بصیر نوید
نوجوانی کی دہلیز میں داخل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے جب ہم دوست پابندی کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے کیونکہ یہ واحد موقع ہوتا تھا جب محلے کے لگ بھگ تمام ہی بڑی عمر کے لوگ با جماعت نماز پڑھتے تھے اور محلے کے بچوں کے بارے رائے تبدیل ہوتی تھی بلکہ یوں کہیے کہ نماز میں آنے والوں کو نیک، شریف اور دیانتدار سمجھا جاتا تھا۔ اسی سند کیلئے مغرب کی نماز کو ہم لوگ ضرور جایا کرتے تھے۔
مسجد میں ایک بزرگ بھی تھے جو رضاکارانہ طور پر مسجد میں انتظامی امور سنبھالتے تھے ان کی مسجد میں آنے والے بچوں کے ساتھ چھیڑ خانی رہتی تھی بچے انہیں گلاب جامن پکار کر ‘کھی کھی ‘کرتے ہوئے نماز توڑ کر بھاگ جاتے تھے اور وہ کسی بھی بچے پر اپنا غصہ اتار دیتے تھے۔ انہیں گلاب جامن کیوں کہا جاتا تھا اسکا علم ان کے انتقال کے بعد ہوا۔ وہ ہمیشہ دھوتی پہنے رہتے تھے جو انکی بیماری کا نتیجہ تھی۔ گلاب جامن کی چھیڑ نے بعد ازاں انکے نام کی جگہ لے لی تھی۔ حتیٰ کہ جب انکی رحلت کی خبرصبح صبح محلے میں عام ہوئی تو ہر کوئی ایک دوسرے کو بتاتا تھا کہ گلاب جامن کا انتقال ہوگیا۔
چھٹی کا دن تھا ہر ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ نماز ظہر پر گلاب جامن کے جنازے میں شرکت کرنی ہے؟۔انکی نماز جنازہ میں کافی تعداد میں اہل محلہ شریک ہوئے تو ہر ایک ان کے نیک ہونے کا کہتے ہوئے کہتا تھا گلاب جامن نیک آدمی تھی دیکھئے کتنا بڑا جنازہ ہوگیا؟ سوئم بھی عصر کے وقت رکھا گیا تھا جس کی اطلاع کچھ یوں دی جاتی تھی کہ گلاب جامن کا سوئم بروز منگل بعد نماز عصر ہوگا۔ ان کے بیٹے نے سوئم میں شرکت نہیں کی۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ انکا بیٹا دھوبی ہے جو بیشمار گھروں سے کپڑے جمع کرکے دھوتا ہے نام اسکا انور تھا۔
ہم کچھ لڑکوں نے اس سے گلاب جامن نام رکھے جانے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ پیشاب سے متعلق کچھ بیماریوں میں مبتلا تھے اس لئے وہ دھوتی پہنتے تھے۔ جب محلے والوں اور خاص کر گھر کی عورتوں کو پتہ چلا کہ انور گلاب جامن کا بیٹا ہے تو انور کا نام ہی گلاب جامن بیٹا پڑ گیا۔ ایک دن انور ہمارے گھر دھلے ہوئے کپڑے لایا تو گھمبیر آواز میں اماں کو بتایا کہ یہ آخری دھوب ہے اب وہ کہیں اور جارہا ہے۔ جب وجہ پوچھی تو رونے لگا کہ ابا کی میت پر بھی لوگ انہیں گلاب جامن کے نام سے یاد کرتے رہے مجھے ساری زندگی بڑا برا لگتا تھا کہ لوگ بچوں کو منع کرنے کی بجائے خود بھی اسی نام سے پکارنے لگے۔ اسی لئے میں ان کے سوئم میں شریک نہیں ہوا اب لوگ میرا نام بھی بھول گئے ہیں سب مجھے گلاب جامن کا بیٹا کہتے ہیں۔ میں نے شادی بھی کرنی ہے ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے بچوں کو گلاب جامن کے پوتے اور پوتی کہیں۔۔اور وہ بغیر پیسے لئے باہر چلا گیا۔ دوسرے دن انور اور اسکا گدھا محلے سے چلے گئے۔
بچپن کا یہ واقعہ مجھے آج کل بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔ عمران خان نے پاک فوج کو میر جعفر میر صادق کا نام دیدیا جو اب ان پر چپک گیا ہے، دوسرے یہ نعرہ “اسکے پیچھے وردی ہے” ایک عام سا نعرہ بن گیا۔ کسی کا بھی احتجاج ہو چاہے وکلا کا احتجاج ہو یا قانون کی بالادستی کی کانفرنس ہو یہ نعرہ بار بار لگتا ہے، اگر جبری طور پر گمشدہ افراد کیلئے پورے ملک میں جہاں جہاں مظاہرے یا احتجاج ہوتے ہیں ان کی ابتدا ہی “اسکے پیچھے وردی ہے ” سے ہوتی ہے اور جتنے گھٹنے یا دن احتجاج چلے یہی نعرہ سب سے بلند اور جوشیلے ہوتا ہے۔ چاہے نرسیں ہی کیوں نہ احتجاج کریں یہ نعرے انکے احتجاج کی بھی زینت ہوتے ہیں۔
سیلاب زدگان اپنی تمام تر پریشانی کا حل بھی اسی نعرے میں ڈھونڈتے ہیں۔ چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر، گلگت و بلوچستان میں قوم پرستوں سمیت ہر سو یہ نعرے لگتے ہیں۔ اب یہ نعرہ فوج کیلئے ایک چھیڑ بن گئی ہے، وہ اس نعرے سے کیسے جان چھڑائیں گے؟ کیا گلاب جامن کا بیٹا کی طرح کہیں اور چلے جائیں گے؟ اس بات کو اب کسی طرح لوگوں سے پوشیدہ رکھنا بھی درست نہیں ہوگا کہ اب میر جعفر اور میر صادق عام گفتگو کا موضوع بن گئے ہیں۔
ٹی وی کے وہ اینکر پرسنز جو عمران خان اور تحریک انصاف کے مخالف اور فوج کو ادارہ ثابت کرکے فوج کی حمایت کرتے ہیں وہ بھی اپنے ہر پروگرام میں عمران خان کی آواز میں یہ ضرور یاددہانی کراتے ہیں کہ نیوٹرل جانور ہوتا ہے یا میر جعفر اور میر صادق۔ پاک فوج کیلئے یہ سارے القابات عام فہم اور زد عام عام ہوگئے ہیں۔ میرا خیال ہے میر جعفر اور میر صادق اب فوج کیلئے چھیڑ بنتے جارہے ہیں۔ میں یہ سوچ کر پریشان ہوجاتا ہوں کہ فوجی ٹرک جب عام گلیوں اور سڑکوں سے گذریں گے تو کیا ہوگا؟
سوال یہ ہے کہ اب فوج اور فوجی حضرات چڑ اور چھیڑ خوانی سے کیسے جان چھڑائیں گے انور دھوبی تو اپنا گدھا لیکر دوسرے محلے چلاگیا تھا۔
♣