لیاقت علی
پاکستان اس وقت مذہبی انتہاپسندی کی جس گرفت میں جکڑا ہوا ہے اس کو یہاں تک لانے میں کوئی ایک دن، مہینہ یا سال نہیں پورے 75 سال لگے ہیں اور یہ ایک شعوری پراجیکٹ تھاجس کا مقصد عوام کے بےشعوربنا کر اور ان کے مذہبی جذبات ابھار کر حکومت کرناتھا۔
اس پراجیکٹ میں ہمارے ہر حکومت،ہر سیاستدان اورجنرل نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے حتی کہ جنرل یحییٰ خان جسے عمومی طورشرابی اور زانی قرار دے کر مطعون کیا جاتا ہے اس نے بھی اسلام پسندی کو بطورخاص اپنا موٹو بنائے رکھا تھا۔ اس کا نافذ کردہ ایل ایف او(لیگل فریم ورک آرڈر) میں پاکستان کی مذہبی شناخت کی شق موجود تھی۔
ہماری ریاستی اور حکومتوں کی کوششوں سے مذہبی انتہا پسندی ایک بلا بن گئی ہے جو کسی وقت کسی کو بھی کھا سکتی ہے لیکن اب صورت یہ بن گئی ہے کہ اس نے خود اپنے خالقوں ہی کو نگلنا شروع کردیا ہے۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ اطہر اقبال نامی ایک مسیحی کو کوٹ لکھپت جیل جہاں وہ بلاسفیمی کے الزام میں بند کو زہر دے کر قتل کردیا گیا تھا۔
اطہر اقبال پاکستان ائیر فورس کا ریٹائرڈ ائیرمین تھا اور لاہور کی نشاط کالونی میں گھڑی ساز تھا۔ اور پھر یوسف جسے ایک مفاد پرست صحافی نے اپنے اخبار کے ذریعے کذاب کانام دےدیا تھا کو مبینہ طور پر اپنے رپورٹر کے ذریعے جیل میں قتل کرایا تھا تاکہ اس کی پراپرٹی واقع لارنس لاہور پر قبضہ جمایا جاسکے۔
راشد رحمان ایڈووکیٹ کےقتل کو تو ابھی زیادہ سال نہیں ہوئے۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ جنید حفیظ کے کیس میں وکیل تھا اور جنید حفیظ کو بلاسفیمی میں ملوث قرار دے کر گذشتہ کم و بیش دس سالوں سے جیل میں رکھا ہواہے۔یاد رہے کہ آج تک 80 قریب کے افراد بلاسفیمی کے الزام میں ماورائے عدالت قتل ہوچکے ہیں اور ماسوائے چند ایک کیسوں کے زیادہ تر میں پہلے تو ملزموں کا سراغ ہی نہیں ملا اور اگر کوئی گرفتار ہوا بھی تو چند ماہ یا کچھ سال بعد باعزت بری ہوکر گھر چلا گیا۔
آج تک مذہبی انتہاپسندوں کے ہاتھوں سینکڑوں افراد قتل ہوچکے ہیں لیکن چند دن تک رو دھوکر ریاست پھر اسی پرانی ڈگر پر چلتی رہتی ہے۔جوں ہی مذہبی انتہا پسندی کے زیر اثر قتل وغارت گری کا کوئ واقعہ ہوتا ہے تو ریاستی عہدیدار ملزموں کو قرار واقعی سزا دینے کا شور ڈالتے ہیں اور پھر چند دن چپ چاپ کرکے دوسروں کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے کہ ریاست خود مذہب کو اپنے ریاستی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔یہ ریاست ہی جو سب سے زیادہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہے جب تک ریاست اور مذہب کا باہمی تال میل رہے گا مذہبی انتہاپسندی نہ صرف جاری رہے گی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
آئین اورقوانین میں ایسی تبدیلیوں کرنا ہوں گی جس سے ریاست پاکستان سب شہریوں کی ریاست بن سکے اور ہر شہری کو اپنے مذہبی عقیدے پر عمل پیرا ہونے کی آزادی ملے۔ مذہب سماجی سیاسی اور قانونی امتیاز کا ٹول نہ بن سکے۔ جب تک ریاست اور مذہب کی دوئی قائم نہیں ہوتی اس وقت تک مذہبی انتہا پسندی پر قابو پانا ناممکن ہے خواہ اس کے لئے جتنے مرضی انتطامی اقدامات کیوں نہ کرلیں۔
♠
One Comment