خبر ہے کہ الیکشن کمیشن نے نازیبا زبان کے استعمال پر مولانا فضل ا لرحمٰن ،ایاز صادق اور پرویزخٹک کو حلف نامہ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے پرویزخٹک کے وکیل سے سوال کیا کہ پرویزخٹک نے پشتو میں تقریر کی ،کیا آپ نے سنی ہے؟ وہ ہنسنے کی نہیں رونے کی بات ہے۔پرویز خٹک بیان حلفی جمع کروائیں،الیکشن میں نتیجہ کچھ بھی ہو اس مقدمے کے فیصلہ سے مشروط ہوگا۔مقدمے کی سماعت ۹؍اگست تک ملتوی کردی گئی ہے۔اس سے قبل پرویز خٹک کے آئیڈیل لیڈر عمران خان کے وکیل کی طرف سے بھی عدالت میں بیان حلفی جمع کروایاگیا تھا کہ وہ آئندہ اپنی زبان سے نازیبا الفاظ نہیں ادا کریں گے۔(جیو نیوز)۔
روزنامہ ڈان کے اداریہ مؤرخہ ۱۹؍جولائی میں سیاستدانوں کی طرف سے جلسے جلوسوں،کارنر میٹنگز ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کھلے عام چیخم دھاڑ،پھکڑ بازی اورگالم گلوچ کی سخت مذمت کرتے ہوئے بجا طور پر کہا گیا ہے کہ حکومت بنانے کے لالچی سیاستدانوں کے اس بازاری اور سطحی نمونہ سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستانی معاشرہ کس قدرمہذب،میچور ،متحمل مزاج اور ڈیموکریٹک ہوچکاہے۔
قارئین کرام ڈیموکریسی ،جمہوریت وغیرہ کو تو ایک طرف رکھیں،افسوس کا مقام یہ ہے کہ بدزبانی اور بیہودہ گوئی،بلکہ صاف صاف الفاظ میں گالیاں دینے ،کا مظاہرہ ایسے رہنماؤں کی طرف سے دیکھنے میں آرہا ہے جو ایک نیا پاکستان یا نیا اسلامی پاکستان بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بلندبانگ دعوے کرتے پھر رہے ہیں۔
اب تک تویہی سمجھا اور کہا جاتا تھا کہ گالی وہ دیتا ہے جس کے پاس دلیل نہ ہو اور یہ کہ جس کے دل اور دماغ میں جو کچھ بھرا ہوتا ہے اس کے دہن سے وہی کچھ برآمد ہوتا ہے لیکن ملکی (اور غالباً دینی) تاریخ میں پہلی بار تحریک لبیک یا رسول اللہ کے سربراہ ’’حضرت مولوی‘‘ خادم حسین رضوی صاحب ،جنہیں ان کے چاہنے والے مجددِعصر بھی قرار دیتے ہیں،نے گالیوں سے مزین دھرنے سے قبل اور بعد میں گالیوں کے جواز میں کئی بیانات ارشاد فرمائے جس سے یہی نتیجہ اخذہوتا ہے کہ گالی بطور دلیل بھی پیش کی جاسکتی ہے۔اس کے ثبوت میں انہوں نے قرآن وحدیث نیز روایات صحابہ سے باقاعدہ حوالے بھی پیش کئے اور فرمایا کہ یہ ’’گالیاں‘‘ اسلامی تعلیم وتاریخ کی وہ امانت ہیں جو علماء دین شرع متین کے پاس نسل در نسل محفوظ چلی آتی ہیں۔یہ امت کی امانت ہیں وغیرہ۔(ملخص)۔
ایک موقع پر جناب والانے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا،زنا کی سزا کوڑے وغیرہ ہیں لیکن گالی دینے کو کوئی شرعی سزا مقررنہیں ،لہٰذہ ثابت ہوا کہ گالیدینا کوئی جرم نہیں،اگریہ قابل مؤاخذہ جرم ہوتا تو زبان کاٹنے کاحکم نازل کیا جاتا۔
یہ خادم رضوی صاحب کے شرعی نوعیت کے معاملات ہیں ان پر کسی قسم کاتبصرہ کرناجائز یا ممکن نہیں اتنا ضرور کہوں گاکہ عمران خان،ایازصادق،پرویزخٹک صاحبان تو الیکشن کمشنر کی عدالت میں وکلاء کے ذریعہ حلف نامے داخل کرواتے پھررہے ہیں لیکن امید ہے کہ مولانافضل الرحمٰن صاحب کے لئے مولوی خادم حسین رضوی صاحب کے سوشل میڈیا پر جاری کئے گئے جملہ فتاویٰ دربارہ جوازگالی و تکرارہا بمع ایک عدد گالی داخل کرنا ہی کافی ہونگے۔
