کمیونسٹ اقدار کے حامل ملک کیوبا کے دستور میں وسیع تر تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پارلیمنٹ نے نئے صدر کی کابینہ کی منظوری دے دی ہے۔
کیوبا کے سن 1976 میں متعارف کرائے گئے دستور میں کئی ترامیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے کئی تجاویز کا ایک پیکیج پارلیمان میں پیش کر دیا گیا ہے۔ ان ترامیم میں کمیونسٹ پارٹی کو ملک کی سب سے افضل اور اہم ترین سیاسی قوت کے طور پر برقرار رکھا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ ضرور تجویز کیا گیا کہ اب حکومت کمیونزم کی جگہ سوشلزم کو فروغ دے گی۔ کیوبا کے دستور میں تبدیلیوں سے اس پر سے سابقہ سوویت یونین کی چھاپ ختم کرنا بھی مقصود ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تبدیلیاں کیوبا کی مجموعی معاشرت کو تبدیل کر دیں گی۔
نئی ترامیم سے ملکی دستور کو وسیع تر معاشی و سیاسی تبدیلیوں سے آراستہ کرنا خیال کیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق نئے صدر میگوئل ڈیاز کانیل کی حکومت کو اس تبدیلی کے حوالے سے یقینی طور پر سابق صدر راؤل کاسترو کی حمایت بھی حاصل ہے۔
دستوری ترامیم کے بعد کیوبا میں نجی جائیداد رکھنے کی اجازت ہو گی۔ اس سے پہلے کمیونزم کے فروغ کے تحت کوئی بھی شہری نجی جائیداد رکھنے کا اہل نہیں تھے۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ کیوبا کو عالمگیریت کا سامنا ہے اور ایک پارٹی ایک حکومت‘ کے بنیادی اصول کو نرم کرنے کی جانب بھی یہ ابتدائی اقدام ہیں۔
کیوبا کی واحد سیاسی جماعت انقلاب کے بعد سے سرمایہ داری کے بنیادی اصولوں کے خلاف رہی ہے۔ اس منظوری کے بعد کیوبا کے شہریوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے بھی اجازت حاصل ہو جائے۔ اس طرح کیوبا میں مائیکرو بزنس کو رواں برس کے اختتام تک متعارف کرا دیا جائے گا۔
ترامیم کی منظوری کا پہلا مرحلہ ملکی پارلیمنٹ ہے اور اس کے بعد ان پر رواں برس کے دوران عوامی ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ اس ریفرنڈم کے بعد یہ ترامیم دستور کا حصہ بن جائیں گی۔
دستوری ترامیم کے تحت ملک کے مختلف اہم اداروں کو مزید طاقتور بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
فیڈل کاسترو اور پھر اُن کے بھائی راؤل کاسترو تقریباً ساٹھ برس تک کیوبا میں مشترکہ طور پر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ راؤل کاسترو نے رواں برس اپریل میں منصب صدارت کاسترو خاندان سے باہر منتقل کیا تھا۔
کیوبن پارلیمنٹ نے نئے صدر میگوئل ڈیاز کانیل کی کابینہ کی توثیق کر دی ہے۔ اس کابینہ میں زیادہ تر وزراء وہی ہیں جو سابق صدر راؤل کاسترو کی حکومت میں شامل تھے۔ سابقہ حکومت کے وزیر خارجہ برونو روڈریگو کو اسی منصب پر برقرار رکھا گیا ہے۔
♦