افغان طالبان نے کہا ہے کہ اس کے نمائندوں نے ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے ساتھ براہ راست ملاقات کی ہے، جس میں امن مذاکرات کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ امریکا نے اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے طالبان جنگجوؤں کے ایک سنیئر اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے اعلیٰ ترین امریکی مندوب ایلس ویلز نے طالبان نمائندوں کے ساتھ پہلی مرتبہ براہ راست ملاقات کی ہے۔
اگر تو یہ خبر درست ہے تو پھر یہ جنوبی ایشیائی خطے میں امن کی طرف نئی پیش قدمی ہے۔ کیونکہ اس ملاقات میں ایک اہم فریق پاکستان کو سائڈ لائن کیا گیا ہے کیونکہ غیر ملکی طاقتیں اس کے دوہرے کردار کی وجہ سے اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔
اس ملاقات کا مقصد افغان جنگ کے خاتمے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ طالبان رہنما نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ امریکا کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے یہ ابتدائی ملاقات تھی۔
اٹھائیس جولائی بروز ہفتہ اس طالبان رہنما نے اے پی سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ ملاقات ابتدائی تھی اور اطراف نے مستقبل میں رابطوں اور مزید ملاقاتوں کے امکان پر بات چیت کی‘۔ اس طالبان رہنما کے بقول وہ میڈیا سے گفتگو کا مجاز نہیں، اس لیے اس کی شناخت ظاہر نہ کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں ایسی ملاقات کب ہو گی اور فریقین کون کون ہوں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں بھی طالبان اور امریکی حکام کی براہ راست ملاقاتیں ضرور ہوں گی۔
ادھر امریکا حکومت نے اس ملاقات کی خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ طالبان کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کی خاطر امریکی حکومت ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے۔ تاہم ماضی میں واشنگٹن حکومت ایسے مطالبات مسترد کرتی آئی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ افغان عوام یا حکومت کا نمائندہ نہیں، اس لیے وہ اس مذاکراتی عمل کی قیادت نہیں کرے گی۔
جمعرات کے دن ہی امریکی جرنل وال اسٹریٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان وفد نے قطر میں ایلس ویلس کے ساتھ ملاقات کی۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سترہ سالہ افغان جنگ کے خاتمے کی خاطر اس خاتون امریکی اہلکار نے طالبان کے ساتھ گفتگو میں مستقبل کی حکمت عملی پر بھی اظہار خیال کیا۔
ادھر طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کے ایک رکن نے اے ایف پی کو تصدیق کی تھی کہ پیر کے دن دوحہ میں امریکی حکام اور طالبان کے نمائندوں کی براہ راست ملاقات ہوئی تھی۔ تاہم اس بیان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ امریکی حکومتی وفد میں کون کون شامل تھا۔ ایلس ویلس کا نام لیے بغیر کہا گیا تھا کہ اس ملاقات میں امریکا کی نمائندگی ایک خاتون نے کی تھی۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ترجمان شاہ حسین مرتضاوی نے اس ملاقات پر براہ رات تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اپنی حکومت کی پالیسی کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے کوششیں افغانستان کےعوام ہی کر سکتے ہیں لیکن اتحادی قوتیں اس عمل میں مدد کرسکتی ہیں۔
سنہ2013میں بھی دوحہ قطر میں افغان طالبان اور امریکی نمائندوں کی ملاقات ہوئی تھی جس پر اس وقت کے صدر حامد کرزئی نے اعتراض کیا تھا کہ طالبان اپنے دفتر کو ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ کا نام نہیں دے سکتے اور نہ ہی اپنا پرچم لہر ا سکتے ہیں۔
DW/News Desk