پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ چونکہ وہ اقتدار پر حکومت کی گرفت کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اسلام آباد کی موجودہ حکومت انہیں قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ”وہ خوف زدہ ہیں۔ الیکشن کے بارے میں انہیں معلوم ہے کہ وہ مقابلہ نہیں کر سکتے، اور اس لیے ان کا مقصد مجھے راستے سے ہٹانا تھا۔ انہوں نے دوسرے طریقے بھی آزمائے اور مجھے نااہل قرار دینے کی کوشش کے ساتھ ہی میرے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بھی دائر کیے”۔
عمران خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،“جن لوگوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے، جو یہ چاہتے ہیں کہ مجھے ختم کر دیا جائے، وہ موجودہ حکومت ہے۔”
عمران خان سابق قومی کرکٹ ہیرو بھی ہیں، جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے سن 1992 میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ انہوں نے اگست سن 2018 سے اپریل 2022 تک بطور وزیر اعظم پاکستان خدمات انجام دیں۔ اس وقت وہ ملک میں جلد عام انتخابات کے لیے ایک احتجاجی مہم چلا رہے ہیں اور اسی کی قیادت کرتے ہوئے گزشتہ تین نومبر کو گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔
ریلی کے دوران بندوق برداروں نے ان پر حملہ کر دیا تھا، جس میں ان کی ٹانگ اور رانوں پر تین گولیاں لگیں۔ اس حملے میں ان کا ایک حامی ہلاک اور دیگر 14 زخمی ہو گئے تھے۔
عمران خان کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ وہ اسلام آباد کی موجودہ حکومت اور امریکہ کے درمیان ہونے والی ایک سازش کا نشانہ بنے۔
انہوں نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عدم اعتماد کا ووٹ، جس کے ذریعے انہیں گزشتہ اپریل میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، اور اس کے بعد ہونے والا ان پر قاتلانہ حملہ اسی سازش کا حصہ تھے۔
انہوں نے بتایا ”سازش دو ماہ قبل شروع کی گئی تھی۔ انہوں نے اس بہانے سے مجھے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا کہ ایک جنونی مذہبی شخص مجھے قتل کر دیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا، ”جو لوگ سب سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور جو مجھے ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ تو موجودہ حکومت ہے”۔
جب ڈی ڈبلیو نے اس سازش کے لیے ان سے ثبوت فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، تو عمران خان نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس جو کچھ بھی ثبوت ہیں، وہ بس ”قرائنی شواہد” ہی ہیں۔
عمران خان کو حملے کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ا ن کے پیروں سے گولیاں نکال لی گئی ہیں۔ انہوں نے بات چیت کے دوران اپنے حامیوں پر اس بات کے لیے زور دیا کہ وہ عام انتخابات کرانے پر حکومت کو مجبور کرنے کے لیے اسلام آباد کی جانب اپنا مارچ جاری رکھیں۔
سابق وزیر اعظم نے گزشتہ مہینے کے اواخر میں اس مارچ کا آغاز کیا تھا لیکن اس ماہ کے اوائل میں فائرنگ کی وجہ سے زخمی ہونے کے بعد وہ اسے درمیان میں ہی ترک کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
ادھر جمعرات کے روز ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے جلد انتخابات کے امکان کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مقررہ وقت کے مطابق ہی ملک میں عام انتخابات 2023 میں گے۔
dw.com/urdu