بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کا نمبر ون مسئلہ پاکستان کا معاشی بحران ہے۔ ہر گفتگو کا نقطہ ماسکہ یہی مسئلہ رہا ہے۔ اور ہر بحث کے اختتام پر اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی ہے، اور باقی تمام چھوٹے بڑے مسائل بھی کئی نہ کئی سے جا کر معاشی مسئلے سے ہی جڑتے ہیں۔ معاشی بحران کے حل کے لیے کئی منصوبے پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان منصوبوں پر عمل کب اور کیسے ہوگا، یہ ایک سوال ہے ، جس کا کوئی جواب نہیں۔
پاکستان میں فوری طور پر ضروریات پوری کرنے کے لیے جن چیزوں پر بھروسہ کیا جاتا ہے، ان میں بیرونی قرضے، غیر ملکی امداد، اندرونی قرضے یا ٹیکس سمیت دیگر اندرونی وسائل شامل ہیں۔ اس لیے جوں جوں پاکستان کا معاشی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے توں توں اس بات پر گفتگو میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں بیرونی قرضوں ، امداد یا ملکی آمدن سمیت دیگر زرائع سے جو آمدن میسر آتی ہے، اس کو خرچ کیسے کیا جائے۔
اس بحث کا پاکستان کے معاشی بحران سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان کے سنجیدہ ماہر معاشیات پاکستان کے خزانے کو ایک ایسے تھیلے سے تشبیہ دیتے ہیں، جس میں بے شمارسوراخ اور چھید ہیں۔ اس تھیلے میں آپ آئی ایم یف ، سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات، یا چین سے کھربوں ڈالر کا قرض یا امداد لے کر ڈالتے جائیں، وہ ان سوراخوں اور چھیدوں سے نکل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دو درجن پروگرامات میں شرکت کرنے اور دوست ممالک سے کھربوں ڈالر لینے کے باوجود پاکستان کا معاشی بحران ہے کہ دن بدن گہرے سے گہرا تر ہوتا جاتا ہے۔
تھیلے کے ان سوراخوں میں سب سے بڑا سوراخ وہ ہے، جو ملک کے مراعات یافتہ طبقات کی طرف کھلتا ہے۔ یہ سوراخ اب اتنا نمایاں اور واضح ہو گیا ہے کہ آئئِ ایم ایف جیسے ادارے کو بھی جو عام طور پر کسی ملک کے مراعات یافتہ طبقات کی مفادات کی ہی حفاظت کرتا ہے، یہ کہنا پڑا کہ پاکستان کو مراعات یافتہ طبقات سے ٹیکس وصول کر کہ غریب طبقات پر خرچ کرنا پڑے گا۔ ملک کے اندر یہ سوچ اور شعور پہلے دن سے موجود ہے کہ پاکستان میں دولت کی تقسیم انتہائی ناہموار اور غیر مساوی ہے۔ ملک میں ایسی پا لیسیاں اور قوانین بنائے جاتے ہیں، جو مراعات یافتہ طبقے کی مراعات میں اضافے اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا موجب بنتے ہیں۔ اس موضوع پر کئی عشروں سے لکھا اور بولا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے عوام کا طبقاتی شعور کافی حد تک بڑھا ہے، لیکن ملک کی پالیسیوں اور قوانین میں مسلسل ایسی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جوطبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہیں اور مراعات یافتہ طبقات کے مراعات میں اضافہ کر رہی ہیں۔
یہ سلسلہ اس عرصے میں بھی جاری رہا، جب ملک میں ڈیفالٹ ہونے کے خطرے پر عام بات ہو رہی تھی۔ حیرت انگیز طور پرگہرے بحران کے اس دور میں نا صرف مختلف مراعات یافتہ مراعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا بلکہ خود مراعات یافتہ طبقات کی طرف سے اپنی مراعات میں اضافے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور مطالبات سامنے آتے رہے، جن کو ملک کے عام دھارے کے میڈیا نے کثرت سے رپورٹ کیا۔ عام لوگ حیرت اور افسوس سے یہ دیکھتے رہے کہ ایک طرف ملک کے سنجیدہ ماہرین معاشیات دان بحران سے نکلنے کا ایک راستہ یہ بھی بتاتے رہے کہ ملک کے مراعات یافتہ طبقات کی مراعات میں کمی کی جائے، اور دوسری طرف عین بحران کے وسط میں مراعات یافتہ طبقات مزید مراعات کے مطالبات لے کر سامنے آتے رہے۔
