طارق احمدمرزا
امریکہ اور شمالی کوریا کے سربراہان مملکت کی حالیہ تاریخی ملاقات اوران کے باہمی مصافحہ کے حوالے سے بی بی سی اردو نے12 جون 2018کی آن لائن اشاعت میں ایسے دس مصافحوں کی تصاویر شائع کی ہیں جو تاریخی نوعیت کی ہیں۔ان میں کاسترواوراوباما،عرفات اور رابن،تھیچراورمنڈیلا،ماؤاورنکسن وغیرہ کے باہمی مصافحے شامل ہیں۔(1)۔
آج ایک ایسے ہی تاریخی مصافحے کی تصویر اور اس کاپس منظر قارئین کی خدمت میں پیش ہے جو بی بی سی کی شائع شدہ دس تاریخی مصافحوں کی فہرست کے بعددنیا کا گیارھواں تاریخی مصافحہ قراردیئے جانے کے لائق ہے۔ یہ مصافحہ مشرف دور کے پاکستانی وزیرخارجہ خورشیدمحمود قصوری اور اسرائیلی وزیر خارجہ سِلوَن شیلوم نے آپس میں کیا تھا۔
ویسے تو ان دونوں ممالک کے نمائندگان اس سے قبل عالمی سطح کی میٹنگوں کانفرنسوں وغیرہ اور اقوام متحدہ کی عمارت کی راہداریوں میں آمناسامنا ہونے پر اخلاقاً ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہی رہے تھے ،اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنیکل اورسیکیورٹی وغیرہ سے متعلق تبادلہ معلومات ساٹھ ستر برسوں سے متواتر ایک حد تک ہوتاہی رہتا تھا لیکن زیرتذکرہ مصافحہ کو خاص تاریخی اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ یہ مصافحہ دونوں ممالک کے مابین پہلے باضابطہ رسمی رابطہ کے بعدبین الاقوامی میڈیاکے سامنے ایک مشترکہ پریس کانفرنس اور فوٹو سیشن کا اہتمام کرکے کیا گیا تھا ۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی روزاول کی خواہش کے باوجودپاکستان اسرائیل کو بطور ایک مملکت تسلیم کرنے سے گریزاں رہا ہے ۔اس کا پاسپورٹ دنیا کے تمام ممالک کے لئے کارآمد ہے سوائے اسرائیل کے۔
یہ ملاقات یکم ستمبر سنہ 2005 میں برادر اسلامی ملک ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی۔واضح رہے کہ ترکی سنہ 1954 میں اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا اسلامی ملک ہے۔
اسرائیلی اخبارحا اَرِضکی اشاعت 2 ستمبر 2005کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور مسلح افواج کے کمانڈران چیف جنرل سید پرویز مشرف نے ،جو ہمیشہ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خواہاں رہے ہیں، برادر اسلامی ملک ترکی کے ہردلعزیزوزیراعظم(موجودہ صدر) محترم طیب اوردوآن سے اس خواہش کا اظہار کیاکہ وہ اسرائیل اور پاکستان کے وزراء خارجہ کی ملاقات کا اہتمام کروائیں کیونکہ ان کے ہر دو ممالک کے ساتھ انتہائی گہرے اور دیرینہ تعلقات ہیں۔ صدر اردوآن نے اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون کو فون کرکے جنرل مشرف کا پیغام پہنچایاجسے فوراًمنظور کرلیا گیا۔اگلے ہی روزاسرائیلی وزیرخارجہ چوٹی کے دو اہلکاروں سمیت استنبول پہنچ گئے جہاں انہوں نے دریائے باسفورس کے کنارے واقع فورسیزن ہوٹل میں پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور میزبان ملک ترکی کے نمائندوں کے ساتھ رات کا کھانااکھٹے کھایا۔
عشائیہ کے بعد دونوں وزراء خارجہ کے درمیان کھلی فضا میں تبادلۂ خیالات کاسلسلہ شروع ہوا جو آدھی رات تک جاری رہا۔
