بصیر نوید
صدیوں پہلے نانی ماتا نے بدی کی علامت راکشس کو اپنے غیض و غضب سے ماردیا تھا، جسے وہاں کے لوگ علاقے کے نام کی مناسبت سے ہنگول راکشس کہتے ہیں۔ ویسے راکشس کا کوئی نام نہیں ہوتا یہی نام عطا چانیو کی ہنگلاج پر بنائی ہوئی خوب صورت ڈاکومنٹری میں لیا گیا ہے۔ جس جگہ راکشس کو نانی ماتا نے واصل جہنم کیا اسے ہنگلاج کہا جاتا ہے جو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع ہے اور کھیر تھر پہاڑی سلسلہ کا آخری حصہ ہے جو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع ہے۔
یہ بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے پہاڑی، ندی نالے اور سبزہ ہے یہ پہاڑ پرانے نوعیت کی ہیں جو مٹی کی ہیں اور جابجا خوبصورت غار بھی ہیں۔ اس علاقے کو ہنگلاج ماتا کے نام پر ہنگلاج کہتے ہیں۔ ہنگلاج ماتا کو عرف عام میں نانی ماتا بھی کہتے ہیں۔ جہاں ہر سال ہزاروں یاتری جاتے ہیں خاص کر جوگیوں کے قافلے (جنہیں مقامی زبان میں سوامی بھی کہتے ہیں) سینکڑوں میلوں کا پیدل سفر کرکے پہنچتے ہیں اور نانی کے مندر پر پہنچتے ہیں۔
ہنگلاج میں کہا جاتا ہے کہ ایشور کا درشن ہوتا ہے۔نانی کے نام سے دو مندر ہیں ایک چھوٹا اور ایک بڑا۔ چھوٹے مندر پر راکشس کا سامنا نانی ماتا سے ہوتا ہے جلالی چہرے کو دیکھنے کے بعد راکشس نے معافی مانگی لیکن نانی نے انہیں بخشا نہیں انکے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد راکشس چند سو فٹ دور تک بھاگا پھر اسے نانی نے پکڑ لیا اور اسے واصل جہنم کردیا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی بھی جوگیوں کے ساتھ سن سے براستہ کراچی ہنگلاج آئے تھے انہوں نے اپنی شاعری رام کلی سر میں اس کا تفصیل سے ذکر بھی، وہ کہتے ہیں لوگوں کو اپنی منزل پانےکے لیے خدا کی تلاش کیلئے لمبے لمبے سفر کرنا پڑتے ہیں مگر یاتریوں کو ہنگلاج میں ہی خدا مل گیاہے۔
لوگوں کیلئے راکشس مرگیا تھا مگر یوں لگتا ہے کہ راکشس نے دوبارہ جنم لیا ہے اور اس نے کراچی سمیت سندھ پر اپنے منحوس سائے کو پھیلادیا ہے۔ سندھ میں اسے اپنی تمام چالاکیوں اور قبضہ گیری سے روکنے والا کوئی نہیں تھا سندھ کی حکومت، بیوروکریسی و انتظامیہ کو تو چھوڑیئے اعلی ترین عدلیہ نے بھی دامے، درمے سخنے راکشس کے ساتھ وہ تعاون کیا جس کی راکشس کو بھی قطعی امید نہیں تھی۔ اس نےکراچی کے ملیر ضلع میں قبضہ گیری کا آغاز کرتے ہوئے صدیوں پرانے گوٹھوں کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے کیلئے بحری افواج کے نام سے ایک بڑی رہائشی اسکیم تعمیر کی۔اس نے سندھ کی تاریخ، ثقافت، لوک داستانوں، اسکی عظیم شخصیات کی یادگاروں کو تباہ و برباد کرنے پر کمر کس لی ہے۔۔
سپریم کورٹ نے پہلے تو بحریہ ٹاؤن کراچی کے پروجیکٹ کو2018 میں مکمل طور پر ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا۔ اس کیلئے سندھ حکومت، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سپریم کورٹ نے پہلے ہی ارب ہا رقم معاف کردی۔لیکن پھر 2019 میں سپریم کورٹ کی تین رکنی نظرثانی بنچ نے تھرڈ پارٹی انٹرسٹ کے پیش نظر 460 ارب روپے کا جرمانہ عائد کرکے اسے سات سالوں میں ادا کرنے کا حکم صادر کیا گیا۔ وہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی ہوگی۔ سپریم کورٹ کی فراغ دلی دیکھئے کہ اس نے بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار 800 ایکڑ پر تعمیرات کی اجازت دیدی۔ سپریم کورٹ کی عنایت نے راکشس کی ایسی حوصلہ افزائی کی اس نے 16 ہزار 800 ایکڑ کی بجائے 42 ہزار ایکڑ پر غیر قانونی طور سے قبضہ کرلیا۔
کیا یہ خوب فیصلہ ہے کہ جن غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا وہ تو دھتکار دیئے گئے، جیلوں میں گئے، بیروزگار ہوگئے اور اوپر سے بے گھر بھی ہوئے، برباد کردیئے گئےمگر ججوں نے بہت خوبصورت سودا کرکے رقم کو اپنے قبضے میں محفوظ کرلیا۔ سندھ اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ کالے جبوں میں ملبوس انصاف کے لٹھ برداروں کی طرف سے کھلی من مانی کی اجازت کے تئیں راکشس نے سب سے پہلے سندھ کے عظیم شاعر شاعر شاہ عبدالطیف کے وہاں صدیوں سے موجود تکیہ کو مسمار کرکے ایک طویل و عریض مسجد بنادی اور دعوٰی ہے کہ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے جس کیلئے اس نے کسی مقامی مولوی کو پیش امام بنانے کی بجائے خیبر پختونخواہ سے ایک مولوی کو بلا کر پیش امام لگایا جو مقامی زبان اور رہن سہن بھی واقف نہیں ہے جس کے سبب مسجد بھی کسی اور آبادی کیلئے سمجھی جاتی ہے۔