اس صورت حال کی جھلک اس سال موسم گرما میں دکھائی دیتی رہی۔ اس کی ایک شہکار مثال سینیٹ میں ایوان بالا کے ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل تھا۔ اس بل کا دفاع خود چئرمین سینیٹ نے کیا، جس کے تحت سینیٹ کے چئیرمیں، ڈپٹی چئیرمین سمیت تمام اراکین کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا۔ یہ بل اس وقت کےحکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکین کی اکثریت سے پاس ہوا۔ اس بل کو پیش کرنے میں اور پاس کروانے میں رضا ربانی اور فاروق ایچ نائک نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دونوں اراکین کا شمار پارٹی کے سنئیر رہنماوں میں ہوتا ہے۔ لیکن پارٹی نے حیرت زدہ عوام کو بتایا کہ وہ اس بل سے اتفاق نہیں کرتی اور اس کو قومی اسمبلی سے پاس نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ذرائع ابلاغ خصوصا سوشل میڈیا پراس بل پر سخت اعتراضات ہوئے، اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ اس بل کے زریعے چئرمین سینیٹ کی تنخواہ میں اضافے کو دیکھ کر عام آدمی کو سخت صدمہ ہوا۔ اس بل میں کہا گیا کہ چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی۔ چیئرمین اگر کراے کے گھر میں رہتے ہیں، تو گھر کا کرایہ پانچ لاکھ روپیہ ماہانہ تک اور اگر چئرمین اپنے گھر میں رہتے ہیں تو انہیں ڈھائی لاکھ روپیہ کرایہ ادا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سفری اخراجات میں طیارہ کرائے پر لیا جا سکتا ہے، جس میں خاندان کے چار افراد کو ساتھ لے جایا جا سکتا ہے۔ فضائی حادثے کی صورت میں سرکار کی طرف سے ورثا کو ایک کروڑ روپیہ معاوضہ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اہلیہ سمیت سرکاری خرچ پر بیرونی ملک میں علاج سمیت کئی دوسری مراعات اس بل شامل تھیں۔
اس بل کی منظوری کے لیے اس کا موازنہ چئیرمین نے بیرونی ترقی یافتہ ممالک سے کیا، جہاں پانچ ہزار ڈالر تنخواہ ہے، اور کہا کہ اس بل سے قومی خزانے پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ یہ روئداد ہے ایک ایسے ادارے کی، جو ایک منتخب نمائدہ ادارہ ہے، اور کسی نہ کسی شکل میں عوام کے آگے جواب دہ ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو ادارے منتخب نہیں یا عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں ، اپنی مراعات کو لیکر ان کا رویہ اور طرز عمل کیا ہوگا۔ اسی طرح مسائل زدہ عوام کو ورطہ حیرت میں ڈالتے ہوئے اس سال اگست میں صدر پاکستان نے بھی اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے وزارت خزانہ کے نام اپنے ایک خط میں یہ مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ان کی تنخواہ میں اضافہ دراصل قانونی تقاضا ہے، چونکہ قانون کے مطابق صدر پاکستان کی تنخواہ ملک کے چیف جسٹس کی تنخواہ سے ایک روپیہ زیادہ ہونی چاہیے۔ یہ قانون ملک کی پارلیمنٹ نے بنایا جو منتخب ادارہ ہے۔
صدر سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ گزشتہ پانچ سال میں چیف جسٹس کی تنخواہ میں دو دفعہ اضافہ کس قانون کے تحت کیا گیا، اور اسی اضافے کی وجہ سے ان کی تنخواہ صدر مملکت کی تنخواہ سے بڑھ گئی۔ یہ تو بات ہے صرف تنخواہ کی لیکن اصل سوالیہ نشان تو ان مراعات پر لگایا جاتا ہے جو مختلف لوگوں کو حاصل ہیں، اور کئی دفعہ ان مرعات کے معاشی نتائج تنخواہوں سے کئی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں پنجاب کی صوبائی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نےاپنے ایک اجلاس میں گیارہ ججز کو گھروں کی تعمیر کے لیے چھتیس کروڑ سے زائد کے بلاسود قرضے منظور کیے۔ یہ قرض اوسطا ساڑھے تین کروڑ روپے فی جج بنتے ہیں۔سیکورٹی، خدمت گار سٹاف، گاڑیوں اور پیٹرول کی مد میں اربوں روپے کی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ سرکاری اہل کاروں کے علاوہ کاروباری اور دیگر مراعات یافتہ طبقات کو کروڑوں روپے کی سبسیڈی دی جاتی ہے، جو اب کوئی راز نہیں ہے۔
♠