اخبار کے مطابق قصوری نے کہا کہ پاکستانی حکومت کا یہ مسئلہ ہے کہ پاکستانی عوام پر مذہبی پارٹیوں کا بہت اثر ہے اور وہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کے انتہائی مخالف ہیں۔قصوری نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور اسرائیل دونوں برطانوی راج کے خاتمہ پر معرض وجود میں آئے تھے۔سلوَن شیلوم نے انہیں یاددلایا کہ دونوں ممالک میں ایک اور قدر مشترکہ بھی ہے اور وہ مذہبی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو مسلمانوں کے لئے وجود میں آیا اور اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو یہودیوں کے لئے بنا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ اس قسم کی بات اس سے قبل سابق پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل محمدضیاء الحق نے سنہ 1981 میں کی تھی۔ان کے مطابق اسرائیل اور پاکستان دونوں مذہب کی بنیاد پر معرض وجود میں آئے تھے۔پاکستان میں سے اسلام نکال دو تو اس کے وجود کا کوئی جوازباقی نہیں رہ جاتا اور اسی طرح اسرائیل میں سے یہودیت نکال دو تو اس ملک کی عمارت دھڑام سے نیچے گرجائے گی۔(اکانومسٹ 12دسمبر1981)۔
فلسطینی ویب سائٹ مفتاح ڈاٹ آرگ کی اشاعت مؤرخہ 5 ستمبر 2005(تاریخ استفادہ 24جون 2018) کے مطابق سلون شیلوم نے پاکستانی وزیرخارجہ کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کروانے پر ترک حکومت کا شکریہ ادا کیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل اور دنیا کے مسلم ممالک کے درمیان ایک پل کا کرداراداکرتا چلا آیاہے۔ تاہم الجزیرہ نیوز کے مطابق ترک حکام نے پاکستان اسرائیل رابطے میں سہولت کاربننے کی خبروں کی تردیدکرتے ہوئے کہا کہ دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات ان دونوں کی اپنی طے کردہ تھی ۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق ملا قات کی تفصیلات طے کرکے اردن،مصر، سعودی عرب اور فلسطینی رہنماؤں کو پہلے سے اعتماد میں لے لیا گیاتھا ۔
سعودی فرمانروا خادم حرمین شریفین نے پاک اسرائیل رابطہ پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا،جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے پاکستان کا نام لئے بغیر ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہاگیا کہ ایک ’’دوست ملک‘‘ کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔فلسطینی اتھارٹی ایسی ہر قسم کی پیش رفت کی تائید کرتی ہے جس کا حتمی فائدہ فلسطینیوں کوپہنچے گا کیونکہ اس قسم کے روابط سے فلسطینیوں کی وکالت کی نئی راہیں کھل سکیں گی۔(2)۔
جواباًپاکستانی وزارت خارجہ نے یقین دہانی کروائی کہ اس ملاقات کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف نہ سمجھاجائے۔اسرائیل پر بھی واضح کر دیا گیا کہ یہ ملاقات اسرائیلی فوج کے غزہ کی پٹی سے انخلاء کے بعد’’بطورانعام‘‘ کی جارہی ہے اور اگر اسرائیل ایک قدم مزید آگے بڑھ کر فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹ نہیں بنتا اور آزاد فلسطین وجود میں آجاتا ہے توپاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے گا۔
ایک مبصر کے مطابق اس ملاقات کا ایک مقصدعرب ممالک کی ناکام خارجہ پالیسی،آپس میں عدم اتحاد اورنتیجتاً فلسطینی مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں ان کی واضح ناکامی کو بھی ان پرباور کروانا تھا۔آخر اتنے برسوں سے پاکستان کی عرب دوستی اسرائیل مخالف پالیسی سے وابستہ چلی آرہی تھی جبکہ خود بعض عرب ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم بلکہ اس کے ساتھ گہرے سٹریٹیجک نوعیت کے معاہدے بھی طے کرچکے تھے۔
