سہیل گیلانی
پچھلے ہفتے پاکستان میں مولوی خادم کی وفات پر لاہور میں کئی میلوں پر مشتمل عوام کا ایک ناقابل یقین ہجوم دیکھنے میں آیا اس ہجوم کو دیکھنے والوں نے سوشل میڈیا میں کئی باتیں کیں ۔ میں دو باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
پہلے یہ کہ جن لوگوں نے یہ ہجوم اپنی آنکھوں سے دیکھا ان پر ایک خوف سا طاری تھا ان کے مطابق ہجوم ختم ہونے کے کئی گھنٹوں بعد بھی لاہور کی شکل کچھ یوں لگ رہی تھی جیسے کسی باہر سے آنے والی مخلوق نے سارے شہر پر گندگی کا شدید حملہ کیا ہو، اور دوسرے یہ کہ سارا دن مولویوں کے فلک شگاف نعروں “سر تن سے جدا “ نے لاہور کی فضا کو نفرتوں گالیوں اور قتل کی دھمکیوں سے اس قدر گندا کر دیا کہ جس کے سامنے کوڑا کرکٹ اور کھانے پینے کی پھینکی ہوئی اشیا و غلاظت ماند پڑُگئی۔ اتنی گالیاں اور دھمکیاں پاکستان کی فضاؤں نے شاید اپنی تاریخ میں کبھی نہیں سنی تھیں۔ مولوی خادم نے گالیوں اور دھمکیوں سے جو ماحول گندا کر رکھا تھا مرحوم کے مریدوں نے تو اپنے پیر صاحب کو گالم گلوچ اور دھمکیوں میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
ملک بھر میں اور بیرون ملک رہنے والے مذہبی جذبات سے سرشار مسلمانوں نے اس نفرت پر مبنی تقریروں کے بارے میں کوئی اعتراض کوئی تنقید کوئی غم و غصے کا اظہار نہ کیا ۔لوگوں نے سار ے ڈرامے میں مسلسل ہونے والی نفرت پر مبنی گفتگو کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہ کیا جیسے اس میں کونسی غلط بات ہے اگر کوئی مذاق اڑائے جو ہمیں گوارا نہ ہو تو ہم لوگوں کے سر تن سے جدا کردینے میں حق بجانب ہیں۔ ناچ ناچ کے گندگی پھیلاتے گالیاں بکتے دھمکی دیتے مولوی، اس میں بھلا کیا احتجاج کرنا یہ تو جیسے اک عام سی بات ہو۔
مسلمان ممالک سے ہجرت کر کے مغرب کو اپنا گھر بنانے والے مسلمانوں اور خاص طور پر وہ مسلمان جن کا تعلق ایسے ملکوں سے ہو جہاں سیکولرازم کو ایک گناہ تصور کیا جاتا ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ باوجود کئی سال مغرب میں رہ کر بھی وہ آزادی اظہار خیال اور نفرت پر مبنی گفتگو کے بیچ تفریق کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس مسئلے کا شکار صرف کم تعلیم یافتہ مسلمان ہی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو اپنے ملکوں میں اعلی تعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔تمام اسلامی ممالک جہاں سیکولر حکومت یا قوانین کے بارے میں تشویش کن نظریہ پایا جاتا ہے وہاں آزادی اظہار خیال کے معاملے میں شدید بندشیں اور گھٹن کے شکار معاشرہ بھی ساتھ ساتھ تشکیل پاتا ہے ۔
مغربی دنیا میں ہر قسم کا نظریہ جو معاشی ، سیاسی ، سائنسی ، مذہبی یا کسی اور نوعیت کا ہو اسکے بارے میں کھل کر بات کرنا ، تنقید کرنا یا کسی طریقے سے اسے مذاق کا ہدف بنانا نہ صرف مکمل آزادی اظہار خیال کا حصہ سمجھا جاتا ہے بلکہ معاشرہ ایسا کرنے والوں کی ہمت افزائی کرتا ہے۔ مشکل اور حساس موضوعات پر لوگ طنز و مزاح اور تنقید میں اسے عموماً استعمال کرتے ہیں۔ انسانی حقوق و آزادی کے قوانین اور فلسفے میں دلچسپی رکھنے والے ناقدین کی رائے میں مذاق کا ہدف حساس باتوں ہی کو بنایا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں ایسی باتیں نہ پنپنے پائیں جو غیر ضروری طور پر کوئی ایسی جگہ بنا لیں جسے بدلا نہ جا سکے۔
بالکل یہی قوانین ہر عوامی ، مذہبی یا غیر مذہبی شخصیت پر لاگو ہوتے ہیں جن کے بارے میں طنز ومزاح اور تنقید کی کھی اجازت حاصل ہوتی ہے۔ لوگ حضرت عیسی اور بی بی مریم کا بھی مذاق اڑاتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہ مذاق اتنا شدید ہوتاکہ جو مغرب میں نئے آنے والے مسلمانوں کے ہوش اڑانے کے علاوہ ان کے لئے کلچرل شاک کا باعث بنتا ہے۔ اسکے برعکس کسی کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جاتی کہ کوئی زندہ انسانوں یا انسانوں کے گر وہ کے بارے میں نفرت یا دھمکی آمیز بات کر سکے جس کی وجہ سے اس انسان کے لیے کسی گروہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے۔
