پاکستان میں الیکشن سے قبل آزادی اظہارِرائے پر بڑھتی ہوئی سختیوں اور پابندیوں پر انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہارکیا ہے۔ ’پیمرا نادیدہ قوتوں کے اشاروں پر ذرائع ابلاغ کی آزادی کو محدود کرتی جارہی ہے‘۔
پیمرا نے حال ہی میں جاری کردہ ایک انتباہ میں کہا ہے کہ ذرائع ابلاغ ایسے انٹرویوز یا تقریریں نشر کرنے سے گریز کرے، جس میں ملکی اداروں یعنی فوج اور عدلیہ کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی جاتی ہو۔
ملک میں ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پیمرا سزا یافتہ افراد کے اشتہارات اور ان کی کوریج پر بھی پابندی لگانے کا سوچ رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے پیمرا حکام سے اس بات کی تصدیق کے لیے متعدد بار رابطہ کیا لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا۔
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے خیال میں پیمرا نادیدہ قوتوں کے اشاروں پر ذرائع ابلاغ کی آزادی کو محدود کرتی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں ذرائع ابلاغ کے لیے موجودہ ماحول مارشل لاء کے ماحول سے بھی بد تر ہے۔
اسد بٹ کا کہنا ہے، ’’مارشل لاکے دوران تو ہر چیز کھل کر کی جاتی تھی۔ مارشل لاء حکام کی طرف سے احکامات اور مشورے آتے تھے۔ جن پر اخبارات کو عمل کرنا پڑتا تھا ۔ اب تو ملک میں جمہوریت ہے لیکن پہلے جیو کو نشانہ بنایا گیا اور اب ڈان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بلوچی زبان کے اخبارات اور رسائل کو بھی ہدف بنایا گیا ہے‘‘۔
پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ ذرائع ابلاغ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ نون لیگ کی انتخابی مہم کو محدود کیا جائے اور پی ٹی آئی کو زیادہ سے زیادہ جگہ دی جائے۔ اسد بٹ بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے۔ اسد بٹ کے خیال میں اس کی وجہ نون لیگ کی فوج مخالف سرگرمیاں ہیں۔
اسد بٹ کے بقول، ’’یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی لیڈر پنجاب سے اٹھ کر ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بول رہا ہے۔ اور یہ وردی والوں کو پسند نہیں ہے۔ اسی لیے وہ نون لیگ کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور تنہا کرنے کا ایک اہم ذریعہ میڈیا ہے، جو وہ نون لیگ کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دہشت گرد تنظیموں کے ارکان تو الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ آزادانہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور ان کی میڈیا پر کوریج پر کوئی پابندی نہیں جبکہ حقیقی سیاسی جماعتوں کی کوریج پر پابندی عائد ہے۔
معروف تجزیہ نگار ڈاکٹرتوصیف احمد بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ پر بڑھتی ہوئی پابندیاں بنیادی طور پر کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانے اور کسی دوسری کو نقصان پہنچانے کے لیے لگائی جارہی ہیں۔
توصیف احمد نے کہا، ’’ایسا لگتا ہے کہ ریاستی ادارے نون لیگ اور نواز شریف کے بیانیے کو ہر صورت میں روکنا چاہتے ہیں۔ ابھی دیکھیں کہ اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے نواز شریف کا انٹرویو کیا تھا اور بعض نا گزیر وجوہات کی بنا پر وہ نہیں چل سکا۔ نواز شریف نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے بیانیے کو فروغ دیا، جس کو کچھ عوامی حلقوں میں پذیرائی بھی ملی اور یہ بات نادیدہ قوتوں کو پسند نہیں ہے۔ اس لیے ذرائع ابلاغ کے لیے سختیاں بڑھتی جارہی ہیں‘‘۔
لیکن پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ سے وابستہ محمد ریاض کے خیال میں ان پابندیوں کی ایک وجہ صحافتی برادری میں دھڑے بندیاں بھی ہیں۔ ان کے خیال میں اگر صحافی متحد ہو کر اس صورتِ حال کو چیلنج کریں، تو پابندیاں لگانے والوں کے لیے مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔
محمد ریاض کے مطابق، ’’یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ ذرائع ابلاغ اور آزادی اظہار رائے پر پابندیاں دن بہ دن بڑھتی جارہی ہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ کئی صحافیوں نے اپنے اوپر سلف سینسر شپ لگالی ہے۔ ڈان کے خلاف جو کارروائی ہوئی، ہم نے ملک بھر میں اس پر احتجاج کیا لیکن جب تک صحافی متحد نہیں ہوں گے۔ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا‘‘۔
DW/News Desk
♥