور عبرت ناک سزاکی وکالت میں وزن پایا جاتا تھا ان معاشروں میں انسان کے ذاتی اخلاق پر زور بھی دیا جاتا تھا مگر آبادی میں اضافے اورصنعتی دور میں داخل ہونے پر صورت حال بدل گئی ہے جبکہ تعلیم اور خواندگی کی شرح میں بڑھوتری اور ریاستی اداروں کی اہمیت اختیار کرنے سے اب ان ہی کو زیادہ تر ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور انسانی اخلاق اور نیکو کاری ضمنی چیزیں بن کر رہ گئی ہیں اہل دانش نے سماجی ترقی اور انسانی اخلاق کے باہمی تعلق اور رشتے کو پالیا ہے وہ جان گیا ہے کہ معاشی، سماجی حالات اور تعلیم ایک انسان میں شائستگی پیدا کرتے ہیں اور عام شہری اپنے مخصوص حالات سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں لہٰذا معاشرے کو انسانی بنانے سے ہم ایک مثالی معاشرے کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچا سکتے ہیں
اس خیال کے ثبوت میں سوویت روس اور چین کی مثال پیش کی جاسکتی ہے ان ریاستوں میں انقلابات کے ساتھ عام شہریوں کی ضروریات پوری ہوگئیں تو سماجی برائیوں میں بھی کمی آئی اور بڑے جرائم کا تو ایک طرح سے کلی سدباب ہوگیا تھا جو معاشرے اور ممالک روبہ ترقی ہیں جہاں پر نوجوانوں کو تعلیم سے فراغت پاتے ہی روزگار مل جاتا ہے اور ہر سال اجرت میں اضافہ اور ترقی ہوتی ہے تو وہاں جرائم کی شرح بھی گھٹ جاتی ہے چنانچہ ان ممالک کے ارکان پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں کو بڑی سے بڑی اور جدید سے جدید ترین جیل خانہ جات اور پولیس کو جدید اسلحہ کی تربیت دینے اور مذہبی پیشواؤں کی طرف سے شہریوں کی اخلاقی تعلیم پر زور دینے کی ضرورت نہیں رہتی ہے بلکہ وہ جرائم پیشہ افراد کی خفتہ صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں
یہاں ایک دو مثالیں پیش خدمت ہیں
گریٹ ٹرین رابری ہالی ووڈ کی ایک زمانے کی مشہور فلم ہے امریکہ میں چوروں نے ایک ایسے بینک کو لوٹ لیا تھا جس کے بارے میں ملکی ماہرین کاگمان تھا کہ اس سے چوری کرنا ناممکن ہے مگر چند ذہین چوروں نے اس ناممکن کو ممکن کردکھایا تو ماہرین سمیت تمام امریکہ انگشت بدنداں رہ گیا بالآخر یہ جاننے کا فیصلہ کیا گیا کہ چوروں نے اسے کیسے لوٹا ان کو یہ ضمانت دی گئی کہ ان سے پیسہ لیا جائے گا اور نہ ہی قانونی کاروائی ہوگی بعد ازاں اس پر یہ فلم بنائی گئی
اسی طرح کا ایک واقعہ جرمنی کے ایک علاقہ میں پیش آیا اس ملک میں کئی برس روزگار کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ ایک کمیونٹی کے بازار کے قریب دو پاکستانی دوست رہائش پذیر تھے وہ کھانے پینے کی اشیاء خصوصاً مشروبات بلا معاوضہ استعمال کرتے رہے جو افراد مشینوں کو آئس کریم اور بوتل فراہم کرتے تھے ان کو شک گزرا کہ رقم اشیاء کے مطابق نہیں ہوتی ہے بالآخر انہوں نے انعام کا اعلان کیا تو ان دونوں ساتھیوں نے بتایا کہ انہوں نے سکہ کو دھاگے سے باندھا ہوا تھا اور بوتل یا ڈبے کے نیچے آنے پر وہ واپس اوپر کی جانب کھینچ لیتے تھے
