تحریر وتحقیق:جہانزیب کاکڑ
مارکسی آفاقیت کی اَضافی نوعیت
Relative nature of Marxist universality
مطلق آفاقیت کے مابعدُالطبیعاتی(metaphysical) نظریے کی نفی کرتے ہوئے مارکسزم آفاقیت کی اَضافی نوعیت پر زور دیتا ہے۔اِسکی رو سے خالص،غیر مشروط اور تضاد سے پاک آفاقیت کا کوئی وجود نہیں–ہر شئے,مظہر اور نظام بہم تبدیل ہوتے ہوئے اندرونی اور بیرونی رابطوں کے متضاد رشتوں پر مبنی ایک مربوط نظام سے منسلِک ہے–کوئی شئے ایک وقت اور حوالے سے آفاقی جبکہ دوسرے وقت اور زاویے سے اَضافی ثابت ہو جاتی ہے;اسکی وجہ اَشیائے کائنات کے باطن میں موجود وہ خُلقی(inherent)تضادات ہیں کہ جن کی غیر موجودگی میں کسی شئے کی آفاقیت یا عدم آفاقیت کا تعین ہی نہیں کیا جا سکتا۔
مارکسی آفاقیت کا اگر کائناتی مظاہر پر اِطلاق کیا جائے تو یہ کائنات کی ہر شئے اور مظہر کو ایک ایسی مشروط کُلیت(Conditioned totality)قرار دیتا ہے کہ جس کی متصّؤرہ لامتناہیت بھی اپنا مخصوص متناہی حدود رکھتی ہے اور کسی ذیادہ بڑے کُل کی نسبت سے ہی اپنا الگ پہچان کرواتی ہے– مثلاََ اگر ہم ایٹم کو بطؤرِ مثال لے لیں تویہ اپنے اندرونی عوامل اور تشکیلی اجزا(Constitutive particles)کی نسبت سے ایک آفاقی اِکائی ہے مگر مالیکیول کا ترکیبی جُزو بنتے وقت اِسکی آفاقیت برقرار نہیں رہ پاتی– اِسی طرح کوئی مالیکیول بھی اپنے اندرونی سلسلوں(Processes)کی نسبت سے ایک آفاقی اِکائی ہے مگر مادے کے نسبتاََ بڑے تؤدے کے مقابلے میں ایک جُزو ہی رہتا ہے– زمین اپنے ترکیبی اجزا اور عوامل کی رو سے آفاقی اہمیت کا حامل اِکائی ہے مگر ہماری کہکشاں کے دیگر اجرامِ فلکی(Celestial bodies)کی بہ نسبت ایک زرّے کی مانند ہے–اسی طرح ہماری کہکشاں بھی اپنی خاص حد کے اندر ایک آفاقی کُل ہے مگر کہکشاؤں کی جُھرمٹ کے اندر اِسکی حیثیت ایک جُزو کا ہی رہتا ہے;آفاقیت کا یہی وہ نسبتی تعلق ہے جو کائناتی مظاہر کے تمام دائروں میں کارفرما نظر آتا ہے۔
آفاقیت کے مارکسی تصؤر کو اُس وقت خاص اہمیت حاصل ہو گئی جب آئن سٹائن کے نظریہِ اَضافیت(Theory of relativity)نے مروجہ تصؤرِ زمان ومکان کو تبدیل کرکے رکھ دیا اور پہلی بار مارکس کے نسبتی تصؤرِآفاقیت کو سائنسی تائید حاصل ہوگئی–
نیوٹنی میکانیات کے مطلق تصؤرِ زمان ومکان کو چیلنج کرتے ہوئے آئن سٹائن نے زمان ومکان کا اَضافی نظریہ پیش کیا جسکی رو سے ایک ہی مطلق زمان ومکان کا پوری کائنات پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مادے کا ہر ٹکڑا ناقابِلِ علٰیحدگی طؤر پر اپنا مخصوص زمان ومکان لیے ہوئے ہے۔
اِس ضمن میں برٹرنڈرسل لکھتے ہیں:۔
