محمد حنیف
وزیرِ اعظم بننے سے پہلے عمران خان سینے پر ہاتھ مار کر کہتے تھے کہ کوئی ریاست ایسا ظلم کیسے کر سکتی ہے جب میں وزیرِ اعظم بنوں گا تو جبری طور پر لاپتہ افراد کو ڈھونڈ نکالوں گا۔
وزیرِاعظم بن کر دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ کوئی دو سال پہلے چند منٹ نکال کر مسنگ پرسنز کے خاندان والوں سے ملے وہ بھی شاید اس لیے کہ وہ اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
پھر وعدہ کیا کہ آپ گھر جائیں تسلی رکھیں واپس آ جائیں گے میں پتا کرتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے پتا کیا یا کسی ذمے دار ادارے کے بڑے سے پوچھا کہ یہ مسئلہ کیا ہے۔
نواز شریف نے بھی دل پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ کوئی ریاست اتنا ظلم کیسے کر سکتی ہے، کیا ان لوگوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ مریم نواز شریف نے بھی کوئٹہ کے ایک جلسے میں ایک بلوچ خاتون کو ساتھ کھڑا کیا جس کے ہاتھوں میں اس کے تین لاپتہ بھائیوں کی تصویریں تھیں۔ (جی ہاں ریاست یہ بھی کر سکتی ہے کہ اللہ نے ہاتھ آپ کو دو دیے ہیں لیکن آپ تین لاپتہ بھائیوں کی تصویریں سنبھالیں)۔
مریم نواز شریف نے بڑے درد بھرے لہجے میں کہا کہ جب میں جیل میں تھی تب بھی میرا آنسو نہیں نکلا لیکن اس بہن کی کہانی سن کر میرے آنسو نکل آئے۔ ان کی حکومت کو آئے سال گزر چکا ہے لیکن میں نے انھیں اس مسئلے پر بات کرتے نہیں سنا۔
بلاول بھٹو سے بھی اس مسئلے کے بارے میں ایک مرتبہ پوچھا گیا تھا تو انھوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ جنھوں نے اٹھایا ہے ان سے پوچھو۔
اب ان لاپتہ افراد کے خاندان جانے والے اور آنے والے سب دردمند حکمرانوں کے سامنے اپنا دامن پھیلا چکے ہیں تو ہماری عید خراب کرنے پریس کلبوں کے باہر اور سوشل میڈیا پر آ کر اپنے پیاروں کی تصویریں ہمارے سامنے لہرا رہے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ کی عید کیسی گزر رہی ہے، آپ نے بکرے خریدے، چوڑیاں پہنی، ہم نے یہ پوسٹر بنائے ہیں۔
ہماری یہ عید بھی آپ سے یہ سوال پوچھتے گزر رہی ہے کہ ہمارے ابو، ہمارے بھائی، آپ گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے، ہمیں بتاؤ وہ کہاں ہیں؟
سوال پوچھنے والوں میں سے زیادہ تر خواتین ہیں اور مجھ جیسے کئی اور صحافی یہ جانتے ہیں کہ یہ نوجوان خواتین جب احتجاج کرنے نکلی تھیں تو بچیاں تھیں، پریس کلبوں کے باہر بیٹھے بیٹھے جوان ہوئی ہیں۔
میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں دوستوں کی بچیاں اپنے پروفیشنل کریئر کا آغاز کر رہی ہیں۔ ایک دوست کی بیٹی نے سی ایس ایس کر لیا ہے، ایک اور دوست کی ہونہار بیٹی ڈاکٹر بن گئی، میرے گاؤں کی ایک بچی نے پورے صوبے میں آئی ٹی میں اعلی پوزیشن حاصل کی ہے، کچھ کی شادی کی بات چل رہی ہے۔
میں جب ان بچیوں کی کامیابیوں پر مبارکباد دیتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ان سب کی عمر سمی دین بلوچ کے آس پاس ہے۔ جب وہ بارہ سال کی تھی تو اس نے بتایا تھا کہ میرا باپ ڈاکٹر دین محمد سرکاری ہسپتال میں کام کرتا تھا اور اتنا ایماندار تھا کہ جب گھر میں ہم بیمار ہوتے تھے تو وہ ہسپتال سے دوائی نہیں لاتا تھا بلکہ اپنے پیسوں سے میڈیکل سٹور سے گولی خرید کر دیتا تھا۔
پاکستان کے اداروں کو اور عوام کو ہمیشہ ایک ایماندار شخص کی تلاش رہتی ہے۔ میں نے ڈاکٹر دین محمد کی گواہی سنی ہے وہ شاید ہمارے سارے حکمرانوں کے مقابلے زیادہ ایماندر تھا کہ اپنے بچوں کو اپنے سرکاری ہپستال سے اسپرین بھی نہیں دیتا تھا۔
پاکستان کے سب سے بڑے ادارے نے اپنے گھر کی صفائی کر کے قوم سے داد وصول کی ہے کہ اگر کوئی ہمارے بھرم توڑے گا تو ہم یہ نہیں دیکھیں گے کہ کس کے کندھے پر کتنے ستارے ہیں اور کوئی کس کی پوتی ہے۔
ادارے کو اپنے اندر کسی ادارے سے پوچھنا چاہیے ( کیونکہ ہمارے سویلین حکمران تو پوچھیں گے نہیں) کہ ان بندوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ ہمارے زمین آسمان تو آپ ہی ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی بری خبر ہے تو خاندان والوں کو بتا دیں انھیں صبر آ جائے گا۔
اس سے بھی بہتر حل ایک بلوچ خاتون نے دیا ہے کہ چونکہ آپ ہمارے مسنگ واپس نہیں لا سکتے تو آپ ان کے خاندانوں کو بھی مسنگ کر دیں۔ یا تو بچھڑے ہوئے مل جائیں گے یا کم از کم یہ ہماری عید تو خراب نہیں کریں گے۔
bbc.com/urdu بشکریہ
♠