انسانوں کو اچھے اور برے میں تقسیم کرنے والے مکتبہ فکر کے ہاتھ اگر یہ دوساتھی لگ جاتے تو وہ ان کو یقیناًعبرت ناک سزا دیتے اور ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے اپنی فلسفے کی سچائی کا دعویٰ بھی اسی یقین کے ساتھ کرتے اگرچہ سماجی برائی اور غیر قانونی فعل کے مرتکب یقیناًسزا کے مستحق ہوتے ہیں تاہم ترقی یافتہ ریاستوں کے ارباب اختیار سزا سے زیادہ مسئلے کا حل نکالنے پر سر کھپاتے ہیں وہ متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کو وجوہات کی جستجو اور تلاش کرنے پر لگادیتے ہیں چنانچہ مسئلے کا حل بھی ہاتھ آجاتا ہے اور ان افراد کی ذہانت سے بھی مستفید ہوجاتے ہیں انگریزی میں ان افراد کے لئے ایول جینئس کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
ہماری حکومت، ارکان پارلیمنٹ، محکمہ پولیس ، قانون سازاور سیکورٹی اداروں کو بڑی سے بڑی اور جدید سے جدید ترین جیل خانہ جات اور ہر قسم کی جدید سہولیات سے آراستہ تھانہ جات اور کسی حد تک عدالتوں کے لئے نئی نئی عمارات کے تعمیر کی ضرورت کم پڑجائے گی اگروہ انسانوں کو اچھے اور برے کی تقسیم سے نکال کر ان کی ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ دینا شروع کردیں اور ان افراد کو کڑی سزائیں دینے کی بجائے ان کی خفتہ صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی جانب اپنی توجہ مرکوز اور مبذول کریں
اچھا برا اور برا اچھا میں بدل جاتا ہے
ایک ڈاکو بینک میں ڈاکہ زنی کی نیت سے داخل ہوتا ہے بینک اہلکار مزاحمت کرتے ہیں تو وہ ان میں سے ایک کو قتل کردیتا ہے پولیس اہلکار باہر ہاتھ میں بندوق تھامے انتظار کررہا ہے ڈاکو نکلتا ہے تو وہ اسے ہتھیار رکھنے کا حکم دیتا ہے مگر وہ فائر کردیتا ہے اہلکار جان بچالیتا ہے اور جوابی فائر میں ڈاکو مارا جاتا ہے
دونوں میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے
ڈاکو نے بینکر کو قتل کردیا اور پولیس اہلکار نے ڈاکو کو موت کے گھاٹ اتاردیا
ان میں واضح فرق بھی پایا جاتا ہے ڈاکو حکومت اور عوام کا پیسہ لوٹنا چاہتا تھا اور مارا گیا اور پولیس اہلکار حکومت اور عوام کا پیسہ اور جان بچاتے ہوئے زخمی ہوگیا البتہ بعد ازاں ہسپتال میں زخمیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا
یہی اشتراک اور اختلاف ڈاکو اور مالک میں بھی پایا جاتا ہے
ڈاکو قتل اپنے اور ساتھیوں کے بچاؤ کے لئے کرتا ہے وہ اسی طرح پیسہ بھی اپنے اور ساتھی ڈاکوؤں کے لئے حاصل کرتا ہے البتہ مالک دیہہ یا شہری باشندوں کو اپنے کھیت یا کارخانے میں کام پر لگادیتا ہے کھیت اور کارخانہ مزدور اپنی محنت سے کچھ پیدا کرتے ہیں جو وہ فروخت کرنے پر پیسہ مالک کو پکڑا دیتے ہیں وہ اس پیسہ سے ان کو ماہانہ اجرت دیتا ہے حکومت کو ٹیکس ادا کرتا ہے جو سکول اور ہسپتال تعمیر کرتی ہے جہاں محنت کشوں اور ان کے بچوں کو طبی اور تعلیمی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں
ڈاکو اور مالک میں جہاں واضح فرق پایا جاتا ہے کہ ایک قانون توڑتا اور دوسرا بناتا ہے ایک قانون سازی کرتا اور دوسرا اس کی دھجیاں اڑا دیتا ہے وہاں یہ اشتراک بھی پایا جاتا ہے کہ ڈاکو پستول کی چھ گولیوں سے انسان کا کام تمام کردیتا ہے تو مالک اسی انسان کو قانون اور اخلاق کے دائرے میں آہستہ آہستہ اور اقساط میں ترسا ترسا کرموت کی نیند سلا دیتا ہے اور اس جرم میں ریاست کی تمام مشینری اس کی شریک کار ہوتی ہے
محنت کش کا ماہانہ معاوضہ نہایت قلیل ہوتاہے وہ اپنی، اہلیہ اور بچوں کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ان کو صحت بخش خوراک بیماری کی صورت میں معیاری علاج اور ادویات ،ہسپتال لے جانے اور لانے کے لئے ایمبولینس کے اخراجات، بچوں کے لئے کتابیں، ماہانہ فیس اور یونیفارم خریدنے سے قاصر ہوتاہے وہ اپنی اور اہل خانہ کی ضروریات اور خواہشات پوری نہیں کرسکتا ہے بلکہ ہر ہر چیز کے لئے وہ، اس کی بیوی اور بچے ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں اور اس طرح وہ قسطوں میں زندگی کا قرض اتارتے اتارتے قبر میں اتر جاتا ہے
ڈاکو اور مالک دونوں عوام کے مجرم ہیں تاہم ڈاکو پیداوار کے سماجی عمل میں شریک نہیں ہوتا ہے البتہ مالک منتظم بن کر یہ عمل محنت کشوں سے کرواتا ہے اور اگر فلاحی ریاست ہو تو پھر مالک کے ساتھ عام محنت کش شہری کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے
مالک محنت کشوں کی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کے واسطے ایک ظالم اور بے رحم مالک سے اچھا مالک بن سکتا ہے تو یہی ڈاکو سلطانہ ہوکر ہند کے باشندوں کو انگریز سے لوٹا ہوا مال پکڑا دیتا ہے یازوروبن جاتا ہے دولت مندوں سے پیسہ لے کر غریب آبادی سے تعاون کرتا ہے تو پھر برا ڈاکو نہیں رہتا ہے جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں ہزاروں سندھی نوجوانوں کو تہ تیغ کیا گیا وہ بینکوں میں ڈاکہ ڈال کر لوٹ لیتے میڈیا ان کو ڈاکو لکھنے لگی تو انور شعورنے اپنے دو مصرعوں پر مشتمل نظم میں ان کو عوام کی آنکھوں کے تارے بنادیا تھا
مالکان کو محنت کشوں کے استحصال کے باعث برا سمجھا جاتا ہے اوروہ اس فہرست سے خود کو نکالنا چاہتے ہیں تو مروجہ سماجی اخلاق اس حوالے سے ان کو سہارا دیتا ہے چنانچہ وہ ان کی شادی اور فوتگی کی تقریبات میں شرکت کرتا ہے ضرورت کے وقت ہاتھ بٹاتا ہے بیوہ کی معاشی معاونت کرتا ہے یتیم کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے خیراتی ادارے قائم کرتا ہے گو کہ ان اقدامات سے نظام میں تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی محنت کش کے دن بدلتے ہیں ان کی محتاجی اور بے بسی برقرار رہتی ہے تاہم عوام کی نظروں میں اس کے داغ دھبے کسی حد تک دھل جاتے ہیں اور اسے اچھا انسان سمجھا جانے لگتا ہے یہ امتیاز تو اس وقت واقعی مٹ جاتا ہے جب ایک ملک کے محنت کش مالکان سے ان کی جائیداد اور کارخانہ قبضہ کرکے ذاتی سے اجتماعی ملکیت میں بدل دیتے ہیں