اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ملک کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق سکیورٹی ادارے خود قانون کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ میڈیا اور انسانی حقوق کے کارکن ملکی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ خود کو تنقید سے مبرا خیال کرتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا، ’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ مقامی پولیس بھی ان طاقتور ایجنسیوں کے ساتھ مل چکی ہے، جنہوں نے ملک کے سماجی ڈھانچے میں رکاوٹیں پیدا کر رکھی ہیں‘‘۔
انہوں نے پولیس اہلکاروں کی کمزوریوں کے حوالے سے مزید کہا، ’’ان کی نوٹ نچھاور کرنے سے متعلق خفیہ ویڈیوز انٹیلی جنس اہلکاروں کے پاس ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے وہ (پولیس اہلکار) ان (خفیہ اہلکاروں) کے سامنے کچھ بول نہیں سکتے‘‘۔
جسٹس صدیقی کچھ عرصہ قبل جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اسلام آباد کے ایک شہری رب نواز کی بازیابی کے بارے میں ایک مقدمے کی سماعت کر رہے تھے۔ انہوں نے اسلام آباد پولیس کو اٹھارہ جولائی تک کی مہلت دے رکھی تھی۔
اس مرتبہ رب نواز کو عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے گئے تھے۔ اس کے جواب میں جسٹس صدیقی نے کہا کہ کیا وہ حلفاﹰ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے گئے تھے؟
جسٹس صدیقی کا کہنا تھا، ’’ ان (رب نواز) کے رویے اور باڈی لینگویج سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ بہت زیادہ خوف اور شدید نتائج کے دباؤ میں ہیں اس لیے ان کا بیان قابل یقین نہیں ہے‘‘۔
جسٹس صدیقی کا سرعام ملک کی طاقتور سمجھی جانے والی انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے بارے میں کہنا تھا، ’’یہ (آئی ایس آئی) قانون کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب میں مدد سمیت بدعنوانیوں میں ملوث ہے اور اسے جرائم سے حاصل ہونے والے رقوم سے حصہ بھی ملتا ہے‘‘۔
جسٹس صدیقی نے فوجی قیادت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی اور ملک کی ساکھ کی حفاظت کے لیے خفیہ ایجنسیوں کو لگام دیں۔ ماضی میں فوجی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے متعدد افراد کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایسی کارروائیوں میں ملکی خفیہ ادارے ملوث ہیں جب کہ فوج ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق جسٹس صدیقی نے پاکستانی فوج کے سربراہ سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اپنے ان اہلکاروں کو روکیں جو اپنی مرضی کے بینچ بنواتے ہیں۔
DW
One Comment