واضح رہے کہ یاسر عرفات کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکی ہے۔اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق یہ پاکستانی ڈ کٹیٹرجنرل محمد ضیاء الحق ہی تھے جنہوں نے سنہ 1986 ء میں سب سے پہلے پی ایل او کے سربراہ یاسرعرفات کو یہ مشورہ دیا تھاکہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں توان کے لئے اچھا ہوگا۔ لیکن اس وقت ان کی تجویز نہ تو یاسر عرفات کو پسندآئی اور نہ ہی اسرائیل کو۔(3)،لیکن بعد میں ان کی اس تجویز پر عمل درآمد ہوجانے پر پی ایل او کی طرف سے جاری مسلح اور عسکری کارروائیوں سے اسرائیل کو نجات مل گئی ۔پاکستانی آمر جنرل ضیاء الحق کے اسرائیل پر کم از کم دو بڑے اور ’’ احسانات‘‘ بھی ہیں جن کا ذکرآئیندہ کسی تحریر میں کیا جائے گا۔
تاریخی مصافحہ کے بعد کیا ہوا؟
پاکستان اور اسرائیل کے وزراء خارجہ کی اس ملاقات اورتاریخی مصافحہ کے بعد:۔
۔1۔جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے ایک جید رہنما مولانا محمداجمل قادری صاحب کی قیادت میں ریتائرڈ جرنیلوں،تاجروں،صحافیوں،مذہبی رہنماؤں ، بیوروکریٹس کے ایک وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا۔مولانااجمل قادری اس سے قبل 1997 میں بھی اسرائیل کا دورہ کرچکے تھے جس کی تفصیلاتگزشتہ ایک کالم میں پیش کی جاچکی ہیں۔
۔2۔پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے ممبرجناب غلام جیلانی صاحب نے پاکستان اسرائیل فرینڈشپ ایسوسی ایشن قائم کی جس کا دفتر فیصل ٹاؤن میں قائم کیا گیا۔ایسوسی ایشن کا مقصدپاکستان اور اسرائیل کے درمیان دوستی کا فروغ تھا۔
۔3۔واشنگٹن میں مقیم ایک پاکستانی ولید زیاد نے اپنے ایک اسرائیلی دوست کے ساتھ مل کر پاکستان اسرائیل امن فورم قائم کیا جس کی ایڈوائزری کمیٹی میں پاکستان کے ایک سابق فنانس منسٹرکے علاوہ وزیراعظم پاکستان کا ایک میڈیا ایڈوائزر اور پاکستانی پاپ میوزک گروپ’’جنون‘‘ کا ایک معروف بااثررکن بھی شامل ہے۔واضح رہے کہ جنون گروپ یہودی نژادصحافی ڈینیل پرل،جوکراچی میں ہلاک کردیا گیا تھا،کی یاد میں ہونے والے ایک پروگرام میں بھی شامل ہو اتھا۔
۔4۔برطانیہ میں پاکستان اسرائیل ایسوسی ایشن(پی آئی اے) کا قیام عمل میں لایاگیا۔اس کے پاکستانی مدارالمہام کو اسرائیلی صیہونی تنظیم کی ممبر شپ سے بھی نوازا گیاہے۔اس ایسوسی ایشن کی طرف سے اسرائیل سے شائع ہونے والے پہلے آن لائن اردو اخبارپاک اسرائیل نیوزکی داغ بیل ڈالی گئی ۔
۔5۔دونوں وزراء خارجہ کی ملاقات کے خلاف پاکستان کے عوام نے خلاف توقع کوئی بڑاردعمل نہیں دکھایا۔
۔6۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل پرویزمشرف نے امریکی جیوش کانگریس سے تاریخی خطاب کیا اور انہیں توصیفی ایوارڈ سے نوازاگیا۔
۔7۔ اسرائیل کی طرف سے پاکستانی مصنوعات پر وقتی طورپر درآمدی ڈیوٹی معاف کر دی گئی جس کے نتیجے میں پاکستانی تاجروں نے کئی ملین روپوں کا منافع کمایا۔پاکستانی مصنوعات اردن اور مصر کے راستہ اسرائیل برآمد کی جاتی ہیں۔(4)۔
پاکستان میں کون کون ’’یہودی ایجنٹ ‘‘ ہے؟