”نظریہِ اضافیت کا یہ پہلو فلسفے کے لیے نہایت اہم ہے کہ اِسکی رو سے عالمی زمان اور ایک مستقل بذات زمان کی نفی ہوگئی ہے اور اِسکی جگہ زمان/مکان اکائی نے لے لی ہے–یہ تبدیلی نہایت اہم ہے کہ اِس سے ہمارے عالمِ طبیعی کی ساخت کا تصؤر یکسر بدل گیا ہے–میرے خیال میں اِسکے اثرات نفسیات پر بھی ہوئے ہیں–جگہ کا تصؤر بھی بالکل مبہم ہے–کیا لندن ایک جگہ ہے?لیکن کرّہِ ارض تو گھوم رہا ہے–کیا کرّہِ ارض ایک جگہ ہے?۔لیکن وہ تو سورج کے گِرد گھوم رہا ہے–کیا سورج ایک جگہ ہے? لیکن سورج تو ستاروں سے اَضافی طؤر پر گردِش کر رہا ہے, زیادہ سے زیادہ ایک خاص وقت میں تُم جگہ کا ذکر کر سکتے ہو لیکن وقت معین کیا ہے جب تک تُم ایک خاص جگہ کے تعین کی بات نہ کرو۔پس مکان یا جگہ کا تصؤر غائب ہوگیا ہے”(1)
مارکسی تصؤرِ آفاقیت نے جہاں کائنات کے متعلق اِنسانی تصؤر کو وسعت دی وہاں سماجی علوم پر بھی گہرے اثَرات مرتب کیے۔ اِس نے ثقافت,اخلاقیات,جمالیات اور سماجی جغرافیئے کے مطلق معیارات کو تبدیل کرکے رکھ دیا, اب کوئی بھی عقیدہ,ثقافت,معیارِ حُسن اور اِخلاقی نظام اپنی برتری کا دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ ہر قسم کے معیار کو مخصوص سماجی اور جغرافیائی ماحول تک ہی درست سمجھا جاتا ہے–اب اَفریقیوں کے معیارِ حُسن,چپٹی ناک, موٹے ہونٹ, کو اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جس طرح کسی گورے کی نیلی آنکھوں اور طلائی بالوں کے معیار حُسن ِ کو حاصل ہے۔
آفاقیت کے اَضافی تصؤر کی بدولت عالمی سطح پر مذہبی رواداری،احترام ِانسانیت، اِختلافِ رائے اور سیکیولر اندازِفکر کو فروغ حاصل ہوا۔پہلی بار اِنسان کے مذہبی،نسلی اور ثقافی پسِ منظر کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کا حوصلہ پیدا ہوا–اِنسانی تاریخ اور سماج کے متعلق مارکس کے نسبتی اندازِفکر کا نچوڑ یہ ہے کہ کوئی بھی سماجی نظام دائمی اور مطلق(Absolute) نہیں ہوا کرتا بلکہ ہر نظام تاریخی ضرورت(Historical necessity) کے تحت وجود میں آتا،پروان چڑھتا، اور پھر زوال پذیر ہوکر تاریخ کا حصّہ بن جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو پہلا اشتراکی سماج(First commune)فطری حالت(State of nature)کے مقابلے میں تاریخی طور پرایک بہت بڑا آفاقی قدم تھامگر غلام دارانہ طبقاتی سماج میں بدلتے وقت اِسکی آفاقی حیثیت برقرار نہیں رہ سکی کیونکہ غلام دارانہ طرزِ پیداوار(Mode of production)پہلے اشتراکی طرزِپیداوار کے مقابلے میں معیاری طؤر پر بلند اور ذیادہ آفاقی تھا مگر پھر جاگیردارانہ طرزِپیداوار کی بہ نسبت اِسکی ترقی پسندی اور آفاقیت جاتی رہی۔
جاگیردارانہ سماجی نظام کا زوال اور اِسکی جگہ سرمایہ دارانہ طرزِپیداوار کا اُبھار ایک عظیم تاریخی اور ہمہ گیر مرحلہ ثابت ہوا جس نے ہزاروں سال پر محیط پچھڑے ہوئے معاشی طرزوں کے مقابلے میں پیداواری قوتوں کو بے پناہ ترقی دی–معاشی،سماجی اور علمی میدانوں میں وہ عظیم تاریخی کارنامے انجام دیئے جسکی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی–
سرمایہ داری نے پہلی بار دُنیا کو صنعتی،معاشی،سیاسی اور موصلاتی طؤر پر یوں مربوط کیا کہ اِس کو بجا طور پر(Global village) یا عالمی گاؤں کہا جانے لگا۔