مثال کے طور پر تورات کے کسی بھی حصے کا یا کسی یہودی نبی یا رسول کا مذاق اڑانے کی کھلی آزادی ہے جبکہ کوئی ایسی بات جس کے کرنے سے ملک میں رہنے والے یہودیوں کے بارے میں ایسی باتیں کی جائیں جس سے اقلیت میں ہونے والے یہودیوں کے خلاف جذبات بھڑکانے کا خدشہ ہو اسے نفرت پر مبنی کلام سمجھا جاتا ہے اور اس پر قانونی کاروائی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ مسلمان کئی عرصے سے اس مسئلہ کو لے کر مغربی دنیا میں مصیبت کا شکار نظر آتے ہیں کیونکہ انکے نزدیک وہ تمام مذہبی باتیں ، کتابیں یا مذہبی شخصیات جن کا مذاق نہ قابل معافی گناہ سمجھا جاتا ہو اسکی مغرب نہ صرف اپنے لوگوں کو اجازت دیتا ہے بلکہ کھل کر حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات ہوں،یا پھر جلن پوسٹن اور چارلی ہیبڈو جیسے جریدوں میں کارٹونز کی اشاعت مغرب میں اور ساری دنیا میں مسلمان بھر پور غم وغصے کا شکار نظر آتے ہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں مذہبی شخصیت یا کوئی عالم دین ہمیں اپنے والدین سے بھی زیادہ عزیز ہے اور اسکے خلاف کوئی نازیبا لفظ ہم نہیں سن سکتے۔ جبکہ مقامی قوانین اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی کسی کو اپنا والد سمجھنا شروع کر دے تو وہ اسکا مسئلہ ہے کیونکہ مذاق کا براہ راست ہدف کوئی زندہ انسان جو کوئی عوامی شخصیت کا حامل نہ ہو اسکے اور اسکے حقیقی والدین کا کسی نے مذاق نہیں اڑایا اس لیے ہماری آزادی اظہار رائے کو پامال کرنا ہمارے حقوق کی تلفی ہے۔ مغرب میں اس معاملے پر یہاں کی وہ سفید فام پارٹیاں جو باہر سے آنے والوں پر پابندیوں کے حق میں نعرے لگاتی ہیں اکثر ان موقعوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے موقف کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں آزادی اظہار رائے کے قوانین پر کوئی تفریق نہیں لبرل ہوں یا قدامت پسند ، ڈیموکریٹس ہوں یا رپبلکن ، ٹوری پارٹی ہو یا لیبر ، ٹی پارٹی ہو یا کافی پارٹی ، سوشلسٹ ہوں یا کوئی مذہبی ٹولا ان قوانین کے بارے میں تمام ایک ہی پیج پر ہیں ، مغرب کے آزادی اظہار رائے کے قوانین کے پیچھے کم سے کم تین سو سال کی سائنسی تحقیق اور فلسفہ کار فرما ہے۔ مغرب میں قانون دان اور قوانین کی تحقیق آزادی اظہار رائے کو مکملُ حفاظت کرنے کے حق میں نظر آتے ہیں ۔
تحقیق کے مطابق معاشرے میں تعلیم ، انسانی حقوق ، حقوق نسواں ، امن وامان کی صورت حال ، جمہوریت ، سیکولرازم ، فلسفہُ ، سائنس اور کم وبیش زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے پیچھے جو چیز ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے وہ آزادی اظہار رائے ہے۔اس آزادی کے بغیر اعلی تعلیمی معیار کو برقرار رکھنا ناممکن ہے اور ملک کا نظام اس آزادی کے بغیر غیر ترقی رافتہ ممالک اور غیر جمہوری و غیر سیکولر نظام میں بدل جاتا ہے۔
دنیا جس بات کو آزادی اظہار رائے کے قانون کی دی ہوئی آزادی سمجھ کر اپنا انسانی حق سمجھ کر کرے وہ مسلمانوں کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔ چاہے اس ضمن میں مغربی محقق انہیں ہزاروں تحقیقی جریدوں کی صورت میں معاشرے پر ہونے والے مثبت اثرات فراہم کرے مگر وہ تمام باتیں جسے مہذب دنیا نفرت کا کلام کہہ کر جرم تصور کرے وہ اسلامی معاشرے میں ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے جس پر شوروغوغا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یہ ہے صورت حال کہ علم و سائنس و فلسفے کی دوری نے اسلامی معاشرے کو مہذب دنیا کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے اور مسلمان اس بات پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنا تو درکنار کو اس بارے میں بات بھی سننا نہیں چاہتے۔ اس پر انکے مولوی جو خود بھی اس معاملے میں حقیقت و قوانین سے مکمل طور پر نا آشنا ہونے کے سبب لوگوں کو سمجھانا تو در کنار الٹا اور آگ لگاتے پائے جاتے ہیں۔
♥