لیاقت علی
الیکشن 2018کی خوبی جو اسے ماضی میں ہونے والے الیکشنوں سے منفرد بناتی ہے وہ غیرقانونی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کا ان میں حصہ لینا ہے۔ لشکر طیبہ سے جماعت الدعوۃ اور پھر فلاح انسانیت سے ہو تے ہوئے ملی مسلم لیگ کی شکل اختیار کرنے والی جماعت کے کارکنوں کی بڑی تعداد ان میں الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔
ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن نے رجسٹر کرنےسے انکار کردیا تھا۔ ایم ایم ایل یعنی ملی مسلم لیگ نے ایک نامعلوم پارٹی تحریک اللہ اکبر دریافت کی اور اب اس کے امیدوار تحریک کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے۔ الیکشن پوسٹرز پر لکھا ہوتا ہے تحریک اللہ اکبر کے ٹکٹ ہولڈر اور ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار۔
پوسٹر پر سب سے نمایاں تصویر لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی ہے۔ ایم ایم ایل گذشتہ سال اس وقت پاکستان کے سیاسی منطرنامہ نمودار ہوئی تھی جب اس نے کلثوم نواز کے مقابلے میں اپنا امیدوار یعقوب شیخ کھڑا کیا تھا اور اس امیدوار محض چند دنوں کی الیکشن مہم کے نتیجے میں چھ ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔
تحریک اللہ اکبر کہاں سے آئی یہ کہانی بھی دلچسپ ہے۔ تحریک کے بانی بہاولنگر کے رہائشی نشتر میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل ڈاکٹر احسان باری ہیں۔ڈاکٹر باری ماضی میں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام سے منسلک رہ چکے ہیں۔انھوں نے بھی ایک دفعہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔تحریک انھوں نے 2011 میں قائم کی تھی۔
جماعت الدعوۃ کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری حافظ خالد ولید جو حافظ سعید کے داماد ہیں کا موقف ہے کہ ماضی میں ہم نے ہمیشہ ن لیگ کو سپورٹ کیا لیکن جب سے ن لیگ نے کشمیرکے مسئلہ پر اور بھارت سے تعلقات کے حوالے سے یوٹرن لیا ہے ہما رے لئے اس کی حمایت کرنا ممکن نہیں رہا ۔ ہم پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حمایت نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارا ان کا کلچر نہیں ملتا۔ اس لئے ہم نے تحریک اللہ اکبر کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملی مسلم لیگ کے امیدواروں کا بڑا نعرہ بھارت کے خلاف جہاد ہے
صرف جماعت الدعوۃ ہی تحریک اللہ اکبر کا نام استعمال کرتے ہوئے ان الیکشنوں میں حصہ نہیں لے رہی اس کے علاوہ ایک اور غیر قانونی تنظیم جماعت اہل سنت جو پہلے سپاہ صحابہ پاکستان کے نام سے کام کرتی تھی، کے نامزد کردہ امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
جماعت اہل سنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی خود تو جھنگ سےآزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے پچاس کے قریب امیدوار مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ لدھیانوی کے کاغذات اس بنا پر مسترد کر دیئے گئے تھے کہ ان کا نام شیڈول فورتھ میں شامل ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کا دہشت گردی سے جڑے جرائم سے تھا لیکن یکایک ان کا نام شیڈول فورتھ سے نکال دیا گیا اور وہ الیکشن میں حصہ لینے کے لئے اہل قرار پائے۔ کچھ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ کون سی قوتیں تھیں جنھوں نے ان کا نام شیڈول فورتھ کی فہرست سے نکلوا کر انھیں الیکشن کے لئے اہل کروایا۔
تحریک جعفریہ پاکستان نے پابندی عائد ہونے کے بعد نئے نام تحریک اسلامی پاکستان کے طور پر الیکشن کمیشن میں رجسٹر کرالیا ہے۔ اور اب یہ یہی پلیٹ فارم استعمال کر رہی ہے۔
♦