سرمایہ داری نے دُنیا کو مقامی منڈی کی سادہ معیشت سے نکال کر عالمی منڈی کی پیچیدہ معیشت میں تبدیل کر دیا۔اجناس(Commodities) اور سرمایہ کو پھیلا کر دُنیا کے کونے کونے تک رسائی دی۔ہوسِ ملک گیری اور منڈیوں پر قبضہ کی دوڑ نے سامراج کو وجود بخشا۔منافع اور منڈیوں کی لالچ نے کئی بار دنیا کو تقسیم اور عالمی جنگوں سے دوچار کیا۔
پیداوار کی سماجی نوعیت اور نجی ملکیتی رشتوں کے تضاد نے دو ناقابلِ مصالحت طبقاتی دُنیاؤں کو وجود میں لایا۔ بار بار کے معاشی اور سماجی بحرانات سرمایہ داری کو سنجیدہ سماجی بھونچالوں سے دوچار کرتے رہے ہیں، کیونکہ یہ نظام اپنے اندرونی موروثی تضادات کے باعث اَب اِس نہج پر پہنچ چُکا ہے جہاں اِسکی آفاقیت اِسکی نفی میں بدل کر سماجی اِنقلاب کا تقاضا کر رہی ہے۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد سرمایہ داری نیفوکو یامہ کی زبانی اپنی مطلق آفاقیت کا یہ کہہ کر اعلان کیا کہ اَب سرمایہ دارانہ لبرل ڈیموکریسی دُنیا کا حتمی مقّدر رہے گی مگر جلد ہی بالخصوص2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد ثابت ہوا کہ سویت یونین کے زوال اور دیوارِبرلن کے اِنہدام سے طبقاتی جدوجہد کا باب ختم نہیں ہوابلکہ جس بھوت کا اشتراکی مفکر کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف کمیونسٹ مینی فیسٹو میں نشاندہی کی تھی
”A spectre is haunting Europe__the spectre of communism۔ All the powers of old Europe have entered into a holy alliance to exorcise this spectre; pope and czar،metternich and guizot،French radicals and German police spies”
ترجمہ; یورپ کے اوپر ایک بھوت منڈلا رہا ہے__کمیونزم کا بھوت۔اِس بھوت سے چھٹکارا پانے کیلیئے پُرانے یورپ کی تمام طاقتوں،پوپ اور بادشاہ،میٹرنک اور گیزو،فرانسیسی ریڈیکلز اور جرمن پولیس کے جاسوسوں نے مقدّس اتحاد قائم کر لیا ہے”
ایک بار پھر پورے آب وتاب کیساتھ یورپ تو کیا پوری سرمایہ دارانہ دُنیا پر منڈلا رہا ہے، یہاں تک کہ بور?وازی کا سنجیدہ جریدہ اکانومسٹ اپنے 3مئی2018 کے شمارے میں”Rulers of the world۔read karl marx”کے عنوان سے، مارکسزم پر تنقید سے قطعِ نظر، دُنیا کے حکمرانوں کو یہ مدبّرانہ مشورہ دیتا ہے کہ بحرانوں سے نمٹنے اور نظام کو برقرار رکھنے کیلیئے کارل مارکس ہی سے سیکھنے اور دوبار رجوع لانے کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ سوویت یونین میں بیوروکریٹک کنٹرول پر مبنی منصوبہ بند معاشی نظام(planned economy) ناکامی سے دوچار ہوا اور سرمایہ داری نے سوشلزم پر عارضی فتح حاصل کر لی لیکن کسی نظام کی عارضی تیکنیکی ناکامی سے قطعی ثابت نہیں ہوتاکہ اِس میں اِصلاح کی گنجائش بھی ختم ہوچکی ہے بشرط یہ کہ اِس میں اِصلاح واِضافہ کے اِمکانات باقی ہوں مگر کسی نظام کی ناکامی کے اسباب اِسکی اندرونی وبیرونی وجوہات میں تلاش کرنا ضروری ہے۔
