آسٹرین دارالحکومت میں کل پیر دو نومبر کی رات ایک دہشت گردانہ حملے میں چار افراد ہلاک اور سترہ زخمی ہو گئے تھے۔ ایک حملہ آور پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا جبکہ اس کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش کے لیے ویانا سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار چھاپے مار رہے ہیں۔مارا جانے والا شدت پسند دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کا ایک ایسا حامی تھا، جو ماضی میں داعش میں شمولیت کے لیے شام بھی گیا تھا۔ اس جرم میں اسے گزشتہ برس اپریل میں 22 ماہ قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی اور اسے پچھلے سال دسمبر میں پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔ یہ 20 سالہ حملہ آور آبائی طور پر بلقان کے خطے سے تعلق رکھتا تھا اور آسٹریا اور شمالی مقدونیہ کا دوہرا شہری تھا۔
آسٹرین چانسلر کُرس کے الفاظ میں، ”یہ تنازعہ مسیحیوں اور مسلمانوں کے مابین نہیں ہے۔ یہ لڑائی آسٹریا کے عوام اور تارکین وطن کے مابین بھی نہیں ہے۔ نہیں، یہ امن پر یقین رکھنے والی اکثریت اور امن کی مخالفت کرنے والی چھوٹی سی اقلیت کے مابین کوئی جھگڑا بھی نہیں ہے۔ یہ تو تہذیب اور بربریت کے مابین جنگ ہے‘‘۔
دوسری طرف افغان درالحکومت کابل کی یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے پر شدت پسندوں کے ایک بڑے حملے میں کم از کم انیس افراد ہلاک اور بائیس دیگر زخمی ہو گئے حملے کے فوراً بعد شروع ہونے والی لڑائی میں تینوں شدت پسند بھی مارے گئے۔یہ حملہ کابل یونیورسٹی میں اہتمام کردہ ایرانی کتب کے اس میلے پر کیا گیا، جس میں افغانستان میں ایران کے سفیر کو بھی شرکت کرنا تھی۔ بظاہر اس حملے کا مقصد ایرانی سفیر کو نشانہ بنانا بھی تھا کیونکہ عسکریت پسندوں نے یہ خونریز کارروائی اس بک فیئر کے افتتاح سے کچھ ہی دیر پہلے کی۔ اس وقت متعدد اہم حکومتی اور سفارتی شخصیات اس میلے کے افتتاح کے لیے وہاں پہنچنے ہی والی تھیں۔
کابل یونیورسٹی افغانستان کا نہ صرف سے سے بڑا بلکہ سب سے پرانا تعلیمی ادارہ بھی ہے، جہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 17 ہزار کے قریب بنتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے کے افتتاح کے موقع پر کیا جانے والا حملہ اس ادارے کے مشرقی حصے میں کیا گیا، جہاں قانون اور صحافت کے تعلیمی شعبے واقع ہیں۔
dw.com/urdu