زبیر حسین
جینیاتی کوڈ کی بجائے جین کے اظہار میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں جانداروں میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعہ کو ایپی جینیٹکس کہتے ہیں۔ یہ ایک نئی سائنس ہے اور اس کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم دنیا میں تشریف لانے کے بعد کیسے انسان بنتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس سائنسی علم کا تعلق ان محرکات یا عوامل سے جو ہمارے افکار و افعال، اخلاق و کردار، عقل و دانش، اور جسمانی اور ذہنی صحت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رحم مادر میں زیر پرورش بچے کے جینز اور ماحول کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ ماحول میں ہونے والی تبدیلیاں یا بیرونی محرکات جینیاتی کوڈ کو تبدیل نہیں کر سکتے لیکن جینز کے اظہار کر متاثر کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں یا بیرونی محرکات کی ایک مثال رحم مادر میں جنین کو ملنے والی غذا ہے۔ جو غذا ماں کھاتی ہے وہی اس کے رحم میں پرورش پانے والے بچے کو ملتی ہے۔ ناقص یا کم غذا ڈی این اے یا جینیاتی کوڈ میں تبدیلی کئے بغیر جینز کے اظہار کو بدل دیتی ہے۔ اگر ماں سٹریس (تناؤ) کا شکار ہے تو اس کے اثر سے بھی جینز کا اظہار تبدیل ہو جاتا ہے۔
ماضی میں سائنسدان متفق تھے کہ موٹاپا، ذیابیطس، دل کی خرابیاں، کینسر، اور دیگر دائمی امراض کا سبب مریض کا لائف سٹائل تھا۔ ڈاکٹرڈیوڈ بارکر اس پرانے ماڈل سے مطمئن نہیں تھا۔ وہ مانتا تھا کہ فرد کا لائف سٹائل بیماریوں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کرتا تھا۔ لیکن وہ دائمی امراض کے اسباب کو انسان کی زندگی کے پہلے ایک ہزار دنوں بلکہ حمل کے آغاز سے بھی بہت پہلے کے زمانے میں تلاش کرنے پر زور دیتا تھا۔ ڈاکٹر بارکر کی رائے میں ماں باپ حتی ٰکہ دادا دادی اور نانا نانی کے لائف سٹائل مثلا” ان کی غذا، موٹاپا، ورزش نہ کرنا، سگریٹ نوشی، الکحل کا استعمال، نشہ کرنا، نفسیاتی سٹریس، اور دن کی بجائے رات کو کام کرنا بھی ایپی جینیٹکس یا جینز کے اظہار میں تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں۔ جینز کے اظہار میں یہ تبدیلیاں بہت سے دائمی امراض مثلا” ذیابیطس، دل یا جگر کی خرابی، کینسر، اور ڈپریشن کو جنم دیتی ہیں۔ نیز یہ تبدیلیاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔
چوہوں پر ہونے والے تجربات سے ڈاکٹر بارکر کے مفروضے کو تقویت ملی۔ آہستہ آہستہ ماحول کے انسانوں پر اثرات بھی ثابت ہونا شروع ہو گئے۔ خوراک کی کمی یا قحط کے زمانے میں حاملہ ہونے والی ماؤں کی اسٹڈی یا مطالعے سے بھی جینز کے اظہار میں تبدیلیوں کی تصدیق ہو گئی۔ جن ماؤں کو حمل کے آغاز میں قحط کا سامنا کرنا پڑا ان کے بچوں میں ڈی این اے میتھیلیشن کم ہو گئی اور بڑے ہونے پر میٹابولک پروفائل ناگوار، باڈی ماس انڈکس زیادہ، اور خراب کولیسٹرول کے ساتھ خون میں شوگر کی زیادتی کا امکان بڑھ گیا۔ جن افراد کی مائیں قحط کے آغاز میں حمل کے آخری مرحلے میں تھیں ان کی ڈی این اے میتھیلیشن پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنین اپنی نشوونما کے ابتدائی مراحل میں ماحول سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ خیال رہے ڈی این اے میتھیلیشن میں کمی ایپی جینیٹکس یعنی جینز کے اظہار میں تبدیلیوں کی نشان دیہی کرتی ہے۔