قارئین کرام الیکشن کمشنر صاحب کوغالباًمعلوم نہیں کہ پاکستانی قومی رہنماؤں کی نہ صرف زبان بگڑ چکی ہے بلکہ اس سے بڑھ کران کے دہن بھی بگڑچکے ہیں،وہ اور ان کے وکلا نہ صرف سوشل بلکہ الیکٹرانک میڈیاپہ اپنے مخالفین کے منہ چڑانے،نقلیں اتارنے حتیٰ کے لائیونشریات پر مذاکرات اور بحث مباحثہ کے دوران مغلوب الغضب وغیض ہو کر ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔اور پھران کے چاہنے والے گلی کوچوں میں دست وگریباں بلکہ ایک دوسرے پہ گولیاں چلاتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان میں اکثریت ان افراد کی ہے جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کے قلعے کے وجودکے تصور اورمطالبہ کے پیش ہو تے ہی یہاں کی سیاست میںنازیباالفاظ بلکہ فحش مغلظات سے پرزبان کے استعمال کی داغ بیل ڈال دی گئی تھی۔ ہندؤوں سکھوں ،عیسائیوں کی طرف سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے دینی رہنماؤںکی طرف سے پاکستان کو پلیدستان،بازاری عورت،محمد علی جناح کو کافرِ اعظم،پاکستان کی حمایت کوگناہ، مسلم لیگ کو ووٹ دینا حرام اور اس کے ووٹروں کو حرامی قراردے کر سیاست کے اس معیار کی بنیاد ڈال دی گئی تھی جس کی جھلک آج کے پاکستان میں پہلے سے کہیں روشن تر اور واضح تر دکھائی دینے لگ گئی ہے۔
آج دینی جماعتیں پین دی سری کانعرہ ایجاد کرنے پرعوام سے داد عیش اور ایک ادارہ سے ایک ایک ہزار روپے فی کس کیش وصول کر رہی ہیں تو دوسری طرف نیا پاکستان اور نیا خیبر پختونخواہ والے رہنما مخالف سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں ، اپنے سست کارکنان کوبھی سرعام جلسہ میں ماؤں بہنوں بیٹیوں کی موجودگی میں پشتو میں ماں کی گالی دیتے شرم محسوس نہیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کوئی ان سے پوچھے کہ خیبر پختونخوا میں بھاری مینڈیٹ لے کر پشتونوں پر پانچ سال متواتر حکومت کرلینے کے بعد غیرت مندپشتونوں کو ایک 146146غیرت مند 145145پشتون کی طرف سے ماں کی گالی دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟۔
غالباًنیا پاکستان بنانے والے ڈونلڈ ٹرمپ سے متاثرہیں جس نے امریکہ کو ایک بارپھر گریٹ بنانے کے لئے ہر قسم کی گالی کوہر قسم کے میڈیاپر بے دریغ استعمال کیااور دنیا بھر میں نام کمایا۔(بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا!)،نام ہی نہیں صدارت بھی کمالی۔کچھ امریکی اور برطانوی مبصرین کا کہنا ہے کہ کہ اگر ٹرمپ گالیوں کا استعمال نہ کرتے تو شاید اتنی مقبولیت نہ حاصل کر پاتے۔ادھر ٹرمپ نے اپنی فحش کلامی اور دریدہ دہنی کو اپنے لئے باعث تسکین بتایا اور کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ عوام مجھے اسی لئے پسندکرتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ جو میرے دل میں ہے وہ میری زبان پہ بھی ہے۔
متعددمغربی ماہرین نفسیات نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض سیاستدان اپنی تقاریر اور بیانات میں اس لئے گالیاں دیتے ہیں تاکہ وہ عوام میں مقبول ہو سکیں۔عوام گالیاں دینے والے سیاستدان کو سچا ،ستھرااور کھرا، نڈر، بے خوف، پر اعتماد،بارعب سمجھتے ہیں۔عوام کو ایسے لیڈروں کے وہ جملے تاحیات یاد رہتے ہیں جن میں کوئی فحش گالی استعمال کی گئی ہو۔
لیکن یاد رہے کہ مکافات عمل کے طور پر ایسے 146146سچے ، کھرے ،نڈر اور پر اعتماد145145 سیاستدانوں کو اسی قبیل کے سچے ،کھرے ،نڈر اور پر اعتماد مخالفین کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی مثال لے لیں،دنیا کے اکثر ممالک اور ان کے عوام کو 146146شِٹ ہول145145 قرار دینے والے کا انگلینڈ آمد پر شِٹلر(بروزن ہٹلر) کے خطاب سے استقبال کیا گیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے شرفاء(جن کی ملک میں اکثریت ہے) خود کوکب اتنا نڈر،بے خوف اور پراعتماد ثابت کر پائیں گے۔
♦