1:۔ پہلی بات یہ ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کسی ترقی یافتہ ملک کی بجائے ایک پسماندہ زرعی ملک میں برپا ہوا جسکا صنعتی انفراسٹرکچر نہایت کمزور اور شرح کے لحاظ سے قلیل تھا۔ لینن کو توقع تھی کہ سوشلزم کا ترقی یافتہ ممالک بالخصوص جرمنی تک پھیلاؤ ہوگا، بدقسمتی سے عالمی طبقاتی قوتوں کا توازن سوشلزم کے حق میں نہ ہو سکا۔سویت یونین کو نہ صرف دو عالمی جنگوں، خانہ جنگیوں،محلاتی سازشوں اور معاشی ناکہ بندیوں کی تباہ کاریوں سے گزرنا پڑابلکہ دُنیا بھر کے سوشلسٹ تحریکوں کی معاشی،مالی واخلاقی مدد بھی کرنا پڑی جس کی وجہ سے اِسکی اپنی معاشی اور سماجی حالت ابتر ہوگئی۔
2:۔ سرمایہ داری نے سوشلزم کا راستہ روکنے کیلئے محنت کشوں ہی کے خون پسینے سے نچوڑی گئی دولت کو محنت کشوں پر نچھاور کرنا شروع کیا جسکی وجہ سے فلاحی ریاست کا عارضی مظہر سامنے آیا، کم ازکم ترقی یافتہ ممالک کی حد تک محنت کشوں کا معیارِ زندگی بلند کیا گیا۔روزگار،تعلیم،گھر،اور ٹرانسپورٹ کی مفت فراہمی کو یقینی بنایا گیا جسکی وجہ سے انقلابی تحریکوں کی شدّت میں کمی آگئی جو رفتہ رفتہ بالآخر سوویت یونین کے زوال پر منتج ہوگئی۔
سرد جنگ کے بعد جب دُنیا سے سوشلزم کا خطرہ عارضی طؤر پر ٹل گیا اور دنیا دو قطبی(Bipolar)سے یک قطبی(Unipolar)میں تبدیل ہوگئی تب سرمایہ داری نے وہ اصلاحات جو کبھی سوشلزم کے خوف سے کیئے تھے واپس لینا شروع کر دیئے۔اور اب دُنیا بھر میں محنت کشوں کی معیارِ زندگی میں نہ صرف گِراوٹ آئی ہے بلکہ طبقاتی جدوجہد کی شدّت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اسکا اظہار مختلف ممالک میں عوامی تحریکوں کے اُبھار اور پاپولزم کے مظہر میں ہو رہا ہے۔
سوویت یونین کے اِنہدام کے بعد دوبارہ نہ صرف کارل مارکس کی تحریروں میں دلچسپی کا اظہار کیا جارہا ہے بلکہ اِسکی کتابوں کے ایڈیشن پر ایڈیشن بھی چَھپ رہے ہیں،اسکا اندازہ مختلف اِداروں کیطرف سے اکھٹے کیئے گئے اعداد وشمار اور شرح فی صدی سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
اس سال2018 میں مارکس کی دو سویں سالگرہ کو دُنیا بھر میں انتہائی جوش وجذبے اور عقیدت واحترام سے منایا گیا اور سرمایہ داری کے تضادات کی درست تفہیم پر اِسے خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
فقط جس عنصر کی کمی محسوس کی جارہی ہے وہ بائیں بازو کے قیادت کی تعمیر ہے۔ جب تک قیادت کا یہ خلا موجود رہے گا محنت کشوں کی تحریکیں اُبھر کر ناکامی سے دوچار ہوتی رہیں گی۔ اِس لیئے وقت کا تقاضا ہے کہ بائیں بازو کے قوتوں کی تعمیر میں تیزی لائی جائے تاکہ سرمایہ داری کی زوال پذیر ہٹ دھرمی کے جواب میں سوشلزم کی نسبتاََ آفاقی اور اِنسان دوست پروگرام کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
حوالہ جات:
(1)جلالپوری، علی عباس،روایاتِ فلسفہ،ناشر تخلیقات لاہور۳۱۰۲،ص،۲۲
(2) کمیونسٹ مینی فیسٹو،پبلشر، بُک ہوم ۰۱۰۲،ص۹۲،۶۲
(3):جریدہ اکانومسٹ،لندن،۳مئی۸۱۰۲
Bibliography:
1):Marxist philosophy__ a popular outline
،Pubisher،moscow، foreign languages publishing house۔
2): reason in revolt، Grant، Ted، Woods، Allan۔