جس جگہ یہ رہائشی کالونی اور مسجد بنی ہے وہ بھی سسی پنوں کا بلوچستان جانے اور آنے کا راستہ تھا۔ یوں راکشس نے سندھی داستانوں اور ثقافت کو مٹانے کے فریضہ پر جٹ گیا۔ اب راکشس نیشنل پارک کھیر تھر میں پہنچ گیا جو کہ ضلع جامشورو کا حصہ ہے۔پارک پر قبضہ کرنے کیلئے اس نے وہاں کی جنگلی حیات کے خاتمے کا آغاز کردیا۔ اور اسکی تباہی کا آغاز کردیا ہے۔ کھیر تھر نام کی ایک تاریخی اور نیچر کے حساب سے ایک بڑی اہمیت ہے۔ کھیر تھر سندھی زبان کا لفظ ہے جسے اردو اور انگریزی میں کیر تھر لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ سندھی زبان میں “ک” اصل میں “کھ” کیلئے لکھا جاتا ہے اور کاف کیلئے “چھوٹی کاف” استعمال ہوتی ہے۔ کھیر کا سندھی میں مطلب دودھ ہوتا ہے جبکہ تھر کا مطلب بیاباں یا ایسا علاقہ جہاں دور دور ابادیاں یا چھوٹے گوٹھ ہوں۔ اگر کھیر تھر کا عام مطلب لیا جائے تو وہ ہوگا دودھ بھرا بیاباں یا علاقہ۔
اسکی توجیح یہ ہے کہ بارشوں اور ساون بھادوں میں پورا علاقہ انتہائی ہرا بھرا خوبصورت ہوجاتا ہے۔ اسی سبب دودھ دینے والے جانور جن میں گائے بھینسیں، بکرے بکریاں، دنبے، بھیڑیں، نیل گائے، ہرن اور بارہ سنگھے اور بیشمار قسم کے پرندے وغیرہ سمیت متعدد جانور شامل ہیں اس ہریالی سے نئی زندگی پاتے ہیں۔ یہاں موجود سبزہ، پودوں، جھاڑیوں اور درختوں کے بارے بتایا جاتا ہے کہ ان درختوں اور جھاڑیوں میں دودھ کی سی خوشبو ہوتی ہے جو انکے دودھ اور گوشت میں بھی سرایت کرتی ہے۔ نامور تاریخ داں گل حسن کلمتی مرحوم نے اپنی کتاب
Karachi: Glory of the East
میں کھیر تھر نیشنل پارک اور اسکے اطراف کے علاقوں میں ان جھاڑوں کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ان جانوروں کے گوشت میں بھی یہی مسحور کن خوشبو و ذائقہ سرایت کرجاتی ہے جس کے سبب یہاں کے گوشت یا جانوروں کو خرید کر حکام و سفارتکاروں کی دعوتیں کی جاتی ہیں۔ یہ وہ کھیر تھر پارک ہے جسے عالمی طور پر بھی نیشنل پارک قرار دیا جاچکا ہے جہاں مقامی اور عالمی قوانین و اصولوں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوسکتی اور نہ ہی یہاں کسی نوعیت کی کٹائی ہوسکتی ہے مگر حکام نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس نے اپنی مداخلت کو بڑھانے کیلئے وہاں ایک ہوٹل قائم کیا جہاں آس پاس کے چھوٹے گوٹھوں کے غریب مزدوروں اور ہاریوں کے واسطے بہت ہی سستے داموں کھانا فراہم کیا جاتا ہے جو رقم ادا نہیں کرسکتے انہیں مفت کھانا بھی دیا جاتا ہے۔
جس کثرت سے وہاں درخت کاٹے گئے اس نے اپنی چالاک ذہنیت سے ان درختوں کو اٹھانے سے منع کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں غریب آبادی کو مفت ایندھن مہیا ہوجاتا ہے۔ جن کی تلاش کیلئے نہ صرف دور دراز علاقں تک جانا پڑتا تھا اور اچھے خاصے پیسے بھی خرچ کرنے ہوتے تھے اب گھروں کے پاس ہی بغیر تگ و دو کے مفت میں ایندھن میسر ہوگیا اور مقامی آبادی کی طرف سے جس مزاحمت کا خطرہ ہوتا ہے وہ ٹل گیا۔ یوں چرند و پرند ان متاثرہ دیہہ سے غائب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
نیشنل پارک کے اندر گھس کر راکشس نے ندیوں، پانی کے ذخائر اور درختوں تباہ کردیا ہے، خاص کر دیہہ تھدو اور مول ندی سمیت اسکے اطراف دیدہ زیب علاقوں کی خوبصورتی ختم کردی گئی۔ ویسے ہی جامشورو کا انڈسٹریل علاقہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی زد میں آچکا ہے اس طرح بہت سارے تاریخی مقامات کے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ راکشس کو چمن کے مالکوں کی بھرپور حمایت و پشت پناہی حاصل ہے کیونکہ چمن کے مالی جب ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں تو پھر اسی راکشس کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اب سندھ کو راکشس سے بچانا مشکل لگتا ہے۔
یہ بالکل واضح ہوگیا ہے کہ بحریہ ٹاون کو عنقریب نیشنل کھیر تھر پارک کو ہاوسنگ اسکیم کیلئے ایک بڑا حصہ دیدیا جائے گا۔حکام نے کینجھر سے جھڑک تک کے وسیع علاقے کو دینے کا ارادہ کرلیا ویسے بھی اس کے پیچھے چمن کے مالی موجود ہیں۔
♣
2 Comments