برطانوی سائنسدان کونارڈ وڈنگٹن نے ماحول اور بیرونی محرکات کے نتیجے میں جینز کے اظہار میں ہونے والی تبدیلیوں کے لئے ایپی جینیٹکس کی اصطلاح ١٩٤٢ میں وضع کی۔ اس سے پہلے بیشتر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ جنین ایک منی انسان ہے اور اس میں ایک انسان کی تمام بالغآنہ خصوصیات حمل قرار پانے کے وقت سے ہی موجود ہوتی ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کی رائے میں بچہ ایک ترقیاتی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس ترقیاتی عمل میں مختلف اجزا کے درمیان تعامل کا ایک طویل سلسلہ کا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر وڈنگٹن کا تعلق موخر الذکر گروپ سے تھا۔ اس نے اپنے نظریات کی وضاحت کے لئے ایک فریم ورک شائع کیا۔ اس نے زائیگوٹ یا فرٹیلائزڈ انڈے کو ایک بال یا گیند سے تشبیہ دی۔ یہ گیند ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہے اور نیچے بہت سی افقی وادیاں پہاڑی کو کاٹ رہی ہیں۔ ہر وادی کو ایک چوراہا سمجھ لیں۔ گیند نیچے لڑھکتی ہے (یعنی فرٹیلائزڈ انڈے یا خلیے کی نشوونما ہوتی ہے) تو یہ مختلف مقامات سے گزرتی ہے۔ اس سفر میں ہونے والا ہر تجربہ گیند پر ریکارڈ ہوتا ہے۔ یوں وقت گزارنے کے ساتھ گیند میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ جب یہ گیند پہاڑی سے نیچے اترتی ہے تو راستے میں پیش آنے والے سارے تجربات اس پر نقش ہوتے ہیں۔ ایک اکلوتے خلیے سے سفر کا آغاز کرنے والی یہ گیند اب بیشمار مختلف خلیات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ یہ خلیات قلب، دماغ، جگر، گردے، اور دیگر اعضا جن سے ایک مکمل انسان وجود میں آتا ہے بناتے ہیں۔ ہر خلیے نے اپنا جینیاتی مواد برقرار رکھا ہے لیکن اس کے جینز کیسے اظہار کرتے ہیں اس میں تبدیلی آ چکی ہے۔
انسان کے جسم میں موجود تمام جینز کے مجموعے کو جینوم کہتے ہیں۔ جین ڈی این اے پر علاقے ہیں۔ ڈی این اے ایک کیمیائی مرکب ہے جو جینوم میں بنیادی معلومات لے جاتا ہے۔ ڈی این اے ١٩٥٣ میں دریافت ہوا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جینیٹکس کوئی نئی سائنس ہے۔ ریاضی دان، کیمیا دان، اور ماہرین حیاتیات صدیوں سے بچے سے مکمل انسان بننے کے عمل کا مطالعہ کرتے آئے ہیں۔ ابتدا میں مرد کی منی کو زندگی کا منبع اور موروثی معلومات کی منتقلی کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ عورت کا کردار بس بچے کو غذائیت مہیا کرنا تھا۔ ارسطو نے یہ کہہ کر کہ بچہ باپ اور ماں دونوں سے خصوصیات وراثت میں حاصل کرتا ہے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔
قصہ مختصر اس صدی کے آغاز میں یہ خیال پختہ ہو گیا کہ جس قسم کے ماحول میں جنین کی نشوونما ہوتی ہے اس ماحول کے منفی اور مثبت اثرات سے فرد زندگی بھر متاثر رہتا ہے۔ نیز ان اثرات سے آئندہ نسلیں بھی متاثر ہو سکتی ہیں۔ جو عوامل یا محرکات رحم مادر میں جنین کی نشوونما پر عصر انداز ہوتے ہیں ان میں سے بیشتر کا ذکر ہو چکا ہے۔ اب چند اور عوامل کا اضافہ کر دیتا ہوں۔ ماں کا پلیسینٹا یا نال جس سے رحم مادر میں پرورش پانے والے بچے کو غذا ملتی ہے اس کے سائز اور شکل میں بعض تغیرات کی وجہ سے افشار خون، دل کی خرابی، اور پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح ماں کی کچھ جسمانی خصوصیات مثلا” پستہ قد ہونا یا باڈی ماس انڈکس ہائی ہونا بچے کو دائمی امراض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ نیز پیدائش کے وقت بچے کا وزن بہت زیادہ ہونا موٹاپے، ٹائپ ٹو ذیابیطس، اور کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ آخر میں ایک اچھی خبر بھی سن لیں۔ ایپی جینیٹکس یا جینز کے اظہار میں ہونے والی تبدیلیوں کو پلٹانا ممکن ہے۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں انٹرنیٹ اور گوگل کے ساتھ درج ذیل کتاب سے مدد لی گئی۔
آپ وہی کچھ ہیں جو آپ کے دادا دادی اور نانا نانی کھاتے تھے (جوڈتھ فنلیسن)۔