پائندخان خروٹی
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موروثیت یا خاندانی سیاست ایشیائی معاشروں میں صدیوں سے مروج ہے۔ موروثی سیاست کی منفی اصطلاح کو بعض مخصوص افراد ذاتی مفاد کیلئے تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار کسی کی کردار کشی کیلئے بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موروثیت صرف سیاست اور سیاسی پارٹیوں تک محدود ہے؟ یا زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی مروج ہے۔
مثال کے طور پر مذہبی سلسلہ طریقت میں گدی نشینی کیلئے تو اولیت خاندانی شجرہ نسب کو ہی حاصل ہے۔ موروثیت کی ایک بڑی مثال ہندوستان کی فلمی صنعت ہے۔ مشہور و معروف فلمی ایکٹر اور ایکٹریسز کے فیملی ممبرز سے ہم سب خوب واقف ہیں۔ گلشن موسیقی اور موسیقاروں میں بھی موروثیت ایک عام رواج ہے۔ عسکری شعبوں میں موروثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ طب، وکالت اور صحافت کے شعبوں میں موروثیت کی روایت بہت مضبوط ہے۔
اس سب کے باوجود ایشیائی معاشرے کا سب سے تکلیف دہ اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کلچر کے جھوٹے مگر مقدس رسم و رواج کے نام پر حجام اور صفائی وغیرہ کے شعبوں میں معاشی بدحالی کے شکار ہمیشہ کیلئے روایتی زنجیروں سے باندھے گئے ہیں۔ جس طرح ہندو سماج میں دلت اور شودر کو پیدائشی طور پر کم تر اور حقیر سمجھے جاتے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی ذات پات کا نظام قائم و دائم ہے۔
اس کے علاوہ معاشرے کی نصف آبادی پر مشتمل خواتین تو کلچر، ریلیجن اور ریاست کے بنائے گئے امتیازی قوانین کے خلاف صدیوں سے کاوشیں کرتی آ رہی ہیں جس کی زندہ مثال ایران میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم کرنے والے سے ظلم سہنے والے بڑے ظالم ہوتے ہیں کیونکہ ظلم اور استحصالی کرنے والوں سے برداشت کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہیں۔ موروثیت کی ٹھوس وجہ یہ ہے کہ پسماندہ معاشروں نے ارتقاء اور ترقی کی وہ منازل طے نہیں کیے ہیں جن سے براعظم یورپ اور امریکہ کے عوام کافی آگے نکل چکے ہیں۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغل حکمرانوں، برطانوی سامراج اور موجودہ حکمران طبقوں نے ان ہی خاندانوں کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا ہیں۔ نافذ العمل سسٹم اینڈ سٹیٹس کو کے خلاف برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں طبقاتی جدوجہد اور تحریک آزادی کے صف اول کے ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند کی گرجدار آواز شاید پہلی مرتبہ گونجی ہے اور انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ موروثیت اور ذات پات کے رسم رواج نافذ العمل سسٹم اینڈ سٹیٹسکو کی تبدیلی سے مشروط ہے۔ موروثیت سے زیادہ بڑا مسئلہ ظلم و استحصال کا خاتمہ ہے۔
اصل مسئلہ تو معاشرے کی سیاست اور معیشت پر مسلط بالادست طبقہ کا ہے۔ تمام سیاسی، معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں معاشرے کے محروم اور محکوم لوگوں کی شرکت اور شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے راہ ہموار کرنی ہے۔ بقولِ صنوبر کاکاجی ہم نے اس کے خلاف دو مختلف مگر مسلح جنگیں لڑنی ہیں پہلی جنگ استعمار کے خلاف اور دوسری جنگ استعمار کے خلاف۔ ہر قسم کے سیاسی اور مذہبی امتیازات اور تضادات کے مکمل خاتمے کیلئے سوشلسٹ سماج کی تعمیر و تشکیل ناگزیر ہے۔
♠