نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ملکی صدارتی الیکشن میں اپنی کامیابی کے بعد اولین خطاب میں کہا ہے کہ وہ امریکا کو دوبارہ متحد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں امریکا کی عزت کی بحالی کا وقت آ گیا ہے۔
امریکا میں تین نومبر کو ہوئے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ سیاستدان اور ماضی میں دو مرتبہ نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن کی کامیابی اس وقت یقینی ہو گئی تھی، جب کل ہفتہ سات نومبر کی رات انہیں صدر کا انتخاب کرنے والے الیکٹورل کالج کے 290 ارکان کے ووٹ حاصل ہو گئے تھے۔ بائیڈن کو اپنی فتح کے لیے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار تھے۔ اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق وہ یقینی طور پر لازمی سے کہیں زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔
اس کے برعکس ان کے ریپبلکن حریف امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب تک صرف 214 الیکٹورل ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے حریف امیدوار بائیڈن کی فتح پر اپنے اولین ردعمل یہ ظاہر کیا تھا کہ ابھی مقابلہ ختم نہیں ہوا اور وہ ہارے نہیں ہیں۔
یہ رویہ واضح طور پر صدر ٹرمپ کی طرف سے بائیڈن کی فتح کو تسلیم کرنے سے انکار تھا۔ ماہرین کے مطابق اس رویے سے ٹرمپ اپنے حامیوں پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی الیکشن ہارے نہیں بلکہ اپنی انتخابی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جو بائیڈن نے اپنی فتح کے بعد اولین خطاب میں کہا کہ الیکشن کی وجہ سے امریکی عوام میں واضح تقسیم پیدا ہو گئی تھی، لیکن اب اس داخلی سیاسی تقسیم پر قابو پاتے ہوئے ‘دوبارہ متحدہ ہونے کا وقت‘ آ گیا ہے۔ ساتھ ہی بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ ان کے لیے امریکی صدر کے طور پر فرائض انجام دینا بڑے فخر کی بات ہو گی۔
بائیڈن کے مطابق، ”اب وقت آ گیا ہے کہ پوری دنیا میں امریکا کی عزت اور وقار بحال ہونا چاہییں۔‘‘ ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن کی فتح یقینی ہو جانے کے بعد امریکا کے مختلف شہروں میں ان کے حامیوں نے جشن منانے شروع کر دیے تھے۔
جو بائیڈن کی فتح کے بعد صدر ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم کے عہدیدار ابھی تک موجودہ صدر کی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے کہا گیا، ”انتخابی معرکہ ابھی ختم تو نہیں ہوا۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کل پیر نو نومبر کو روز ٹرمپ کے ایماء پر اس بارے میں عدالتی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
نیوز ایجنسی اے پی نے ٹرمپ کے قریبی حلقوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی شکست تسلیم کرنے پرقطعاً آمادہ نہیں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر اپنی ناکامی کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہ کیا، تو وہ امریکا میں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ پرانی اس روایت کو توڑ دیں گے، جس کے تحت ہر ہارا ہوا صدارتی امیدوار ہمیشہ اپنی شکست تسلیم کر لیتا ہے۔
ٹرمپ ابھی تک گزشتہ منگل کے روز ہوئے الیکشن کے نتائج کو ‘غیر منصفانہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم ان کے بائیڈن کی فتح تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق اس لیے نہیں پڑے گا کہ اگر انہوں نے شخصی وقار کے ساتھ اپنی ہار نہ بھی مانی، تو بھی انہیں اپنے عہدہ صدارت کی موجودہ مدت کے اختتام پر وائٹ ہاؤس ہر حال میں خالی تو کرنا ہی پڑے گا۔
dw.com/urdu