ایک محقق مسٹر پی۔آر۔کماراسوامی اپنے تحقیقی مقالہ میں لکھتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی مخالفین ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر یہودی یا اسرائیلی ایجنٹ ہونے کے الزام لگانا پسند کرتے ہیں۔مثلاًنواز شریف نے مبینہ طور پر ایک بار کہاتھا کہ ان کے مخالفین کو اسرائیل اور فرانس سے امداد ملتی ہے۔بے نظیر بھٹو کے خلاف تین سالہ جدوجہد کا واحد مقصد بھی نواز شریف نے یہ بتا یا تھا کہ وہ ملک کو اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھ گروی ہو جانے سے روکنا چاہتے تھے۔ادھر عمران خان کو بھی اس کے سیاسی مخالفین یہودی ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے۔ جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ مولانافضل الرحمٰن (سربراہ جمیعت العلماء پاکستان ’ف‘) کی موجودگی میں یہودیوں کو پاکستان میں اپنا کوئی اور دوسرا ایجنٹ مقرر کرنے کی ضرورت نہیں۔ملک میں ہونے والے دیگر حادثات اور واقعات کے پیچھے بھی اسرائیل یا ہنودو یہود کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔
مسٹر کماراسوامی نے لکھا ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ خودنوازشریف کے قریبی ساتھی،مسلم لیگ نون کے(سابق) ترجمان اور وزیراعظم کے اس وقت کے پریس سیکرٹری صدیق الفاروق نے اگست 1997 میں تو ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔آپ نے یہ بیان نوازشریف کے دورہ امریکہ کے معاً بعد دیا تھا۔اسی مہینے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے بھی عوامی قیادت پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے بیان دیا کہ عرب اسرائیل قضیئ میں ہم فریق نہیں ،ہم تھرڈ پارٹی ہیں،ہمارا اسرائیل کے ساتھ کوئی براہ راست تنازعہ نہیں لہٰذہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونا چاہئے۔
سوامی صاحب لکھتے ہیں کہ نوازشریف کے برسراقتدارآنے کے بعد جمیعت العلماء پاکستان کے ایک رہنما مولانااجمل قادری نے پاکستانیوں کا ایک وفد لے کراسرائیل کا دورہ کیا۔اس دورے کے مقاصد محض مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھے۔
مقالہ نگار نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ سرظفراللہ خان کے برعکس جب ذوالفقارعلی بھٹووزیرخارجہ بنے تو وہ سرظفراللہ خان کی طرح عرب دوست نہ تھے بلکہ عربوں سے چڑتے تھے۔ایک موقع پر بھٹو نے تأسف کا اظہار کیا کہ انہوں نے اسرائیل کے دورہ کا ایک آسان اور نادر موقع کیوں ہاتھ سے گنوادیاتھا۔(5)۔
الجزیرہ نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف ایک بیان میں فرماچکے ہیں کہ انہیں اپنے ملک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔(6)۔
ایک پاکستانی شہری کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست میں یہ دعویٰ کیا گیاکہ 17 مارچ 1999 کو نواز شریف نے اسرائیلی سیاحوں کو پاکستان کے ویزے جاری کئے۔اسرائیل کا نام وزارت داخلہ کے تسلیم شدہ ممالک کی فہرست میں ڈالا گیااور یہ معلومات وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پرموجود ہیں،سابق وزیراعظم نے یہ معلومات عوام سے چھپائیں وغیرہ۔(7)۔
1۔ https://www.bbc.com/urdu/world-44455841
2۔ Palestinian Stretegic Report 2005.Published by Al-Zaytouna Centre.Beirut.Lebanon
3۔دی یروشلم پوسٹ۔ اشاعت 16 مارچ1986
4۔ متعدد عالمی اخبارات وجرائد
Beyond the Veil:Israel-Pakistan Relation.Published in 2000 by Jaffee Centre for Strategic Studies.Tel Aviv University,Israel.5
https://www.aljazeera.com/archive/2005/09/2008410145537565552.html 6
https://dailypakistan.com.pk/13-Apr-2018/764062 7
***