چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس دعوے، کہ ملک کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے، کی دھجیاں اس وقت بکھر کر رہ گئیں جب دہشت گردوں نے بلوچستان کے علاقے مستونگ میں انتخابی جلسے پر خود کش حملہ کیا گیا۔ اس خود کش حملے کے نتیجے میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت کم از کم 128 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پشاور میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی ہے جبکہ مستونگ میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ یاد رہے کہ پاک فوج پچھلی کئی دہائیوں سے پشاور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف کئی آپریشن کر چکی ہے اور ہر دفعہ دہشت گردوں کو ختم کرنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔اسی طرح بلوچستان تقریباً دو دہائیوں سے پاک فوج کے حصار میں ہے جہاں اس کی مرضی کے بغیر کوئی جا بھی نہیں سکتا۔
سانحے میں زخمی ہونے والوں میں سے 70 کے قریب افراد سول ہسپتال کوئٹہ میں زیر علاج ہیں جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔
ان حملوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیاں اپنے ہی عوام کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں جبکہ جگہ جگہ چیک پوسٹیں عوام کو ذلیل کرنے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔
سوشل میڈیا میں ایک صحافی نے لکھا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں 2013 سے اب تک 50 سے زائد خودکش حملے ہو چکے ہیں . اگر فوج اور حکومت مل کر بھی بلوچوں کی زندگی کی حفاظت نہیں کرسکتی تو بہتر ہے کہ بلوچستان کو آزادی دے دی جائے۔ کون کب تک اپنے پیاروں کے جان کے نذرانے دے دے کر آپ کے وعدوں پر اعتبار کرےگا۔ انتخابات ہوں یا ایک عام گذرتا دن بلوچستان غیرمحفوظ ہے۔ آخر بلوچستان سے یہ سوتیلا سلوک کیوں؟۔
سوشل میڈیا پر نواب خیر بخش مری کا یہ قول بھی گردش کر رہا ہے ’’آپ دشمن پہ وار کریں یا نہ کریں، دشمن آپ کو مارے گا‘‘۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے اس سانحے پر دو روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے قومی پرچم سرنگوں ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے اس سانحہ پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
ادھر امریکہ نے پاکستان میں انتخابی امیدواروں پر پختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والےحالیہ حملوں کی مذمت کی ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ حملے پاکستانی عوام کو ان کے جمہوری حقوق سے دور رکھنے کی بزدلانہ کوشش ہے۔
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکہ متاثرین کے لواحقین کے سوگ میں ان کے ساتھ ہے اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی امید کرتا ہے۔ بیان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ پاکستان عوام کے ساتھ ہے۔
مستونگ دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کا سلسلہ گذشتہ رات سے درینگڑھ اور قرب و جوار کے علاقوں میں شروع کیا گیا تھا تاہم زیادہ تر افراد کی تدفین ہفتے کو ہو گی۔
یہ حملہ مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں ایک انتخابی جلسے کے دوران ہوا جس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما اور بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 35 مستونگ سے پارٹی کے امیدوار نوابزادہ میر سراج رئیسانی کو نشانہ بنایا گیا۔
سراج رئیسانی بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور چیف آف جھالاوان نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے اور اسی نشست سے وہ بلوچستان عوامی پارٹی کی ٹکٹ پر اپنے ہی بھائی نواب اسلم رئیسانی کے مقابلے میں انتخاب لڑ رہے تھے۔
اس واقعے کی جو ویڈیو سامنے آئی اس میں یہ نظر آتا ہے کہ نواب زادہ سراج رئیسانی کے خطاب کے آغاز کے ساتھ ہی دھماکہ ہوتا ہے۔
جب سٹیج سیکریٹری نوابزادہ سراج رئیسانی کو خطاب کے لیے بلاتا ہے تو لوگ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ نوابزادہ سراج رئیسانی کے خطاب کے آغاز کے 15 سے 20 سیکنڈ کے بعد دھماکہ ہوتا ہے۔
دھماکے سے قبل براہوی زبان میں وہ صرف اتنا بول سکے کہ ’بلوچستان کے بہادر لوگو‘۔
عینی شاہدین نے سول ہسپتال کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ اس جلسے کی مناسبت سے سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہیں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کی تعداد نوجوانوں کی تھی۔
اس حملے میں متعدد دیگر قبائلی عمائدین کی بھی ہلاکت ہوئی ہے تاہم ابھی تک ان کی شناخت کے بارے میں بتایا نہیں گیا ہے۔
بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق درینگڑھ میں انتخابی جلسے پر ہونے والا حملہ خود کش تھا جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔
نوابزادہ سراج رئیسانی کے خاندان کو بلوچستان کے قبائلی اور سیاسی سیٹ اپ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد انھوں نے اپنے بڑے بھائیوں کے موقف کے برعکس سیکورٹی فورسز کا بھرپور انداز سے ساتھ دیا تھا۔
انھوں نے اس مقصد کے لیے بلوچستان متحدہ محاذ کے نام سے تنظیم کو فعال کیا تھا ۔تاہم چند ہفتے قبل اس تنظیم کو بلوچستان کی سطح پر قائم ہونے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں ضم کر دیا گیا تھا۔
نوابزادہ سراج رئیسانی کو سنہ 2011 میں بھی مستونگ میں 14 اگست کی مناسبت سے ایک تقریب کے دوران بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے تھے تاہم اس میں ان کے بڑے بیٹے میر حقمل رئیسانی سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سنہ 2011 میں ہونے والے بم حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔
اپنے ایک بیان میں بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ نے کہا ‘دہشت گردی کی جنگ میں اپنے جوان سال بیٹے کی قربانی دینے کے باوجود انھوں نے کبھی دہشت گردوں سے ہار نہیں مانی، دہشت گردی کے خلاف اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے اور بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کی بھرپور مخالفت کرتے رہے‘۔
سوشل میڈیا پر اس حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی شدید تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ پنجابی میڈیا نے اس نے دھماکے کو کوریج نہ دی۔
صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ آج کی خبر نواز شریف کی آمد کے بجائے مستونگ کا افسوس ناک واقعہ تھا جہاں ایک خودکش حملے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ ‘پنجابی میڈیا‘ نے بلوچوں کی ہلاکتوں کو اس لیے نظر انداز کیا کیوں کہ انہیں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اشتہارات سے بہت زیادہ مالی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو آج کے دن متوازن کوریج کرنی چاہیے تھی۔
DW/News Desk